غزوہ احد
مکہ سے مدینہ میں ہجرت کے بعد کفار زیادہ فکر مند ہو گئے۔ ان لوگوں
نے مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کر دی۔ اس بات سےحضرت محمدﷺ کو رنج پہنچا۔ انہیں احساس تھا کہ کفار نے دشمنی میں مدینہ کے
باشندوں کو بھوکا رہنے کی سزا دے رکھی ہے۔
مسمانوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح کافروں نے مدینہ کو معاشی محاصرے میں
لے رکھا ہے اسی طرح وہ بھی مکہ کے تجارتی قافلوں کو مدینہ کی حدود سے گزرنے کی
اجازت نہ دیں۔ حضرت محمدﷺ بدوی قبائل میں تشریف لے گئے اور مکہ والوں کی زیادتیوں
سے بدوی قبائل کو آگاہ کر کے انہیں مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کی دعوت دی۔ قبیلوں نے
یہ پیشکش قبول کر لی اور اہل مکہ سے حاصل ہونے والی آمدنی سے دستبردار ہو گئے۔
کفار کا ایک قافلہ مدینہ کی حدود سے گزر کر مکہ پہنچنے والا تھا یہ
ابوسفیان کی قیادت میں دوہزار اونٹوں پر قیمتی مالیت کا سامان لے کر جا رہاتھا۔
مکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مسلمان قافلے پر حملہ کرنے والے ہیں۔
کافروں نے اس بات کوبنیاد بنا کر نوسو پچاس جنگجو مرد، سات سو اونٹ
اور ایک سو گھوڑوں پر مشتمل فوج مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دی۔ مسلمانوں
کو جب اس کی اطلاع ملی تو تین سو تیرہ افراد ، سترہ اونٹ اور دو گھوڑوں پر مشتمل
جماعت مقابلہ کیلئے تیار ہو گئی۔
ہجرت کے دوسرے سال سترہ رمضان کو بدر کے مقام پر دونوں افواج کا آمنا
سامنا ہوا۔ اس جنگ میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے کفار کے مقابلے میں ایک تہائی تھے۔
بدر کے میدان میں جہاں مسلمانوں نے پڑاو کیا تھا اس جگہ پانی نہیں تھا۔جس طرف کفار
کی فوج تھی وہاں پانی بھی تھا اس کے علاوہ انہوں نے پانی کی ضروریات پوری کرنے کے
لیے کنویں کھود لیے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے ساتھ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے
بارش برسائی جس سے پوری وادی جل تھل ہوگئی۔ جس ریت میں مجاہدین کے پیر دھنستے تھے
وہ جم گئی جبکہ کفار نے قریبی پہاڑی کے پیچھے ایک نشیبی مقام پر پڑاو کیا تھا جس
کی زمین نرم تھی۔ رات کو جب بارش ہوئی تو سارا علاقہ کیچڑ اور دلدل بن گیا۔
جب حضرت محمدﷺ نے کفار کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت دیکھی تو دعا
فرمائی:
”اے اللہ! اپنے اس وعدہ کو
پورا فرما۔جو تو نے مجھ سے کیا ہے۔“
غزوہ بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے آسمان سے فرشتوں کے دستے اترے۔
ترجمہ: ”جب تم اپنے رب سے مناجات کر رہے تھے تو اس نے تمہاری دعا
قبول فرمائی۔بے شک میں تمہاری مدد پے در پے ہزار فرشتوں سے کرنے والا ہوں۔“
)سورۃ انفال۔۹(
جس وقت دونوں افواج ایک دوسرے کے مقابل تھیں حضرت محمدﷺ نے ایک مٹھی
ریت کفار کی جانب پھینکی۔جب وہ ریت ان کے چہروں پر پڑی تو کوئی مشرک ایسا نہ تھا کہ
اس کی آنکھوں اور ناک میں ریت کے ذرے نہ پہنچے ہوں پھر ان کے منہ پِھر گئے اور
کفار شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت محمدﷺ کے اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے اپنا
عمل قرار دیا:
ترجمہ: ”اور تم نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی
لیکن اللہ نے پھینکی اور چاہتا تھا، ایمان والوں پر
اپنی طرف سے خوب احسان، تحقیق اللہ ہے سنتا جانتا۔“
(سورۃ انفال ۔۱۷)
اس جنگ میں مسلمان تعداد کے لحاظ سے کفار کے مقابلے میں بہت کم تھے۔
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا کی۔ کفار کی فوج کا سپہ سالار ابوجہل س جنگ
میں مارا گیا۔
پیارے بچو!
جدوجہد، عمل اور نصرت کا یہ فارمولا مسلمانوں کے لیے ہر شعبہ زندگی
میں مشعل راہ ہے۔ عمل کے بغیر دعا ایک ایسا جسم ہے جس میں روح نہیں ہوتی۔