انتظامی ذمہ داریاں
ہجرت سے پہلے مدینہ میں کوئی مملکت نہیں تھی شہر میں نظم و ضبط اور
فلاح و بہبود کے لیے انتظامات نہیں تھے۔ صرف قبیلے ہی قبیلے تھے جو آپس میں ایک
دوسرے سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے سب سے پہلے ایک ایک کر کے سب قبائلی سرداروں سے ملاقاتیں کیں۔
انہیں مل جل کر رینے کی افادیت بتائی۔ پھر سب کے مشورہ سے اس نئی مملکت کا اعلیٰ
سربراہ بننا قبول فرمایا۔
حضرت محمدﷺ کی فہم و فراست اور مسلسل کوششوں سے مدینہ منورہ میں دس
سال کے عرصے میں ایک بہترین فلاحی مملکت کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت محمدﷺ نے فوج،
عدلیہ، انتظامیہ، خزانہ، درس و تدریس، تجارت صحت وغیرہ کے ادارے قائم کئے۔
حضرت محمدﷺ نے بتایا کہ محض عمارتوں کے درمیان گلیاں اور بازار بنانے
کا نام شہری منصوبہ بندی نہیں ہے۔ بلکہ کسی بھی فلاحی ریاست کے لیے اپنے شہریوں کو
ایسا صحت مند ماحوک فراہم کرنا بھی ضروری ہے، جو فرد کی جسمانی اور روحانی نشونما
کرے جہاں سب کو ذہنی سکون حاصل ہو اور معاشرے میں امن و امان قائم ہو اور معاشی
آسودگی حاصل ہو۔
حضرت محمدﷺ نے مدینہ کی تعمیر میں ڈیزائن اور ترتیب پر خصوصی توجہ
فرمائی۔ مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے۔ لوگ گھر اور دکانیں اپنی جگہ سے آگے
بڑھا کر بنا لیتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے ان ناجائز تصرفات کو ختم کر دیا۔ مدینہ کی
گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں۔ حضرت محمدﷺ نے گلیاں مناسب فاصلے کے ساتھ
رکھوائیں۔ گلیوں میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ حضرت محمدﷺ نے روشنی کا
انتظام فرمایا۔
مدینہ منورہ میں پانی وافر مقدار میں میسر نہیں تھا۔ مہاجرین جب ہجرت
کر کے مدینہ آئے تو پانی کی کمی کا مسئلہ سامنے آیا۔ مدینہ میں چند گز کھدائی پر
ہی پانی نکل آتا تھا لیکن یہ پانی کھارا تھا۔ میٹھے پانی کے کنویں اور چشمے بہت کم
تھے۔ خصوصاً مدینے کے لوگ کنواں بیر روم کا پانی استعمال کرتے
تھے۔ اس کا مالک ایک یہودی تھا جو پانی فروخت کرتا تھا۔ حضرت محمدﷺ کی خواہش تھی
کہ یہ کنواں لوگوں کے عام استعمال کیلئے وقف ہو جائے۔ چنانچہ حضرت عثمان غنیؓ نے
بڑی رقم دے کر کنواں خرید لیا۔ اس طرح اہل مدینہ کو سہولت کے ساتھ پانی ملنے لگا۔
اس کے بعد حضرت محمدﷺ نے سرکاری طور پر بھی کئی کنویں کھدوا کر پانی کا انتظام
کیا۔
مدینہ باغوں کی سر زمین تھا۔ یہاں کے لوگ باغات کے بہت زیادہ شوقین
تھے۔ حضرت محمدﷺ نے شہر اور مسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ درختوں کو کم سے
کم نقصان پہنچے۔
حضرت محمدﷺ کے بعثت کے وقت تمام عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ جو
ممالک علم و فنون کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے، وہاں بھی عام شخص زیادہ اخراجات کی
وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ تعلیم صرف امیر لوگوں تک محدود تھی۔ عورتوں
پر تعلیم حصل کرنے کی پابندی تھی۔ پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا۔ عام طور پر
علوم زبانی یاد کیئے جاتے تھے اور پھر نسل در نسل منتقل ہوتے تھے۔
حضرت محمدﷺ نے چند برسوں کے اندر مدینہ میں ایک ایسے علمی ماحول کی
بنیاد ڈالی جس کی مثال دنیا کی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حضرت محمدﷺ نے باقاعدہ
تعلیم کا پہلا مرکز صُفہ مسجد نبوی میں قائم فرمایا۔اس مرکز کی
حیثیت یونیورسٹی جیسی تھی،جس کا بنیادی نصاب قرآن تھا۔ صفہ میں
مقامی اور دوسرے علاقوں سے آئے ہوئےطالب علم تعلیم حاصل کرتے تھے اور قیام بھی
کرتے تھے۔ حضرت محمدﷺ خود اہل صفہ کی نگرانی فرماتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے صحابہ
کرامؓ کو تعلیم دینے کے لئے مقرر فرمایا تھا۔ جو قبیلہ اسلام قبول کرتا تھا حضرت
محمدﷺ ان کی تعلیم کے لئے معلم بھیجتے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان
عورت پر فرض کیا کہ وہ علم حاصل کرے۔ حضرت محمدﷺ کے پاس حصول علم کے لیےصحابہ کے
علاوہ صحابیات بھی حاضر ہوتی تھیں۔ حضرت محمدﷺ نے خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے
دن مخصوص فرمائے تھے۔