بیعت رضوان
رجب کے مہینے میں ۲۷ویں شب کو خاتم النبین حضرت محمدﷺ چچازاد بہن ام ہانی کے
گھر آرام فرما مسلمانوں کو مدینے میں رہتے ہوئے تقریباً پانچ سال گزر چکے تھے۔
حضرت محمدﷺ نے مستقل رہائش کے لئے مدینہ کا انتخاب کر لیا تھا۔
ایک روز حضرت محمدﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کے ہمراہ مکہ
مکرمہ تشریف لے گئے ہیں اور عمرہ ادا کیا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے صحابہ کرام کو خواب
سنایا اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ جانے کا ارادہ فرمایا۔
مکہ جانے کی خبر سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے، مکہ مہاجرین کا آبائی
اور محبوب وطن تھا۔ مہاجرین کافی عرصہ سے مکہ نہیں گئے تھے، مہاجرین کو اکثر مکہ
کی یاد آتی تھی۔ انہیں زیارت کعبہ کی بھی بڑی خواہش تھی۔ مدینہ کے مسلمان بھی بے
چینی سے اس وقت کے منتظر تھے جب انہیں بھی اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت نصیب ہو۔
ہجرت کے چھٹے سال حضرت محمدﷺ مسلمانوں کی بڑی تعدادکے ساتھ عمرہ کے
لئے تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ مکہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پہنچے
تو معلوم ہوا کہ کفار ہر حال میں انہیں مکہ آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔
قریش کے سرداروں کو اندیشہ تھا کہ اگر مسلمان مکہ میں داخل ہوئے تو
وہ مکہ پر قبضہ کر لیں گے۔ اس پریشان کن صورت حال سے نمٹنے کیلئے قریش نے اپنے کئی
قاصد بھیجے جنہوں نے حضرت محمدﷺ سے مزاکرات کئے۔ قاصدوں نے واپس جا کر قریش کو یہ
یقین دلایا کہ مسلمان جنگ کی نیت سے نہیں آئے بلکہ خانہ کعبہ کی زیارت کرنے آئے
ہیں۔ قریش کے سردار مکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر رضامند نہیں ہوئے اور اپنی ضد پر
قائم رہے۔
حضرت محمدﷺ کو اندازہ ہوا کہ مکہ والے الجھن کا شکار ہیں۔چنانچہ حضرت
محمدﷺ نے حضرت عثمان غنیؓ کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا کہ وہ اہل قریش کو صحیح صورت
حال بتائیں۔
حضرت عثمان غنیؓ کو اہل قریش نے مکہ میں ہی روک لیا۔ عثمانؓ مکہ سے
لوٹ کر واپس نہ آئے تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی اور یہ خبر پھیل گئی کہ قریش نے
حضرت عثمان غنیؓ کو شہید کر دیا ہے۔
حضرت محمدﷺ نے فرمایا:
”عثمان غنیؓ کے خون کا
بدلہ لینا فرض ہے۔جو شخص اس میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ میرے ہاتھ پر بیعت کرے کہ
آخری دم تک وفادار رہے گا۔“
تمام صحابہ کرامؓ نے نہایت جوش و خروش اور اطاعت کے ساتھ بیعت کر
لی۔اس بیعت کو بیعت رضوان کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ:
”جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے
ہیں تو وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔
اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے۔ پھر جو شخص عہد توڑے گا سو اس کے
عہد
توڑنے کا وبال اسی پر پڑے گا اور جو شخص اس بات کو پورا کرے گا جس پر
اللہ سے عہد کیا ہے تو عنقریب اللہ اس کو بڑا اجر دے گا۔“
(سورۃ فتح۔۱۰)
بیعت رضوان کے بعد پتا چلا کہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کی خبر صحیح
نہیں ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ خیریت سے ہیں۔ مکے والوں نے سہیل بن عمرو کو سفیر بنا کر
بھیجا تا کہ حضرت محمدﷺ سے ضروری مذاکرات کرے۔ حضرت محمدﷺ نے سہیل سے صلح کی شرائط
طے فرمائیں اور حضرت علیؓ نے یہ معاہدہ تحریر کیا۔ اس معاہدہ کو صلح
حدیبیہ کہا جاتا ہے۔
اس معاہدہ کی شرط یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل ہونے
اور کعبہ کی زیارت کرنے کی اجازت نہیں ہو گی لیکن اگلے سال وہ کعبہ کی زیارت کے
لیے مکہ میں صرف تین دن ٹھہر سکتے ہیں۔ معاہدہ کی رو سے مسلمان اس سال واپس مدینہ
لوٹ گئے۔
ہجرت کے ساتویں سال حضرت محمدﷺ دو ہزار اصحابؓ کے ہمراہ عمرہ ادائیگی
کیلئے مکہ تشریف لائے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کی رو سے مکہ میں تین روز قیام
فرمایا۔