Topics

جنت و دوزخ کے طبقات

اللہ کریم نے اپنے محبوبﷺ سے فرمایا کہ یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپﷺ کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے اور جو کچھ تمہیں علم دیا گیا ہے وہ قلیل ہے یعنی روح کا علم تو دیا گیا ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں اس کی حیثیت قلیل ہے۔ یعنی روح کا علم تو دیا گیا ہے لیکن اللہ کے علم کے مقابلے میں اس کی حیثیت قلیل ہے۔ یہاں ایک نقطہ زیر بحث آتا ہے۔ اللہ خود ماورا ہے اللہ کا علم لامحدود، لامتغیر، لامتناہی اور ماورا الماورا ہے۔ لامتناہی علم کا قلیل سے قلیل جزو بھی لا تناہیت کے دائرے میں آتا ہے،روح کا جو علم دیا گیا ہے گو کہ قلیل ہے مگر لاتناہی علم قلیل ہے۔ اس لئے اس کو بھی اور لامتناہی کے قلیل جزو کو بھی، لاتناہی علم ہی کہا جائے گا۔

اس آیت مبارکہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں ہے کہ روح کا علم نہیں دیا گیا۔ رسول اللہﷺ کے نائب اولیاء اللہ کو بھی یہ علم منتقل ہوا ہے۔ یہ علم کس کو کس قدر منتقل ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہرحال لامتناہی علم کا چھوٹے سے چھوٹا جزو بھی لامتناہی ہوتا ہے۔

روحانی نقطہ نظر سے زندگی اور موت کی تشریح کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ روح کے بنائے ہوئے جسم مثالی نے مٹی کے جسم کو اس طرح چھوڑ دیا کہ مٹی کے جسم سے اپنا رشتہ کلیتاً توڑ لیا اور اس ناسوتی عالم کے تقریباً دو سو میل اوپر کی فضامیں بکھری ہوئی روشنیوں سے ایک اور جسم تخلیق کر لیا۔ ناسوتی فضا سے دو سو میل اوپر فضا میں جو عالم موجود ہے اس عالم کو عالم اعراف کہا جاتا ہے۔ یہی وہ عالم اعراف ہے جہاں آدم سے لے کر اب تک اور قیامت تک لوگ مرنے کے بعد منتقل ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ جسم مثالی کو روح جس طرح ہر وقت اور ہر آن متحرک رکھتی ہے اس طرح عالم اعراف میں بھی روشنیوں کا جسم ہر وقت اور ہر آن متحرک رہتا ہے۔ عالم اعراف کے بعد ایک اور عالم ہے اس عالم میں بھی جسم متحرک رہتا ہے۔ اس عالم کو ‘‘عالم حشر و نشر‘‘ کہتے ہیں۔ عالم حشر و نشر کی فضا عالم ناسوت اور عالم اعراف سے یکسر مختلف ہے۔ وہاں روشنیوں کا ہالہ عالم اعراف سے زیادہ طاقتور ہے۔ عالم حشر و نشر میں ذہنی رفتار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ جسم مثالی کی ریکارڈ کی ہوئی زندگی سامنے آ جاتی ہے۔

عالم حشر و نشر کے بعد عالم یوم المیزان ہے۔ عالم یوم المیزان میں روشنیوں کے بنے ہوئے اجسام کے اوپر نور کا ہالہ بن جاتا ہے یہی وہ نور ہے جس نور سے کوئی بندہ اللہ کریم کا دیدار کر سکتا ہے۔

ترجمہ:

‘‘کوئی آنکھ ادراک نہیں کر سکتی اللہ خود ادراک بن جاتا ہے۔‘‘

(القرآن)
جب کوئی بندہ اللہ کے ادراک سے دیکھتا ہے تو اس کی نظر عالم یوم المیزان پر پڑتی ہے۔ عالم یوم المیزان کے بعد جنت یا دوزخ کے عالمین ہیں۔ جنت کے بھی بہت سارے طبقات ہیں اور دوزخ کے بھی بہت سارے طبقات ہیں۔ جنت اور دوزخ کا تذکرہ اس بات کی شہادت ہے کہ آدمی دوزخ میں تکلیف محسوس کرے گا اور جنت میں آرام و آسائش سے لطف اندوز ہو گا۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ لطف و آسائش اور آرام روح کو حاصل ہوتا ہے اور اس آرام سے روح فائدے اٹھاتی ہے تو پھر یہ بھی کہنا پڑے گا کہ دوزخ کا عذاب بھی روح کے اوپر ہوتا ہے اور یہ بات کسی بھی طرح صحیح نہیں ہے کیونکہ روح فی الواقع اللہ کا ایک حصہ ہے۔ ایسا حصہ جو لاتجزا ہے۔ ایسا جو لامتناہی ہے اور جو ماورا الماورا ہے۔ روح نقش و نگار میں محدود نہیں ہے۔ روح یہ جانتی ہے کہ خالق کائنات کی مشیت کیا ہے۔ خالق کائنات کی مشیت اور منشاء کے مطابق خود کو نئے نئے لباسوں میں ظاہر کرتی ہے اور ہر لباس کو اس کی موجودگی اور اس کی انا سے مطلع کرتی رہتی ہے۔ یہی وہ اطلاع (
Information) ہے جس کے اندر معانی پہنانا ‘‘اختیار‘‘ ہے۔ سزا ہو یا جزا دونوں کا تعلق اطلاع (Information) سے ہے اور اطلاع کا نزول روح کے تخلیق کردہ جسم پر ہوتا ہے۔ روح جزا و سزا تکلیف و راحت سے مبرا ہے۔


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔