Topics

سلسلہ عظیمیہ کے قیام کی غرض و غایت

حامل علم لدنی، واقف اسرار کن فیکون مرشد کریم، ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیاء صاحب کشف وکرامت بزرگ تھے مگر آپ کے مزاج میں احتیاط بہت زیادہ تھی۔ آپ کرامت سے طبعاً گریز فرماتے تھے حضور قلندر بابا اولیاء  فرماتے ہیں :

خرق عادت یاکرامت کا ظہورکوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے جب کسی بندہ کا شعوری نظام لاشعوری نظام سے خود اختیاری طور پرمغلوب ہوجاتا ہے تو اس سے ایسی باتیں سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام طو پر نہیں ہوتیں ۔ اور لوگ انھیں کرامت کے نام سے یاد کرنے لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے ۔ اعمال وحرکت میں خرق عادت اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی ظاہر کی جاتی ہے۔ اور کبھی کبھی غیراختیاری طور پر بھی سرزد ہوجاتی ہے ۔خرق عادت آدمی کے اندر ایک ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ دور سائنسی دور ہے ، انسان شعوری طور پر اتنا ترقی کر چکا ہے کہ وہ ہر چیز کی حقیقت کو کھلی آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایک طرف تو زمین کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف آسمانوں کی رفعت کی پیمائش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں وہ ہر شے کی حقیقت کی تلاش میں لگا ہوا ہے جس طرح انسان نے ظاہری دنیا میں کامیابیاں حاصل کی ہیں اسی طرح وہ باطنی یا روحانی دنیا کے حقائق جاننے کا خواہاں ہے ۔سائنسی ترقی کی وجہ سے انسان کے ذہن کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ اور وہ کسی بات کو اس وقت قبول کرتا ہے جب اس بات کے متعلق کیوں کیسے اور کس لئے کے جوابات اسے مل جائیں۔

انسان نے جس قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب سے دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔سکون کی تلاش وجستجومیں انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام ممالک میں پھیل رہا ہے۔ 


Silsila Azeemia BKLT

خواجہ شمس الدین عظیمی


انسان نے جس قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔ سکون کی تلاش وجستجومیں انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام مالک میں پھیل رہا ہے۔