Khwaja Shamsuddin Azeemi
سلسلہ عظیمیہ
جب کچھ نہ تھا
تواللہ تھا ، اس تنہا اور یکتا ذات نے
چاہا کہ کوئی اسے جانے ، کوئی اسے پہچانے، کوئی اسکی ربوبیت کا اقرار کرے ، کوئی
اس کی عظمت کا اعتراف کرے ۔ کوئی اس کی بڑائی کو تسلیم کرے اور اسکی خالقیت اور اس
کی صناعی کا اظہار ہو ۔ اس عظیم ہستی نے تخلیق کا ارادہ کیا اور جو کچھ ذات اکبر
کے ذہن میں موجود تھا اس کو عملی جامہ پہنایا۔ اور جیسے ہی ’کن فیکون بنا ساری
کائنات وجود میں آگئی ۔ کائنات کی تمام دوسری نوعوں کے ساتھ انسان بھی وجود میں آ
گیا۔
انسان دنیا میں آیا۔ یہاں اس کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تعداد میں اضافہ کے
ساتھ ساتھ آبادیاں بنے گئیں۔ بے شمار مسائل پیدا ہوے سکون بے سکونی میں تبدیل ہوا یقین
ٹوٹنے لگا۔ ذات اکبر کوانسان پر رحم آیا۔ ہدایت کا سلسلہ جاری ہوگیا اور انبیابھیجے
جانے لگے۔ یہاں تک کہ آخری نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور
نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔ لیکن رہنمائی کا سلسلہ جاری رہا ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے وارث علما۔ اولیاء اللہ انسانوں کی رہنمائی کرتے رہے ۔ قدرت کی فیاضی اپنا
فیض جاری رکھنے کے لئے ایسے بندے منتخب کرتی ہے جو بندوں کو دنیا کی حقیقت سے
روشناس کراتے ہیں۔
اللہ تعالی اپنا
پیغام پہنچانے کے لئے چراغ سے چراغ جلاتا ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ
میں پہنچتی رہتی ہے۔ تمام روحانی لوگ قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو مشعل لے کر چلتے ہیں
اس روشنی سے وہ لوگ اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ روشنی
پہنچاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک روحانی ہستی، ایسا ہی روحانی ہاتھ ایسی ہی ایک روشن مشعل
سید نا حضور علیہ الصلوة والسلام کے وارث ابدال حق ،سلسلہ عظیمیہ کے بانی مبانی
رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے روح رواں حسن اخری محمدعظیم برخیا ، قلندر بابا اولیاء رحمۃ
اللہ لیہ ہیں۔
محمد عظیم :یہ گھریلو نام
حضور قلندر بابا اولیا کی پیدائش کے بعد رکھا گیا ۔
سید : آپ کا خاندانی سلسلہ حضرت امام حسن عسکری سے قائم ہے۔
برخیا: شوق شعر و سخن تھا برخیار تخلص ہے ۔
قلندر بابا اولیاء: عرفیت ہے مرتبہ قلندریت کے اعلی مقام پر فائز ہونے کی دجہ سے
ملائکہ ارضی دسمادی اور حاملان عرش میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اور یہی عرفیت یعنی
قلندربابا اولیاء “ عامتہ الناس میں زبان زد عام ہے۔
جاۓ پیدائش :۱۸۹۸میں
قصہ خور جہ ضلع بلند شہر یوپی (بھارت) میں پیدا ہوتے۔
تعليم وتربیت :آپ
نے ابتدائی تعلیم مکہ کے مکتب سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنیکے بعدمیٹرک
بلند شہر، سے کیا۔ اور انٹرمیڈیٹ کے لئے داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔
روحانی تربیت :اللہ تعالی جب کسی بندے کو اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے
تو اس کی تربیت کا پورا پورا انتظام کرتا ہے۔ یہی کچھ قلندر بابا اولیا کر کے ساتھ
ہوا۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کا میلان در ویشی کی طرف بڑھ گیا۔ آپ وہاں
مولانا کابلی کے قبرستان کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ صبح تشریف لے جاتے اور
رات کو واپس آتے۔
تربیت کا دوسرا
دور حضور قلندر بابا اولیاء کے نانا ، بابا تاج الدین ناگپوری کی سرپرستی میں شروع
ہوا۔ ناگپور میں ۹سال تک تربیت کا سلسلہ جاری رہا ۔
شادی : تربیت کے دوران ہی حضور قلندر بابا اولیاء کی والدہ محترمہ
کا انتقال ہوگیا۔ گھر کا نظام چلانے اور بہن بھائیوں کی تربیت کو پیش نظر رکھتے
ہوئے نانا تاج الدین ناگپوری کے ارشاد کے مطابق ان کی شادی ہوئی ۔
هجرت :تقسیم ہند کے بعد قلندر بابا اولیا امع اہل و عیال، والد
اور بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی تشریف لے آئے۔
ذریعہ معاش: کراچی میں اردوڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس
کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں کام کرتے رہے ۔
بیعت :سلسلہ سہروردیہ کے بزرگ قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی
سہروردی ر(بڑے حضرت جی ) جب ۱۹۵۶ء میں کراچی تشریف لائے تو قلندر بابا اولیاء نے بیعت ہونے
کی درخواست کی۔ بڑے حضرت جی نے فرمایا کہ تین بجے آو۔ سخت سردی کا عالم تھا۔ قلندر
بابا اولیا گرانڈ ہوٹل میکلوڈ روڈ کی سیڑھیوں پر رات دو بجے جاکر بیٹھ گئے۔ ٹھیک تین
بجے بڑے حضرت جی نے دروازہ کھولا اور اندر بلالیا سامنے بٹھا کر پیشانی پرتین تین
پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہوگیا۔ دوسری پھونک میں عالم
ملکوت وجبروت سامنے آگیا اور تیسری پھونک میں حضور قلندربابا اولیاء نے عرش معلی
کا مشاہدہ کیا۔
حضرت ابوالفیض
قلندر علی سہروردی نے قطب ارشادکی تعلیمات تین ہفتے میں پوری کرکے خلافت عطا رفرمادی
۔ ا
اسکے بعد حضرت شیخ
نجم الدین کبری رحمتہ اللہعلیہ کی روح پرفتوح نے روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ
سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدناحضورعلي الصلوۃ والسلام نے براہ راست علم لدنی کا علم
عطا فرمایا۔ اور سیدنا حضور علی الصلوة والسلام کی ہمت اور نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز خود اللہ تعالی نے
سکھائے۔ جن بزرگوں کی ارواح طیبات سے اور جن سلسلوں سے حضور قلندر بابا اولیا
کونسبت ادبیہ کے تحت فیض حاصل ہواان
کی تفصیل دیئے
گئے نقشے نسبت فیضان میں بیان کی گئی ہے۔ حضور قلندربابا اولیاء وصال ۲۷
جنوری۱۹۷۹ کو ہوا۔ ت
صنيفات :حضور قلندر بابا اولیاء کے فیض کو عام کرنے کے لئے سلسلہ عظیمی
کو تین کتابیں بطور ورثہ منتقل ہوئی ہیں۔
علم و عرفان کا
سمندر رباعیات قلندر بابا اولياء(۱)
(۲) اسرار و
رموز کا خزانہ لوح وقلم ۔
(۳)کشف و کرامات
اور ماورائی علوم کی توجیہات پرمستندکتاب "تذکره تاج الدین بابا»
حامل علم لدنی،
واقف اسرار کن فیکون مرشد کریم، ابدال حق حفرت قلندر بابا اولیاء صاحب کشف وکرامت
بزرگ تھے مگر آپ کے مزاج میں احتیاط بہت زیادہ تھی۔ آپ کرامت سے طبعاً گریز فرماتے
تھے حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں :
’خرق عادت یاکرامت
کا ظہورکوئی اچنبھے کی بات
نہیں ہے جب کسی بندہ کا شعوری نظام لاشعوری
نظام سے خود اختیاری
طور پر مغلوب ہوجاتا ہے تو
اس سے ایسی باتیں
سرزد ہونے لگتی ہیں جو عام طور
پر
نہیں ہوتیں ۔ اور لوگ انھیں کرامت کے نام سے یاد
کرنے لگتے ہیں جو سب بھان متی ہے ۔ اعمال وحرکت
میں خرق عادت
اور کرامت خود اپنے اختیار سے بھی
ظاہر کی جاتی ہے
۔ اور کبھی کبھی غیراختیاری طور پر بھی
سرزد ہوجاتی ہے ۔خرق
عادت آدمی کے اندر ایک
ایسا وصف ہے جو مشق کے ذریعے متحرک کیا جاسکتا
ہے.‘
موجودہ دور سائنسی
دور ہے ، انسان شعوری طور پر اتنا ترقی کر چکا ہے کہ وہ ہر چیز کی حقیقت کو کھلی
آنکھ سے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایک طرف تو زمین کی انتہائی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش
کر رہا ہے تو دوسری طرف آسمانوں کی رفعت کی پیمائش کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں وہ
ہر شے کی حقیقت کی تلاش میں لگا ہوا ہے جس طرح انسان نے ظاہری دنیا میں کامیابیاں
حاصل کی ہیں اسی طرح وہ باطنی یا روحانی دنیا کے حقائق جاننے کا خواہاں ہے ۔سائنسی
ترقی کی وجہ سے انسان کے ذہن کی رفتار بہت تیز ہوگئی ہے۔ اور وہ کسی بات کو اس وقت
قبول کرتا ہے جب اس بات کے متعلق کیوں کیسے اور کس لئے کے جوابات اسے مل جائیں۔
انسان نے جس
قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا
ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔سکون کی تلاش وجستجومیں
انسان رومانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں
کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی
ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے
تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس
سلسلے میں روائیتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید
افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام مالک میں پھیل رہا ہے۔
سنگ بنیاد : عارف باللہ ، ابدال حق، واقف رموز لامکانی حامل علم لدنی ،
بحر تکوین کے امیرالبحر سلسلہ عظیمیہ کے امام حسن آخری سید محمد عظیم برخیا ،حضور
قلندر بابا اولیاء کے دست کرم سے آپ کے نام نامی اسم گرامی سے منسوب سلسلہ عظیمیہ
کی بنیاد سید حضور علي الصلوة والسلام کی بارگا ہ اقدس میں شرف قبولیت کے بعد
جولائی ۱۹۴۰میں رکھی گئی۔
ایک روز میں نے
حضور قلندر بابا اولیاء کی خدمت میں سلسلہ عالیہ عظیمیہ کی بنیاد رکھنے کی درخواست
پیش کی حضور قلندر بابا اولیاء نے یہ درخواست سرور کائنات فخر موجودات سیدنا حضر
علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کی حضرت محمد مصطفے متی اللہ علیہ وسلم نے
اس درخواست کو قبول فرما کر سلسلہ عالیہ عظیمہ قا مٔ کرنے کی اجازت عطافرمائی ۔
خانواده سلاسل :سلسلہ
عالیہ عظیمیہ جذب وسلوک دونوں روحانی شعبوں پر محیط ہے حضور قلندر بابا اولیاء خصوصاً اکیس سلاسل طریقت
کے مربی دمشفی ہیں اور مندرجہ ذیل گیارہ سلاسل کے خانوادہ ہیں:
ا۔ قلندریہ : امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصری
۲۔ نوریہ :
امام سلسلہ حضرت موسی کاظم رضا
۳۔چشـتـه : امام سلسله ت ممشاد دینوری
۴۔نقشبندیه: امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند خواجہ باقی بالند
۵۔ سہروردیہ : امام سلسلہ حضرت ابوالقاہر
۶۔قادربه : امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
۷۔طيفوريه : امام سلسلہ حضرت با یزید بسطامی
۸۔جنيديه : امام سلسلہ حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی
۹۔ملامتيه : امام سلسلہ
حضرت ذوالنون مصری
۱۰۔ فردوسيه : امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبری
۱ا۔ تاجيه : امام سلسلہ حضرت صغری تاج الدین
سلسلہ عظیمیہ میں
روایتی پیری مریدی کا مروجہ طریقہ نہیں ہے۔
نہ اس میں کوئی
مخصوص لباس ہے نہ کوئی وضع قطع مختص ہے خلوص کے ساتھ طلب روحانیت کا ذوق وشوق ہی
طالب کو سلسلہ عظیمیہ سے منسلک رکھتا ہے سلسلہ میں مریدین دوست کے لفظ سے یادکے جاتے
ہیں ۔تعلیم وتربیت کے سلسلے میں سخت ریاضتوں، چلوں اور مجاہدوں کے بجائے ذکر واشغال
نہایت آسان اورمختصر ہیں۔ تعلیم کا محورده غار حرا والی عبادت ہے جہاں سرکار دو
عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل عرصہ صرف کیا ۔اس عبادت سے سالک میدان روحانیت میں
بہ آسانی گامزن ہو جاتا ہے جوں جوں اس کا قدم آگے بڑھتا ہے اس پر تفکر کے دروازے
کھلنے لگتے ہیں ۔ لاشعور میں ہر سمت بیداری اور نظرمیں اسرار کے پردوں میں جھانکنے
کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ زاہد خشک کے بجائے حق آگاہی کا ایک ہوشمند طالب
علم بن جاتا ہے۔ چونکہ امام سلسلہ ابدال حق حضرت قلندر بابا اولیا شعب تکوین کے
اعلی ترین عہدے اور قلندریت کے نہایت بلند مقام پر فائز تھے اس لئے سلسلہ عظیمیہ میں
قلندری رنگ مکمل طور پر موجود ہے۔
قلندر عارف باللہ، علم الہی کا آئینہ دار ہوتا
ہے حق کی عکاسی کرتا ہے۔ انوار محمدی کے طفیل وہ خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ بن
جاتا ہے کہ ادھراللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل فیضان حق سے سیراب ہوتا ہے توحیدی
سکون اور حق آگہی کے کیف میں زندگی گزارتا ہے غیب کی ہر راہ اپنی انتہا تک اسکے لیے
کھلی ہوتی ہیں۔
قلند رخزائن کن کے انوار کو پالیتا ہے۔ اس کی
روح کو ایک انسباط کی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر غیراللہ بشمول خود کی لا، کہہ
کے الہ “ کا حسن دیکھ لیتا ہے ۔
مشاہدہ کرنے
والوں نے دیکھا کہ قلندر بابا کی محفل میں انکے دسترخوان پرشیعه ،سنی، دیوبندی، بریلوی،
غرض کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ بصد آداب بیٹھے ہوے نظر آتے تھے ۔ قادری، چشتی ، نقش
بندی ،سہروری ہر سلسلہ روحانی کے تشنہ لبوں کی حضور قلندر بابا اولیاء کی جوے کرم
سے سیرابی ہوتی تھی، قلندر بابا اولیاء کے دریا ے فیض کی طغیانی کی یہ کیفیت تھی
کہ جس نے بھی ان کا دامن پکڑ لیا اللہ تعالی نے اس پر فضل کر دیا جس کو قلندر بابا
نے محبت اور کرم کی نگاہ سے دیکھ لیا اس کی دنیا ہی بدل گئی جس کو ان کی طرزفکر
منتقل ہوگئی اسکے نصیب جاگ اٹھے ۔حق آگہی کے شرف سے مشرف ہوگیا ۔
مستی خود آگہی
قلندر کی ایک شان ہوتی ہے ۔ اس کوذات اور صفات دونوں کی آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ وہ
اپنے وجود سے کم اور حق میں ضم ہوجاتا ہے ۔یہ ادائے قلندرانہ ہے کہ درویشانہ بے نیازی
کے ساتھ تیر اور لب بندی اس کا شیوہ ہوتی ہے۔
قلندر شہید خفی
ہو کر جیتے جی مرکز اپنے وجود میں سبحانیت کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ دما دم دم کے کیف
دائمی سے سرشار ہوتا ہے ۔حضوری کے رشتے میں منسلک من عرف بنفسہ فقد عرفہ ریہ کے بھید
کا راز دان ہوتا ہے۔ اسکے وجودی کثافتوں کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ حق کو حقانیت
میں دیکھتا ہے ۔
لازوال ہستی اپنی
قدرت کا فیضان جاری وساری رکھنے کے لئے ایسے بندے تخلیق کرتی ہے جو دنیا کی بے
ثباتی کا درس دیتے ہیں خالق حقیقی سے تعلق قائم کرنا در آدم زاد کو اس سے متعارف کرانا
ان کاشن ہوتا ہے۔
سیدنا حضور علی
الصلوۃ والسلام کے وارث امدالحق حسن اخری محمد عظیم برخیا امام سلسلہ عظیمیہ قلندر
بابا اولیا کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے ۔انسان کو محض روٹی کپڑے کے حصول اور آسائش
وزیبائش ہی کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ انکی زندگی کا اولین مقصد یہ ہے کہ وہ
خود کو پہچانے، اپنے رحمت للعالمین محسن صلی اللہ کی قلبی اور باطنی تعارف حاصل
کرلےجن کے جود و کرم اور رحمت سے ہم ایک خوش نصیب قوم ہیں۔ اور جن کی تعلیمات سے
انحراف کے نتیجے میں ہم دنیا کی بدنصیب اور بدترین قوم بن چکے ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ کے
اغراض ومقاصد:
ا۔ صراط مستقیم پر گامزن ہو کر دین کی خرمت کرنا ۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر صدق دل سے
عمل کر کے روحانی مشن کو فروغ دینا۔ اپنی باطنی نگاہ کو بیدار کرکے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونا ۔
۳۔
مخلوق خدا کی خدمت کرنا ۔
۴۔ علم دین کے ساتھ ساتھ لوگوں کو روحانی اور سائنسی علوم حاصل
کرنے کی تر غیب دینا۔
۵۔
لوگوں کے اندر ایسی طرزفکر پیدا کرنا جسکے ذریعہ وہ روح اور اپنے اندر روحانی صلاحیتوں
سے باخبر ہوجائیں۔
۶۔تمام نوع انسانی کو اپنی برادری سمجھنا. بلا تفریق مذہب
وملت ہرشخص کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا اور حتی المقدوران کے ساتھ ہمدردے کرنا۔
قواعدوضوابط:
سلسلہ عالی نظیمیہ
کے تمام دوستوں کو حسب ذیل احکامات پر پابند رہنا ضروری ہے::
ا۔ ہر حال و ہرقان میں اپنا رومانی تشخص برقرار رکھیں۔
۲ ۔
چھوٹے اور بڑے کا امتیاز کئے بغیر سلام میں پہل کریں۔
۳۔ اللہ کی مخلوق کو دوست رکھیں۔
۴ ۔ سلسلہ میں رہ کر آپس میں اختلاف سے گریز کریں۔
۵۔
اپنے روحانی استاد (شیخ )کی ہر بات پر بلا چون چرا عمل کریں ۔
۶۔ کسی بھی سلسلے کے مقابلے میں اپنے سلسلے کو برتر ثابت نہ
کریں اس لئے کہ تمام سلسلے اللہ تک جاتے ہیں۔
۷۔سلسلہ میں جو شخص گند
پھیلانے یا منافقت کا سبب بنے اسے سلسلے سے خارج کر دینا چاہیئے۔
۸ - ذکروفکر کی جو
تعلیم اور ہدایات دی جائیں ان پر پابندی سے عمل کریں۔ مراقبہ میں کوتاہی نہ کریں۔
۹۔
قرآن پاک کی تلادت کریں ، معنی اورمفہوم پرغورکریں۔
۱۰۔
صلوۃ (نماز میں اللہ تعالے کے ساتھ ربطہ
قامٔ کریں۔
۱۱۔ کسی
دوسرے سلسلے کے طالب علم یا سالک کو سلسلہ عالیہ عظیمیہ میں طالب کی حیثیت سے قبول
کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ پیرو مرشد وصال فرما چکے ہوں۔
۱۲۔ جو
شخص پہلے سے کسی سلسلے میں بیت ہو اسے سلسلہ عالیمیہ میں بیعت نہ کریں یہ قانون ہے
کہ ایک شخص دو جگہ بیعت نہیں ہو سکتا۔
۱۳۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ سے بعیت حاصل کر لینے کے بعد نہ توبعیت توڑی جاسکتی ہے اور نہ
ہی کوئی فرد اپنی مرضی سے فرار حاصل کرسکتا ہے ۔ اس لئے بیعت کرنے میں جلد بازی کا
مظاہرہ نہ کریں جو شخص سلسلہ میں داخل ہونا چاہتا ہے اس سے کہا جائے کہ پہلے خوب
اچھی طرح دیکھ بھال کرلی جائے کہ ہم اس لائق ہیں بھی یا نہیں۔
۱۴۔
سلسلہ عالیہ عظیمیہ کے ذمہ دار حضرات پر لازم ہے کہ وہ کسی کو اپنا مریدنہ کہیں ۔ ’دوست‘ کے لقب سے
یاد کریں ۔
۱۵۔
سلسلے کا کوئی صاحب مجاز مجلس میں گدی نشین ہوکر نہ بیٹھے . نشست و برخاست عوام کی
طرح ہو ۔
۱۶۔
نوع انسان میں مرد، عورتیں، بچے ، بوڑھے سب آپس میں آدم کے ناطے خالق کائنات کے
تخلیقی راز ونیاز ہیں، آپس میں بھائی بہن ہیں۔ نہ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ بڑائی صرف
اس کو زیب دیتی ہے جو اپنے اندر ٹھاٹھیں مارتے ہوئے اللہ کی صفات کے سمندر کا عرفان رکھتا ہو
جسکے اندر اللہ کے اوصاف کا عکس ہو، جو اللہ کی مخلوق کے کام آے ۔کسی کو اس ذات سے
تکلیف نہ پہنچے۔
۱۷۔ شک
کو دل میں جگہ نہ دیں ۔جس فرد کے دل میں شک جاگریں ہو وہ عارف کبھی نہیں ہوسکتا۔
اس لئے کہ شک شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ آدم زاد کواپنی روح سے
دور کر دیتا ہے۔
۱۸۔ مصور ایک تصویر بناتا ہے۔ پہلے وہ خود اس تصویر کے نقش و نگار سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ مصور اپنی بنائی ہوئی تصویر سے اگر خود مطمئن نہ ہوتو دوسرے کیوں کر متاثر ہونگے ۔ نہ صرف یہ کہ د