Topics

پہلے موذن

 

مسجد نبوی جس دن مکمل ہوئی تمام لوگ تھک ہار کر مسجد کے فرش پر آرام کرنے لگے۔ ہلکی ہلکی دھوپ چھپر  پر پڑے ہوئے کھجوروں کے پتوں کے درمیان سےچھن چھن کر نیچے آرہی تھی۔ سبز پتوں کا سایہ آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا رہاتھا۔ ہر شخص مسجد کی تعمیر کے پہلووں پر تبصرہ کررہا تھا۔سب بہت خوش تھے۔ حضرت علیؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا:

میرے خیال میں مسجد میں ایک کمی ہے۔

سب ان کی طرف متوجہ ہو گئےانہوں نے اوپر چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:” وہاں کچھ ہونا چاہیئے،کچھ ایسا انتظام جس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلایا جا سکے۔

حضرت عمارؓ بولے۔۔۔۔۔۔۔

میرے خیال میں مسجد پر ایک جھنڈا لگا دیں۔نماز کے وقت پرچم کشائی کر لیا کریں اور نماز کے بعد اتار دیں۔

آس پاس کے سب لوگ گفتگو میں شامل ہوگئے۔حضرت محمدﷺ یہ گفتگو دلچسپی سے سنتے رہے مگر کچھ نہیں فرمایا۔

کسی نے کہا۔۔۔۔۔۔۔”ہم چھت پر گھنٹیاں کیوں نہ لٹکا دیں۔

کوئی صاحب بولے۔۔۔۔۔۔۔۔”گھنٹیاں تو کلیساوں میں لگاتے ہیں۔

کسی نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نقارہ بجانا چاہیئے۔

ایک صاحب بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نقارہ جنگ اور خون کی یاد دلاتا ہے۔ہمارا دین امن اور سلامتی کا دین ہے۔

ایک بزرگ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مناسب رہے گا کہ قرنا پھونکا جائے اس کی آواز بہت دور تک سنائی دیتی ہے۔

کوئی صاحب بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” قرنا تو مینڈھے کے سینگ سے بنایا جاتا ہے یہ کوئی اچھی علامات نہیں ہے۔

اور پھر خاموشی چھا گئی۔جھنڈا، گھنٹیاں، نقارہ، قرنا کوئی بھی ان تجاویز سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ گھنٹیوں کی آواز دیر تک کانوں میں گونجتی رہتی ہے،نقارہ دوران خون کو تیز کرتا ہے، جھنڈا ہوا کے رخ پر اڑتا ہے اور مخالف سمت سے نظر ہی نہیں آتا۔ پھر جھنڈا سوتے ہووں کو کیسے جگائے گا؟

حضرت عبداللہ بن زیدؓ آئے۔ شرمیلے اتنے تھے کہ ڈرتے تھے ان کی باتوں سے کوئی نا خوش نہ ہو جائے مگر خذرج کا یہ شرمیلا نوجوان اگلے ہی لمحہ ساری کائنات کو مرتعش کرنے والا انسان تھا۔

حضرت بلالؓ حضرت محمدﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت عبداللہؓ آپﷺ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت بلالؓ وہاں سے اٹھ گئے تاکہ حضرت عبداللہؓ  اطمینان سے بات کر لیں۔حضرت عبداللہؓ نے نہایت دھیمی آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یا رسول اللہﷺ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سبز کپڑے پہنے ہوئے ایک شخص ہاتھ میں ناقوس لیے جا رہا ہے۔میں نے اس سے کہا:

اے اللہ کے بندے! یہ ناقوس تم مجھے فروخت کر دو گے۔

اس سبز پوش نے پوچھا تم کیا کرو گے؟

میں نے کہا،اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاؤں گا۔

اس شخص نے کہا نماز کے لئے بلانے کا میں تمہیں اس سے بہتر طریقہ بتاتا ہوں۔تم اس طرح کہا کرو۔

اَللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اَكْبَرُ          اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔

اَللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اَكْبَرُ           اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ     میں گوہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ     میں گوہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللهِ    میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللهِ    میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

حَىَّ عَلَى الصَّلَوةِ             آؤ نماز کی طرف۔

حَىَّ عَلَى الصَّلَوةِ             آؤ نماز کی طرف۔

حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ              آؤ کامیابی کی طرف۔

حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ              آؤ کامیابی کی طرف۔

اَللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اَكْبَرُ           اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔

اَللَّهُ اَكْبَرُ اَللَّهُ اَكْبَرُ           اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔

لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ                 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔

خواب سن کر حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

عبداللہ۔ تمہارا خواب سچا ہے۔نماز کیلئے اسی طرح بلایا جائے گا۔

اب سوال یہ تھا کہ یہ الفاظ کس انداز میں اور کیسے ادا کیےجائیں۔میٹھے لہجے میں، نرم لہجے میں، اعلانیہ انداز میں، مرد کی آواز میں، عورت کی آواز میں،بچے کی آواز میں، کسی نوجوان کی آواز میں، کسی بزرگ کی آواز میں یا بیک وقت کئی لوگوں کی آواز میں۔

حضرت محمدﷺ نے حضرت بلالؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا:

بلال تمہاری آواز میں۔

پھر حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

عبداللہ! تم بلال کو یہ الفاظ یاد کرا دو۔

مسجد میں بیٹھے ہوئے سارے لوگوں کی نگاہیں حضرت بلالؓ پر مرکوز ہو گئیں۔ حضرت بلالؓ ابھی تک حضرت محمدﷺ کے فیصلے کے سرور میں تھے۔انہوں نے سوچا کہ مجھ ناچیز سیاہ فام حبشی کے ذمہ یہ خدمت سپرد کر دی گئی ہے کہ میں مسلمانوں کو نماز کی سعادت کے لئے بلایا کروں۔یہ میرے لیے کتنی بڑی سعادت ہے۔

پھر حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

بلال تمہاری آواز سب سے اچھی ہے۔اسے اللہ کی راہ میں استعمال کرو۔

حضرت زیدؓ جو حضرت بلالؓ کے پاس ہی بیٹھے تھے۔حضرت بلالؓ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے:

کاش میرے پاس اسلام کو دینے کے لئے کوئی ایسا تحفہ ہوتا۔

انہی باتوں میں نماز کا وقت ہوگیا تو اللہ کے رسولﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا اور ایک چھت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:

جاؤ چھت پر جا کر لوگوں کو نماز کے لیے بلاو۔

جس چھت کی طرف اشارہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا وہ مسجد سے ملحق بنو نجار کی ایک خاتون کے گھر کی کچی چھت تھی۔حضرت بلالؓ حسب حکم اس چھت پر چڑھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر بلند آواز میں آذان دی۔

پوری دنیا میں ہر روز پانچ دفعہ اذان کے الفاظ فضاء میں گونجتے ہیں۔مختلف ممالک میں طلوع اور غروب کے اوقات کے فرق کی وجہ سے کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جب دنیا کے کسی نہ کسی حصہ سے اذان کی آواز بلند نہ ہو رہی ہو۔حضرت بلالؓ اذان دے کر نیچے اترے تو حضرت محمدﷺ نے انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ چاروں طرف لوگ اِدھر اُدھر آجا رہے تھے۔اذان کی آواز سن کر محلے کے بچے اکٹھے ہو گئے تھے۔حضرت بلالؓ کی طرف اشارہ کر کے ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہے تھے۔سن کے چہروں پر مسکراہٹ تھی۔بہت دیر تک آپ ﷺ نے کچھ نہیں فرمایا حضرت بلالؓ بھی خوشی سے سرشار تھے کہ حضرت محمدﷺ نے فرمایا۔۔۔۔

بلال، تم نے میری مسجد مکمل کر دی۔

 


Bachon Ke Mohaamad (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔