Topics

مراقبہ کے مدارج

غیب کی آزاد دنیا میں شعوری سطح پر یا لاشعوری سطح پر سفر کرنا مراقبہ ہے۔

قانون:

سونے سے پہلے آدمی کے اوپر تین کیفیات وارد ہوتی ہیں۔ پہلی کیفیت پر سکون ہونا، دوسری کیفیت خمار اور تیسری کیفیت نیند ہے۔ جب کوئی آدمی بیدار رہتے ہوئے مراقبہ کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بناتا ہے تو اس کے اوپر بھی ابتدائی تین کیفیات وارد ہوتی ہیں۔ پہلے اس کے اوپر ہلکی سی نیند کا غلبہ ہوتا ہے اس کیفیت کا نام غنود ہے یعنی سالک نے بیداری کے حواس میں رہتے ہوئے کوئی ایسی چیز دیکھی جو عام آدمی کو کھلی آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ دیکھنے میں ایک ایسا پردہ حائل ہو گیا جس پردے نے اس چیز کو بھلا دیا۔ مسلسل مراقبہ کرنے سے شعور کے اندر سکت پیدا ہو جاتی ہے اور بیداری کے حواس میں بند آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیزیں نسبتاً زیادہ یاد رہنے لگتی ہیں۔ لیکن ذہن کی رفتار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان دیکھی ہوئی چیزوں کا آپس میں ربط قائم نہیں ہوتا۔ ایک طرف ذہن زمین کی چیز دیکھتا ہے دوسری طرف آسمان کی چیز دیکھتا ہے اس کیفیت کا اصطلاحی نام ‘‘ورود‘‘ ہے۔ جب دیکھی ہوئی چیزیں زیادہ روشن اور واضح ہونے لگتی ہیں اور جو مناظر باطنی آنکھ کے سامنے آتے ہیں وہ یاد رہتے ہیں لیکن مناظر کے پس منظر میں جو مفہوم ہے وہ ذہن نشین نہیں ہوتا اور دیکھنے کے بعد آدمی اپنی عقل سے اس میں معنی پہنانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی معنی صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر اس میں غلطی کا امکان ہے۔ اس صلاحیت کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفے کی صورت یہ ہے کہ آدمی عالم مراقبہ میں جو چیزیں دیکھتا ہے اس کا مفہوم بھی ذہن نشین ہو جاتا ہے۔ مکاشفہ کی کیفیت مراقبہ کے بغیر بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ آدمی اگر ارادی یا غیر ارادی طور پر یکسو ہو جائے تو بہت دور پرے کی باتیں اس کے دماغ میں آنے لگتی ہیں لیکن اس طرح دماغ کی اسکرین پر مناظر کی عکاسی شعور کے لئے بار بنتی ہے اور سالک اس بار کو برداشت نہیں کرتا۔ عقلی اور شعوری طور پر وہ بے خبر ہو جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ کیفیت اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے جیسے جیسے مکاشفے کی صلاحیت طاقتور ہوتی ہے اسی مناسبت سے شعوری سکت بڑھتی رہتی ہے۔ لاشعوری اطلاعات اور تحریکات کو قبول کرتے ہوئے شعور کوئی وزن محسوس نہیں کرتا۔ شعور جب اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ لاشعوری تحریکات کو قبول کرنے میں دباؤ محسوس نہ کرے، دماغ کے اوپر بے خبری طاری نہ ہو اور آدمی کے اعصاب بیدار زندگی کی طرح کام کرتے رہیں تو یہ مکاشفے کے بعد کی دوسری کیفیت ہے۔ اس کیفیت کا نام مشاہدہ ہے۔ مشاہدے سے مراد ہے کہ ایک آدمی زمین پر بیٹھے ہوئے زمین کے اوپر موجود چیزیں بھی دیکھتا ہے۔ زمین کے اوپر موجود اشیاء سے لطف اندوز بھی ہوتا ہے۔ اپنی غذائی ضروریات بھی پوری کرتا ہے اور باطنی طور پر ماورائی دنیاؤں کی سیر بھی کرتا ہے۔

مشاہدے کی یہ کیفیت آدمی کو عالم اعراف میں لے جاتی ہے۔ عالم اعراف وہ عالم ہے جہاں دنیا کے باسی مرنے کے بعد جا بستے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ عالم اعراف اور اس دنیا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جس طرح دنیا میں کوئی فرد کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے، ہنستا روتا ہے، غمگین اور خوش ہوتا ہے۔ اس کے اندر محبت کا طوفان اٹھتا ہے یا اس کے اندر نفرت کا لاوا اُبل پڑتا ہے، جس طرح کسی بندے کو دنیا میں دوستوں کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ دوستوں کے کام آتا ہے اور دوست اس کے کام آتے ہیں، جس طرح اسے دنیا میں سردی اور گرمی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وسائل کی احتیاج ہوتی ہے۔ اسی طرح عالم اعراف کی زندگی میں وہ کھاتا پیتا ہے، سوتا جاگتا ہے اور زندگی کی ساری ضروریات پوری کرتا ہے۔ اگر اس عالم رنگ و بو (عالم ناسوت) میں آدم کو سر چھپانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس عالم میں بھی چھت کے نیچے رہتا ہے۔ جس طرح اس زمین پر مکانات اور بلڈنگیں ہیں اس ہی طرح عالم اعراف میں بھی مکانات اور بلڈنگیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں وسائل حاصل کرنے کے لئے اجتماعی یا انفرادی تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔

عالم اعراف کی دنیا اتنی خوبصورت ہے کہ اگر آدم زاد اس کو دیکھ لے تو اس تنگ و تاریک مادی دنیا کی حیثیت اس کے سامنے کچھ نہیں رہتی۔ جب کوئی بندہ عالم مشاہدہ میں داخل ہونے کے بعد عالم اعراف کا نظارہ کر لیتا ہے تو اس کے اوپر سے کشش ثقل ٹوٹ جاتی ہے۔ کشش ثقل ٹوٹ جانے سے مراد یہ نہیں ہے کہ بندہ لطیف ہو کر ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ کشش ثقل ٹوٹ جانے سے مراد یہ ہے کہ اس کے اندر حرص و حوس نہیں رہتی۔ مال و زر کی محبت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مال و زر کی فراوانی سے جو کبر و نخوت اور شیطانیت پیدا ہوتی ہے اس سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت اس بندے کا یقین بن جاتی ہے کہ بہرحال مجھے اس دنیا سے اس دنیا میں منتقل ہونا ہے۔

نوٹ:
استدراجی علوم کی معراج مراقبہ میں غنود اور  ورود تک ہے۔ یہ لوگ متواتر اور مسلسل مشقوں سے اپنے اندر غنود اور درود کی صلاحیتوں کو اتنا بیدار کر لیتے ہیں کہ ان سے بہت ساری خرق عادات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔