Topics

مسجد نبویﷺ

 

مدینے پہنچنے کے دوسرے دن حضرت محمدﷺ نے مسجد کی بنیاد رکھی۔مسجد کی تعمیر میں ہر شخص نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حضرت محمدﷺ نے سب کے ساتھ مل کر کام کیا۔اینٹیں بنائیں، لکڑیاں کاٹیں،  جھاڑیاں صاف کر کے زمین ہموار کی۔سیڑھیاں بنائیں،ان پر چڑھ کر اینٹیں اور گارا،  اوپر پہنچایا، حضرت محمدﷺ مسجد کی تعمیر میں ضروری ہدایات بھی دیتے رہے۔

جب حضرت محمدﷺ بھاری بھاری اینٹیں اٹھاتے تو صحابہ کرامؓ دوڑ کر آتے اور حضرت محمدﷺ سے اینٹیں لے لیتے۔ مگر پھر حضرت محمدﷺ دوسری اینٹ اٹھا لیتے تھے۔

حضرت محمدﷺ مختلف کام سر انجام دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ مسکراتے بھی تھے۔لوگ بھی انہیں دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ حضرت محمدﷺ کے گرد جمع ہونے والوں لوگوں نے حضرت محمدﷺ کا ہاتھ بٹایا  اور مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔

کچھ فاصلے پر حضرت بلالؓ بھی کام میں مشغول تھے۔جب انہوں نے دیکھا کہ بچے حضرت محمدﷺ کے گرد جمع ہو گئے ہیں تو بچوں کو منع کیا۔حضرت محمدﷺ بچوں کو روکنا بھی نہیں چاہتے تھے اور حضرت بلالؓ کی بات بھی رد کرنا نہیں چاہتے تھے لہذا حضرت محمدﷺ نے کمال فراست سے فرمایا:

بچو! دیکھو بے چارہ بلال اکیلا کام کر رہا ہےتم بلالؓ کی مدد کرو۔

بس پھر کیا تھا سارے بچے حضرت بلالؓ کی طرف شور مچاتے ،اچھلتے کودتے خوش ہوتے ہوئے دوڑ پڑے۔حضرت بلالؓ نے کام میں خلل ہونے کی وجہ سے بچوں کو روکا تھالیکن معاملہ الٹ ہو گیا۔حضرت بلالؓ بوکھلا گئے اور دوڑ کر اونچی جگہ پر چڑھ گئے اور  یا بلالؓ  کہہ کر بچے شور کرتے رہے اور تالیاں بجاتے رہے۔

بچوں نے کہا:

بابا بلالؓ! ہم آپ کا ہاتھ بٹانا چاہتے ہیں۔

حضرت بلالؓ جانتے تھے کہ بچوں کے ہاتھ بٹانے کا کیا نتیجہ ہو گا لہذا وہ نیچے نہیں اترے اور حضرت محمدﷺ کی طرف بے بسی سے دیکھا تو حضرت محمدﷺ تبسم فرمارہے ہیں اور حضرت بلالؓ بھی ہنسنے لگے۔

ایک مرتبہ پیارے نبی ﷺ نے ایک بچے کو گود میں اٹھایا۔اس کے ہاتھ میں ایک پتھر دیا اور کندھوں سے اونچا کر کے اس سے کہا:

یہ پتھر دیوار میں لگادو۔

بچے نے پتھر لگا دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

شاباش اب تم اپنے دوستوں کو بتانا اس مسجد کو بنانے میں میرا بھی حصہ ہے۔

حضرت محمدﷺ ہمیشہ یہ تعلیم دیتے تھے کہ:

اللہ تعالیٰ کام کرنے والے لوگوں سے پیار کرتا ہے۔


Bachon Ke Mohaamad (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔