Topics
اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کو مکے میں اسلام کی تبلیغ کرتےہوئےدس سال گزر چکے تھے۔مکہ کے سرداروں نے حضرت محمدﷺ کی تبلیغ پر پابندی لگا دی، انہیں کسی اجتماع سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
ان حالات میں حضرت محمدﷺ نے مکے کے قریب کے شہر اور بستیوں کا انتخاب کیا تاکہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا پیغام سنایا جائے۔حضرت محمد ﷺ حضرت زیدؓ کو ساتھ لے کر طائف تشریف لے گئے۔
طائف مکے سے جنوب کی طرف تقریباً ایک سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایک سر سبزوشاداب اور ٹھنڈا شہر ہے، اس شہر میں برف بھی گرتی ہے۔ طائف میں بڑے بڑے امراء اور خوشحال لوگ رہتے تھے۔ یہ لوگ مشہور دیوی لات کے پجاری تھے۔جسے وہ خدا کی بیٹی کہتے تھے۔
حضرت محمدﷺ طائف کے تین بڑے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اورانہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ غصے میں آگ بگولہ ہو گئے۔
ایک سردار بولا:
”اگر اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں کعبے کے پردےپھاڑ کر پھینک دوں گا۔“
دوسرے نے کہا:
”کیا خدا کو رسول بنانے کے لیے تم سے بہتر کوئی نہیں ملا تھا۔اس نے رسول بنانا تھا تو کسی حاکم یا سردار کو بناتا۔“
تیسرے نے کہا:
”اگر تم واقعی اللہ کے رسول ہو تو یہ خطرناک بات ہو گی کہ میں تمہاری بات نہ سنوں اور اگر تم اللہ کے رسول نہیں ہو تو تم جھوٹے اور فریبی ہو۔اس صورت میں بھی تم سے بات نہیں کرنی چاہیے۔“
سرداروں نے نہ صرٖف اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا بلکہ شہر کے شرارتی اور اوباش لڑکوں کو حضرت محمدﷺ کے پیچھے لگا دیا۔جنہوں نے حضرت محمدﷺ کی شان میں گستاخی کی،تالیاں بجائیں اور حضرت محمدﷺ کا مزاق اڑایا اور پتھر مارے ۔حضرت محمدﷺ شدید زخمی ہو گئے۔حضرت محمدﷺ کے جسم مبارک سے اتنا خون بہا کہ حضرت محمدﷺ کے جوتے خون سے بھر گئے۔
حضرت محمدﷺ کے پاس حضرت جبرائیل امین ؑ آئے اور عرض کیا:
”اگر آپ اجازت دیں تو بستی والوں پر پہاڑ الٹ دئیے جائیں۔“
رحمت اللعالمین ﷺ نے فرمایا:
”میں مخلوق کے لیے زحمت نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔“
میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے بندے پیدا فرمائےگا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کریں گے۔
زخموں سے چُور حضرت محمدﷺ نے ایک باغ میں پناہ لی اور ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔اس باغ کے مالک دو بھائی شیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ تھے۔انہوں نے حضرت محمدﷺ کو زخمی حالت میں دیکھا تو اپنے ایک عیسائی غلام عداس کے ہاتھ انگور بھیجے۔
حضرت محمدﷺ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کہہ کر انگور کھائے تو عداس کو عجیب لگا۔
حضرت محمدﷺ سے عداس نے پوچھا:
آپ نے یہ کیا کلمہ کہا تھا؟میں نےتو ابھی تک کسی کی زبان سے ایسا کلمہ نہیں سنا۔
حضرت محمدﷺ عداس سے پوچھا:
اے عداس!تمہارا تعلق کس شہر سے ہے۔تمہارادین کیا ہے؟
عداس نے عرض کیا:
میں عیسائی ہوں اور نینوا کا رہنے والا ہوں۔
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
تم میرے بھائی یونسؑ کے شہر کے رہنے والے ہو۔یونس ؑبھی میری طرح اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے۔
یہ سن کر عداس نے جھک کر حضرت محمدﷺ کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔جیسے ہی رات گہری ہوئی عداس، حضرت محمدﷺ کو طائف شہر سے باہر لے آیا اور بولا:
”اے اللہ کے پیغمبر ﷺ! آپ اس شہر سے دور نکل جائیے۔یہاں کے لوگ آپ کی جان کے دشمن ہیں۔“
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔