Topics

سخاوت

عام مشاہدہ ہے کہ بچہ جو زبان بولتا ہے اس زبان کو سیکھنے کے لئے درس و تدریس کا کوئی سلسلہ قائم نہیں کیا جاتا۔ بچہ جس طرح ماں باپ کو بولتے ہوئے دیکھتا ہے وہی الفاظ بولنا شروع کر دیتا ہے۔ عمر کی مناسبت سے لفظ ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بالآخر وہ اپنی مادری زبان اس طرح بولتا ہے کہ جیسے یہ ہمیشہ سے سیکھا سکھایا پیدا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ والدین جس طرح خورد و نوش کرتے ہیں بچہ بھی اس طرح کھانا کھاتا ہے۔ ماحول اگر پاکیزہ اور صاف ستھرا ہے تو بچے کا ذہن بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا رہتا ہے۔ والدین اگر گالیاں بکتے ہیں تو گھر میں بچے کے لئے گالیاں دینا کوئی خلاف معمول یا بری بات نہیں ہوتی۔ بچے کے اوپر وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اس کے ماحول میں موجود ہیں۔ گھر کی چاردیواری اور ماں کی آغوش سے نکل کر بچہ جب باہر کے ماحول میں قدم رکھتا ہے تو اس کے اوپر وہ تمام اثرات مرتب ہوتے ہیں جو ماحول میں موجود ہیں۔

روحانی نقطہ نظر سے دنیا میں ہر پیدا ہونے والا فرد آدھا ماحول کے زیر اثر تربیت پاتا ہے اور آدھا والدین کی تربیت کے مطابق۔

اس غیر اختیاری تربیت کے بعد ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ والدین اپنے لخت جگر کو کیا بنانا چاہتے ہیں۔ والدین اگر بچے کے اندر خود نمائی کی عادات منتقل کر دیتے ہیں تو بچے کے اندر خود نمائی کے اثرات غالب آ جاتے ہیں۔ والدین اگر بچے کی صحیح تربیت کے ساتھ ایسے علوم سکھاتے ہیں جن علوم میں اخلاقیات کا زیادہ اثر ہوتا ہے تو بچہ بااخلاق ہوتا ہے اور شعور کی منزل میں داخل ہو کر ایسا پیکر بن جاتا ہے جو معاشرے کے لئے عزت و توقیر کا باعث ہوتا ہے۔ والدین کی طرز فکر اگر دولت پرستی ہے تو اولاد کے اندر دولت پرستی کے رجحانات زیادہ مستحکم ہو جاتے ہیں۔

تربیت کے دو طریقے ہیں۔ ایک غیر اختیاری اور دوسرا اختیاری۔ غیر اختیاری طریقہ یہ ہے کہ بچہ جو کچھ گھر کی چاردیواری اور ماحول میں دیکھتا ہے اسے قبول کر لیتا ہے۔ اختیاری صورت یہ ہے کہ والدین اسے مخصوص تربیت کے ساتھ معاشرے سے روشناس کراتے ہیں اور جب یہ بالغ فرد ہو جاتا ہے تو اس کی اپنی ایک شخصیت بن جاتی ہے۔

کسی بندے کے کردار کی تشکیل کے لئے ضروری ہے کہ اسے ایک مخصوص طرز فکر حاصل کرنے کے لئے ویسی ہی قربت حاصل ہو جس طرح ایک فرد کے لئے ماحول، والدین، رشتے دار اور تعلیمی درسگاہ قربت کا ذریعہ بن کر اس کے کردار کی تشکیل کرتے ہیں۔ اسی طرح روحانی آدمی کے کردار کی بھی تشکیل ہوتی ہے اور وہ اس طرح ہوتی ہے کہ اسے ایسے کسی بندے کی قربت حاصل ہو جاتی ہے جس کا کردار روحانی قدروں پر محیط ہے۔ مراد کا کردار عوام الناس سے اور ان لوگوں سے جو روحانی حقیقتوں سے بے خبر ہیں، ممتاز ہوتا ہے۔ اس شخصیت سے جس حد تک قربت ہوتی جاتی ہے اسی مناسبت سے مرید کے اندر روحانی اوصاف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور مراد کی طرز فکر کا ایک جزو مرید کے دماغ کی اسکرین پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس طرز فکر کا نام ‘‘سلوک‘‘ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر کوئی سالک اپنے اندر موجودہ روحانی قوتوں سے متعارف ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں بیان کردہ پیغمبروں کی زندگی اور پیغمبروں کے مشن سے یہ بات واضح ہے کہ پیغمبروں نے ایک مخصوص طرز فکر کا پرچار کیا ہے۔ پیغمبرانہ اوصاف سے ہر بندہ برائی اور اچھائی میں تمیز کر سکتا ہے یعنی پیغمبروں نے نوع انسانی کو اچھائی اور برائی کے تصور سے آشنا کیا ہے۔ دوسری مخلوق پر انسان کو اس لئے ممتاز حیثیت حاصل ہے کہ انسان اچھائی اور برائی کے تصور سے واقف ہے۔ اسے اس بات کا علم دیا گیا ہے کہ زندہ رہنے کے لئے مخصوص طرز فکر انسان کو اچھا بناتی ہے اور زندہ رہنے کے لئے دوسری طرز فکر انسان کو اچھائی سے دور کر دیتی ہے۔ اچھائی کے تصور کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی انسان کا علم بن جاتی ہے کہ اچھا فرد وہ ہے جو اپنی اصل سے باخبر ہے۔ اصل سے باخبری اسے ایک ایسے علم سے روشناس کراتی ہے کہ جو علم اسے اپنے اندر کام کرنے والی مخفی صلاحیت سے واقف کر دیتا ہے۔ مخفی صلاحیتیں جس مناسبت سے استعمال کی جاتی ہیں اتنا ہی اس کا کردار مصفی اور پاکیزہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس آدمی اپنے اندر جس حد تک مخفی صلاحیتوں سے ناواقف ہے اسی مناسبت سے اس کا کردار دھندلا رہتا ہے۔

ایک بکری اور انسان کی زندگی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو بکری اور انسان ایک ہی طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔ انسان کو جو صلاحیت بکری سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے اندر موجود مخفی صلاحیتوں سے واقف ہو جاتا ہے اور اگر کوئی انسان ان مخفی صلاحیتوں سے واقف نہیں ہے یا اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل نہیں ہے تو وہ بکری یا کسی دوسرے جانور سے ممتاز نہیں ہے۔ مخفی صلاحیتوں سے واقف ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اسے ایسے باپ کی آغوش میسر ہو جس کے اندر مخفی علوم کا دریا موجزن ہو اور اسے ایسا ماحول میسر ہو جس ماحول میں پاکیزگی ہو۔ باپ سے مراد استاد یا مرشد ہے۔ ماحول سے مراد مرشد کی روحانی اولاد ہے۔ بچے کا شعور والدین کی گود، گھر کی چار دیواری اور ماحول سے بنتا ہے۔ ماحول میں اگر کثافت، تعفن، گھٹن، بے سکونی اور اضطراب ہے تو بچہ بھی ذہنی طور پر سکون سے نا آشنا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اگر گھر میں سکون ہے، آرام ہے، والدین کی آواز میں مٹھاس ہے، لہجے میں پیار ہے اور دماغی اعتبار سے والدین پر سکون ہیں تو بچہ بالکل غیر اختیاری طور پر پر سکون کردار کا حامل ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے مشاہدے میں ہے کہ چیخ کر بولنے والے والدین کے بچے بھی چیخ کر بولتے ہیں۔ ندیدے اور لالچی والدین کے بچے بھی ندیدے اور لالچی ہوتے ہیں۔ کبر و نخوت کے پیکر والدین کے بچوں کے اندر غرور اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ضدی اور سرکش والدین کے بچے ضدی اور سرکش ہوتے ہیں۔ حلیم الطبع ماں باپ کی اولاد حلیم طبیعت ہوتی ہے۔ سخی والدین کی اولاد عام طور پر سخی ہوتی ہے۔

تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ پیغمبر اسلامﷺ کے سامنے جب جنگی قیدیوں کی فہرست پیش کی گئی تو ایک خاتون کے نام کے ساتھ طائی لکھا ہوا تھا۔ تحقیق کرانے سے معلوم ہوا کہ یہ خاتون حاتم طائی کے قبیلے کی ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ نے اس کی رہائی کا حکم صادر فرمایا۔ خاتون کو جب رہائی کی نوید سنائی تو طائی خاتون نے آزاد ہونے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ بات میرے خاندانی روایت کے خلاف ہے کہ میں آزاد ہو جاؤں اور میرا قبیلہ قید و بند کی صعوبت برداشت کرے۔

پیغمبر اسلامﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے طائی خاتون کے ساتھ پورے طائی قبیلے کو انعام و اکرام کے ساتھ آزاد کر دیا۔ پیغمبروں کی زندگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اللہ نے مخصوص کردار کے لوگوں کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور جو لوگ اس سلسلے سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان کی وابستگی قربت کا درجہ حاصل کر لیتی ہے ان کے اندر بھی وہی قدریں منتقل ہو جاتی ہیں جو اس مخصوص کردار کے مقدس لوگوں کا حصہ ہیں۔ راہ سلوک پر چلنے کے لئے سالک کو کسی شخص کا ہاتھ پکڑنا اس لئے ضروری ہے کہ اسے ایک روحانی باپ کی شفقت میسر آ جائے اور اس روحانی باپ کی اولاد کا بھرپور ماحول میسر آ جائے اور ذہنی تربیت ہو جائے۔ 


Parapsychology

خواجہ شمس الدين عظيمي


خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے 1980ء سے 1982ء تک روحانی اسباق اور پیغمبرانہ طرز فکر سے متعلق جو لیکچرز دیئے ہیں ان میں سے چند لیکچرز ‘‘پیراسائیکالوجی‘‘ کے نام سے قارئین کی خدمت میں پیش کئے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسل کے لئے یہ لیکچرز مشعلِ راہ بنیں گے۔ اور ان سے نوع انسانی کے علم میں قابل قدر ذخیرہ ہو گا۔میرا مشاہداتی تجربہ ہے کہ اس علمی ورثے کو اگر یکسوئی اور ذہنی تفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قاری کے لئے ماورائی دنیا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

کتاب پیراسائیکالوجی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اس کتاب کی اصل کو جو کہ مرشد کریم نے تجویز فرمائی تھی برقرار رکھا گیا ہے۔ امید ہے کہ کتاب کا یہ نیا ایڈیشن آپ کو پسند آئے گا۔