Topics

تیسری آنکھ


ماضی، حال اور مستقبل بنیادی طور پر بیداری اور نیند ہیں۔ جب کہ سمجھا یہ جاتا ہے کہ نیند زندگی نہیں ہے۔ علوم ظاہر کے دانشور جب نیند اور خواب کی دنیا کا تذکرہ کرتے ہیں تو خواب کو ایک خیالی زندگی کہہ کر گزر جاتے ہیں جب کہ خواب اور بیداری کی زندگی الگ الگ نہیں ہے۔ صرف حواس کی درجہ بندی ہے۔ بیداری کے حواس میں  ہم اپنے اوپر پابندی محسوس کرتے ہیں اور خواب کے حواس میں خود کو پابندی سے آزاد دیکھتے ہیں۔ سفر ایک ہے فرق صرف پابندی اور آزادی کا ہے۔

مراقبہ انسان کو حواس کے دونوں رخوں سے متعارف کراتا ہے۔ متعارف ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی تھکان کی وجہ سے ارادتاً پابندی کے حواس سے ہٹ کر ایسے حواس میں قدم رکھنا چاہتا ہے جہاں پابندی نہیں ہے۔

آدمی اعصابی تھکان کی وجہ سے جب سکون چاہتا ہے اور دنیاوی آلام و مصائب اور رنج و غم سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو طبیعت اسے اس زندگی میں لے جاتی ہے جس زندگی کا نام نیند ہے۔ رات اور دن کے شعور میں رد و بدل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی طور پر بے بس ہو کر سو جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اعصابی سکون کے ساتھ اپنے ارادے اور اختیار سے بیدار رہتے ہوئے نیند کے حواس میں منتقل ہو جائے۔ جس مناسبت سے نیند کے حواس بیداری میں منتقل ہوتے ہیں اسی مناسبت سے ماورائی حواس میں ترقی شروع ہو جاتی ہے۔

آدمی سونے کے لئے لیٹتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اعصاب کا کھنچاؤ نرمی اور خمار میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ خمار جب ذرا گہرا ہوتا ہے تو آنکھوں میں ہلکی سی کھٹک ہوتی ہے اورآنکھوں میں پتلیوں کی حرکت بتدریج کم ہو کر ساکت ہو جاتی ہے۔ خمار میں جیسے ہی گہرائی واقع ہوتی ہے آدمی غنودگی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔ غنودگی کا مطلب یہ ہے کہ شعوری حواس لاشعوری حواس میں منتقل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ غنودگی جب اپنے عروج کو پہنچتی ہے یعنی شعوری حواس لاشعور میں منتقل ہو جاتے ہیں تو آدمی سو جاتا ہے۔ یہ زندگی کا روٹین اور مسلسل عمل ہے جو ہر ذی روح کی زندگی میں جاری ہے۔ جس طرح ایک آدمی محنت و مشقت، کام کاج، ذہنی انتشار اور اعصابی تھکان کی وجہ سے سونے پر مجبور ہے اسی طرح بکری، بلی، کبوتر، چڑیا، مچھلی بھی شعوری حواس سے منتقل ہو کر لاشعوری حواس میں منتقل ہونے پر مجبور ہے۔ بیداری کے بعد سونے اور سونے کے بعد بیدار ہونے کا عمل ہر مخلوق میں موجود ہے۔

آدم کو اللہ کریم نے اپنی صفات کا وہ علم عطا کیا ہے جو علم دوسری مخلوقات کو عطا نہیں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم سب کا سب غیبی انکشافات ہیں۔ غیبی انکشافات سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے بندے کے اندر ایسی صلاحیتیں منتقل کر دی ہیں جن صلاحیتیوں کو استعمال کر کے بندہ غیب کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے۔ اللہ چونکہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ غیب کی دنیا میں اللہ کی صناعی کا مشاہدہ کرے اور اللہ کی صفات کا عرفان حاصل کرے اس لئے یہ ضروری ہو گیا کہ بندہ کے اندر ایسی صلاحیتیں موجود ہوں جن صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر خالق کائنات کا منشاء پورا ہو۔

پابند زندگی بیداری ہے اور آزاد زندگی نیند کی دنیا ہے۔ کوئی بھی انسان مراقبہ کے ذریعہ بڑی آسانی کے ساتھ خواب یا نیند کی دنیا میں داخل ہو سکتا ہے۔

مراقبہ دراصل بیداری کے حواس میں رہتے ہوئے خواب دیکھنا ہے یعنی ایک آدمی بیدار ہے جاگ رہا ہے، شعوری حواس کام کر رہے ہیں، زمین کے ارد گرد موجود ماحول اور فضا سے متاثر بھی ہو رہا ہے اور خواب بھی دیکھ رہا ہے۔

مثال:
ایک شخص اپنے جگری دوست کو خط لکھتا ہے۔ خط لکھنے میں اس کا دماغ بھی کام کرتا ہے اس کا ہاتھ بھی چلتا ہے وہ جس ماحول میں موجود ہے وہاں پھیلی ہوئی آوازیں بھی سنتا ہے۔ کوئی آدمی اگر بات کر رہا ہے اس بات کا مفہوم بھی اس کے ذہن میں منتقل ہو رہا ہے، کوئی اس سے سوال کرتا ہے تو وہ اس کا جواب بھی دیتا ہے۔ فضا میں خنکی ہے تو سردی محسوس کرتا ہے، گرمی ہے تو گرمی کو بھی محسوس کرتا ہے۔

ان سب باتوں کے باوجود خط لکھتا ہے تو شعور میں الفاظ کے معنی اور مفہوم بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ ایک آدمی بیک وقت اپنے اندر چھپی ہوئی کئی صلاحیتوں کو بیک وقت استعمال کر رہا ہے۔ بالکل اسی طرح کوئی بندہ بیداری میں رہتے ہوئے نیند اور خواب کے حواس کو بھی اپنے اوپر منعکس کر لیتا ہے۔ اس کے اندر لاشمار صلاحیتیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ وہ بیدار زندگی میں رہتے ہوئے بھرپور ماورائی حواس کے ساتھ غیب کی دنیا میں شب و روز گزارتا ہے۔


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔