Topics
رجب کے مہینے میں ۲۷ویں شب کو خاتم النبین حضرت محمدﷺ چچازاد بہن ام ہانی کے گھر آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل
علیہ السلام تشریف لائے اور عرض کیا:
”یارسول اللہ ﷺ! اللہ تعالیٰ
نےآپکو یاد فرمایا ہے۔“
حضرت محمدﷺ حضرت جبرائیلؑ کے ہمراہ زم زم کے کنوئیں کے پاس گئے،وہاں حضرت
محمدﷺ نے وضو کیا اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ بیت المقدس تشریف
لے گئے۔
حضرت محمدﷺ جب بیت المقدس پہنچے تو وہاں تمام انبیاء کرام علیہم السلام
جمع تھے۔حضرت محمدﷺ نے امامت کی اور تمام انبیاء علیہم السلام نے حضرت محمد ﷺ کی امامت
میں نماز ادا کی۔
حضرت محمدﷺ بیت المقدس سے آسمانوں کی طرف روانہ ہوئے، وہاں حضرت محمدﷺ
نے پیغمبروں سے ملاقات کی۔حضرت محمدﷺ کو دوزخ میں رہنے والے لوگوں کی سزاؤں کے بارے
میں بتایا گیا۔ اس ہی طرح جنت میں رہنے والے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمتیں حاصل ہونے
کے بارے میں بتایا گیا۔
پیارے بچو!
اس رات حضرت محمدﷺ کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوئی۔جب حضرت محمد ﷺ اللہ
تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمدﷺ سے
جو چاہا باتیں کیں۔حضرت محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلام
ہوئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”پھر باتیں کیں اللہ نے اپنے بندے سے جو باتیں کیں۔“
)سورۃ نجم۔۱۰(
حضرت محمد ﷺ کے اس سفر کو معراج النبیﷺ کہا جاتا ہے۔معراج کے معنی ہیں غیب
کی دنیا میں سفر کرنا اور وہ رتبہ عطا ہونا جس سے بڑھ کر کوئی رتبہ تصور میں نہ
آئے۔حضرت محمدﷺ کا آسمانوں میں جانا اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنا۔
معر اج النبیﷺ کا مطلب ہے کہ حضرت محمدﷺ نے زمین اور آسمانی دنیاؤں
کی سیر کی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو ملاقات کا شرف بخشا۔اس سفر میں حضرت محمدﷺ
نے بیت المقدس، سات آسمان، فرشتے، جنات، جنت، دوزخ، عرش و کرسی اور بیت المعمور کا
مشاہدہ کیا۔
صبح کے وقت جب حضرت محمدﷺ نے معراج کے متعلق لوگوں کو بتا دیا تو دل
کے اندھے کافروں نے حضرت محمدﷺ کا مذاق اڑایا۔حضرت ابوبکر صدیقؓ سے کا فروں نے کہا:
”آپ نے کچھ سنا ہے؟ آپ کے
رفیق محمدﷺ کہتے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں بیت المقدس اور آسمانوں کی سیر کر کے آئیں
ہیں۔“
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا:
”اگر محمدﷺ ایسا فرماتے ہیں
تو یہ سچ ہے۔“
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے اس جواب سے کافر مایوس ہو گئے۔اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں:
ترجمہ:
”جھوٹ نہ دیکھا دل نے جو
دیکھا اب تم کیا اس سے جھگڑتے ہو،اس پر جو اس نے دیکھا۔“
)سورۃ نجم۔۱۲،۱۱(
معراج کی رات حضرت محمدﷺ نے مسجدالحرام سے بیت المقدس تک سینکڑوں میل
کا فاصلہ طے کیا اور زمین سے آسمانوں تک کتنا سفر کیا اس کا کوئی حساب نہیں ہے۔یہاں
تک کہ فرشتوں کی حد سے آگے تشریف لے گئے۔سات آسمان، عرش و کرسی،بیت المعمور اور سدرۃالمنتٰہی
سے بھی آگے اور بہت آگے تشریف لے گئے۔اللہ تعالیٰ سے باتیں کی اور اسی شب اپنے
گھر واپس تشریف لے آئے۔
پیارے بچو!
معراج کی رات حضرت محمدﷺ نے جو سفر کیا وہ اتنا تیز رفتار سفر تھا کہ
دنیا میں اسکی کوئی مثال ہے اور نہ آئندہ کبھی ہو گی۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔