Topics

اسلام کی ابتداء

 

پیارے بچو!

خانہ کعبہ مکہ شہر میں واقع ہے۔خانہ کعبہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے۔جب کوئی بندہ خانہ کعبہ کو دیکھتا ہے تو اس کا ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس کی روح میں اللہ تعالیٰ کا نور بھر جاتا ہے۔اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھ جاتی ہے۔خانہ کعبہ کی وجہ سے شہر مکہ کو ہمیشہ سے خاص اہمیت حاصل ہے۔

حج کے موقع پر مختلف قبیلوں کے لوگ دور دور سے خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ میں جمع ہوتے ہیں۔

حضرت محمدﷺ کا معمول تھا کہ تمام قبائل سے ملاقات کر کے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے تھے۔حج کے دنوں میں عقبہ کے مقام پر کچھ افراد جن کی تعداد بارہ تھی،حضرت محمدﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔یہ لوگ یثرب سے آئے تھے(شہر مدینہ کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا)۔حضرت محمدﷺ نے انہیں اسلام کی تعلیمات پیش کیں۔ان لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔اسلام میں داخل ہونے کے بعد حضرت محمدﷺ نے ان لوگوں سے مندرجہ ذیل باتوں پر عہد لیا۔

۱۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔

۲۔ خواتین کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں گے۔

۳۔ اپنی بیٹیوں کو قتل نہیں کریں گے۔

۴۔ جھوٹ نہیں بولیں گے۔

۵۔ چوری نہیں کریں گے۔

۶۔ جان و مال کے ساتھ حضرت محمدﷺ کی حمایت کریں گے۔

۷۔ اسلام کی حمایت کے لئے کفار سے لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔

 

یہ لوگ واپس یثرب جانے لگے تو حضرت محمدﷺ نے حضرت مصعب بن عمیرؓ کو ان کے ساتھ کر دیا تاکہ وہ یثرب کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات سکھائیں۔

حضرت مصعب بن عمیرؓ مدینے میں آکر اسعد بن زرارہ کے گھر مہمان ٹھہرے۔جو مدینے کے نہایت معزز آدمی تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ روزانہ یثرب کے چند گھروں کا دورہ کرتے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ حضرت مصعب بن عمیرؓ کی کوششوں سے روزانہ ایک یا دو آدمی مسلمان ہو جاتے تھے۔

نبوت کے تیرھویں سال یثرب سے آنے والے ۷۵ لوگوں نے حضرت محمدﷺ سے ملاقات کی اور اسلام قبول کر لیا۔انہوں نے حضرت محمدﷺ کو دعوت دی کہ حضرت محمدﷺ اور دوسرے مسلمان یثرب آجائیں اور اسلام کے لئے جان و مال قربان کرنے کے عہد کو دہرایا۔

کفار مکہ نے اسلام کی مخالفت اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کردی تھی،انہوں نے حضرت محمدﷺ کو تکلیف پہنچانے اور اسلام پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح سے ظلم کا نشانہ بنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی۔مشرکین مکہ حضرت محمدﷺ کی دشمنی میں اتنے آگے بڑھ گئے تھے کہ اگر کوئی ان کے گھر کا پتہ پوچھتا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ پتہ پوچھنے والا یا تو مسلمان ہے یا پھر مسلمان ہونا چاہتا ہے۔لہٰذا، اس کو پتھر مارنا شروع کر دیتے تھے۔

حضرت محمدﷺ نے قریش کے مظالم کو دیکھ کر مسلمانوں کو ہدایت کی کہ وہ مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کر جائیں۔مسلمان اپنے گھر، کاروبار، عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑ کر مکہ سے یثرب ہجرت کر گئے۔

اب مکہ میں صرف حضرت محمدﷺ اور چند مسلمان رہ گئے تھے۔حضرت محمدﷺ کو ہجرت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم  کا انتظار تھا۔کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ  کے فرمان کے مطابق حضرت محمدﷺ بھی ہجرت فرما کر یثرب چلے گئے اس دن سے اس شہر کا نام مدینہ النبیﷺ ہو گیا۔


Bachon Ke Mohaamad (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔