Topics

نبیﷺ مدینہ میں آئے

 

پیارے بچو!

مدینہ والوں کو خبر ہو چکی تھی کہ حضرت محمدﷺ مکہ سے مدینہ تشریف لا رہے ہیں۔مدینہ کے مسلمان ہر روز حضرت محمدﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔وہ بڑا ہی خوبصورت دن تھا۔

مدینے میں ہر طرف چہل پہل تھی۔حضرت محمدﷺ اونٹنی پر سوار مدینہ داخل ہوئے۔اس اونٹنی کا نام قصویٰ تھا۔عورتیں،  مرد،  بچے،  غرض مدینے کے لوگ حضرت محمدﷺ کے استقبال کے لیے گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو گئے۔لوگ قطاریں بنا کر مدینہ شہر میں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔

مدینہ میں بچوں نے حضرت محمدﷺ کا پر جوش استقبال کیا۔انہیں معلوم تھا کہ حضرت محمدﷺ بچوں سے پیار کرتے ہیں۔بچوں نے صاف ستھرے کپڑے پہنے اور خوشی کے گیت گائے۔

ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر یہ الفاظ تھے:

اللہ کے نبی آئے اللہ کے رسول آئے۔

پیارے پیارے چھوٹے بچوں کے جوش و جذبہ سے حضرت محمدﷺ بہت خوش ہوئے۔

حضرت محمدﷺ نے بچوں سے ہاتھ ملایا انہیں پیار کیا اور دعائیں دیں۔

حضرت محمدﷺ نے معصوم بچیوں سے پوچھا:

کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟

بچیوں نے کہا:

جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ! ہم سب آپ ﷺ سے محبت کرتے ہیں۔

پیارے نبی ﷺ نے فرمایا:

میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں۔

حضرت محمدﷺ نے بچوں کو بتایا کہ آپ ﷺ مدینے میں ان کے ساتھ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ہر شخص کی خواہش تھی کہ حضرت محمدنبی ﷺ مدینے میں اس کے گھر قیام کریں۔

حضرت محمدﷺ نے فرمایا:

میں وہاں قیام کروں گا جہاں اللہ کے حکم سے میری اونٹنی بیٹھے گی۔

اونٹنی جس جگہ بیٹھی وہ خالی زمین تھی اور سامنے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا گھر تھا۔حضرت محمدﷺ ان کے گھر ٹھہر گئے۔جس جگہ حضرت محمدﷺ کی اونٹنی بیٹھی تھی،وہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی۔ان بچوں نے اپنی زمین حضرت محمدﷺ کو بطور تحفہ دینا چاہی لیکن حضرت محمدﷺ نے اصل قیمت سے زیادہ رقم دے کر وہ زمین مسجد کے لیے خرید لی۔


 


Bachon Ke Mohaamad (2)

خواجہ شمس الدین عظیمی

تصوف کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔