فتح مکہ
ہجرت کے آٹھویں سال دس (۱۰)رمضان المبارک کو حضرت محمدﷺ مدینے سے دس ہزار فوج کے ساتھ مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ
نے حضرت محمدﷺ کو فتح عطا فرمائی۔
انسانی تاریخ میں یہ دن یادگار ہے۔ کیونکہ اس روز مکہ بغیر کسی جنگ
کے فتح ہو گیا۔ فاتح فوج نے کسی کو نہیں ستایا۔ مسلمان نہایت امن اور ادب کے ساتھ
مکہ میں داخل ہوئے۔ اہل مکہ خوف و ہراس کے عالم میں تھے ان کے دل پریشان تھے۔ ان
کا خیال تھا کہ مسلمان ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو فاتح فوج مغلوب عوام کے
ساتھ کرتی ہے۔ خون سے گلیان بھر جائیں گی۔ آہ و بکا سے فضا لرز جائے گی۔ لوگ گھر
سے بے گھر ہو جائیں گے۔ خواتین بے پردہ ہو جائیں گی۔ بچے یتیم ہو جائیں گے۔ لیکن
حضرت محمدﷺ نے اعلان کروادیا:
”جو شخص مسجدالحرام میں
داخل ہوجائے اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امان ہے۔
جو اپنا دروازہ بند کر لے اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امان ہے۔
جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امان ہے۔“
پیارے بچو!
ابو سفیان قریش کے وہی سردار ہیں جو اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔
اسلام کے خلاف ہونے والی جنگوں میں پیش پیش تھے۔ رحمت اللعالمین حضرت محمدﷺ نے
انہیں بھی معاف فرمایا۔
حضرت محمدﷺ نے مکہ والوں کو جمع کیا اور خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے
ہو کر فرمایا:
”تم لوگ مجھ سے کس سلوک کی
توقع کرتے ہو؟“
کفار نے کہا:
”آپﷺ شریف باپ کے بیٹے اور
شریف بھائی ہیں ۔“
رحمت اللعالمین حضرتم محمدﷺ نے فرمایا:
”اے مکہ کے باشندو! آج میں
تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں
جو یوسفؑ نے اپنے بھایئوں سے کہی تھی
اللہ تعالیٰ نے تم سب کی بخشش فرمادی ہے۔ تم لوگ آزاد ہو۔“
فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ میں ۳۶۰ بت رکھے ہوئے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے حق آیا
باطل مٹ گیا بے شک باطل کو مٹ جانا ہی تھا۔(سورۃبنی اسرائیل کی آیت ۸۱)، پڑھتے ہوئے ہاتھ میں
پکڑی ہوئی لکڑی سے سب سے بڑے بت کی طرف اشارہ کیا، وہ اوندھے منہ گر گیا۔ اس کے
بعد حضرت محمدﷺ کے حکم سےخانہ کعبہ سے ۳۶۰ بت نکال کر باہر پھینک دئیے گئے۔
فتح مکہ کے بعد حضرت محمدﷺ نے اپنے اور مسلمانوں کے سخت دشمنوں کے
ساتھ انتہائی نرمی اور فراخ دلی کا مظاہرہ کیا اور انھیں عفودرگزر سے نوازا۔ اسلام
کے انتہائی خطرناک دشمنوں میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی۔ اس عورت نے جنگ
اُحد میں حضرت محمدﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ ہندہ کو بھی
حضرت محمدﷺ نے معاف کر دیا۔ اسلام کے بد ترین دشمن ابو جہل کی بہو اُم حکیم حضرت
محمدﷺ کے پاس آئیں اور اسلام قبول کر لیا۔ اُم حکیم نے حضرت محمدﷺ سے درخواست کی:
”یا رسول اللہ ﷺ! میرے
شوہر کو امان دیجئے۔“
انکے شوہر عکرمہ اسلام کی دشمنی میں پیش پیش تھے۔آپ ﷺ نے ان کے لئے
بھی معافی کا اعلان کر دیا۔
حضرت محمدﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے ہم پر یہ بات روشن ہوتی ہے کہ حضرت
محمدﷺ کے مزاج اقدس میں معاف کر دینے کی صفت بہت نمایاں تھی۔ ہم حضرت محمدﷺ کے
اُمتی ہیں۔ ہمارے اوپر فرض ہے کہ ہم بھی حضرت محمدﷺ کے نقش قدم پر چلیں اور حضرت
محمدﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کریں۔ ماں باپ، بہن بھائی، بیٹی اور بیٹے سے زیادہ حضرت
محمدﷺ سے محبت کریں۔