Topics

بھائی بھائی


اپنے وطن کو ہمیشہ کے لیے چھوڑنا ہجرت کہلاتا ہے اور ہجرت کرنے والوں کو مہاجرین کہتے ہیں۔جو مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے انھیں مہاجرین کہتے ہیں۔مہاجرین کے لیے مدینہ نئی جگہ تھی۔انکے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ مدینے میں آتے ہی فوراً معاشی طور پر اپنے پاوں پر کھڑے ہو جائیں۔

اپناوطن عزیزواقارب، رشتہ دار، گھر، کاروبار چھوڑنے کا دکھ تھا۔اس کے علاوہ دونوں شہروں کے موسم اور آب وہوا میں بھی بڑا فرق تھا۔

اس وقت مدینہ ایک چھوٹا سا زرعی شہر تھا۔یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے تھے، جبکہ مہاجرین تجارت پیشہ تھے۔ مدینہ والوں کی طرح کھیتی باڑی نہیں جانتے تھے۔ اس موقع پر مدینہ کے لوگوں نے مکہ سے آئے ہوئے مسلمانوں کی دل کھول کر مدد کی۔ قرآن کریم نے انہیں “انصار” کے خطاب سے پکاراہے۔انصار کے معنی ”مددگار“ کے ہیں۔

پیارے بچو!

مہاجرین کے لیے یہ ایک مشکل اور آزمائش کا وقت تھا۔ لیکن مہاجرین نے تمام تکلیفیں بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیں۔ مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش اور روزگار فراہم کرنا بہت بڑا کام تھا لیکن حضرت محمدﷺ نے یہ ساری مشکلات اور مسائل بہت اچھے طریقے سے حل کر دئیے۔ ایک روز حضرت محمدﷺ نے مہاجرین اور انصار کے خاندانوں کے سربراہوں کو ایک جگہ دعوت دی۔ وقت مقررہ پر تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوگئے۔حضرت محمدﷺ تشریف لائے۔ حسب عادت سب کو مسکرا کر دیکھا۔ حضرت محمدﷺ نے انصار کو مخاطب کر کے فرمایا:

یہ مہاجرین تمہارے دینی بھائی ہیں اللہ کے لیے

سب کچھ قربان کر کے یہاں آئے ہیں۔

ان کی مدد کرنا تمہارا فرض ہے۔

پھر حضرت محمدﷺ نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ انصار کا ہر خاندان مہاجر کے ایک خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کر لے۔اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوجائے اور ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن جائے۔

حضرت محمدﷺ نے خود مہاجرین اور انصار میں سے ایک ایک کو بلایا اور یوں بھائی بھائی بنا کر رشتۂ اخوت قائم کر دیا۔

رشتہ اخوت کا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ مہاجرین اپنا سارا بوجھ انصاریوں پر ڈال کر بے فکر ہو جائیں اور مہمانوں کی طرح زندگی بسر کریں۔حضرت محمدﷺ نے اس رشتہ کی وضاحت فرمائی کہ اب تک جو ایک تھا وہ دو ہو گئے۔جو دو تھے وہ چار ہو گئے۔جہاں ایک کماتا تھا،اب دو کمائیں گے۔جہاں دو محنت کرتے تھے،چار محنت کریں گے۔کام زیادہ ہو گا تو آمدنی بھی زیادہ ہو گی اور یوں کوئی کسی پر بار نہیں بنے گا۔اس طرح کئی سو خاندان گزر بسر اور معاش کے مسائل حل کرنے کے اہل ہوگئے۔

انصار مہاجرین کو اپنے اپنے گھروں میں لے گئے۔ انصار نے اپنے گھر،جائیداد اور آمدنی کا نصف حصہ مہاجرین کو پیش کر دیا۔ دوسری طرف مہاجرین نے نے بھی اپنے لیے روزی روزگار کے ذرائع تلاش کر لئے۔ یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ مہاجر مسلمان جب محنت مزدوری کر کے خود کفیل ہو گئے تو انہوں نے اپنے انصاری بھائیوں کی املاک شکریئے کے ساتھ واپس کر دیں۔

 

 

 


Bachon Ke Mohaamad (3)

خواجہ شمس الدین عظیمی

پیارے بچوں!

زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے کتاب بچوں کے حضرت محمدﷺ لکھی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب بچوں کے محمدﷺ کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین

اب آپ حصہ سوئم کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد حضرت محمدﷺ اور مسلمانوں کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور حضرت محمدﷺ نے ان مشکل حالات میں مسائل کو کس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ حل کیا۔