Topics
حضرت محمدﷺ ایک روز کسی وادی سے گزر
رہے تھے،کسی نے پکارا ”یا رسول اللہ ﷺ “حضرت محمدﷺ نے دیکھاکہ ایک ہرن بندہی
ہوئی ہے اور اس کے قریب ایک آدمی سو رہا ہے۔حضرت محمدﷺ اس ہرن کے قریب تشریف لائے تو ہرن نے کہا:
یا رسول اللہ ﷺ اس آدمی نے مجھے پکڑ لیا ہے۔سامنے پہاڑ میں میرے دو
بچے بھوکے ہیں۔آپ ﷺ تھوڑی دیر کے لیے مجھے آزاد کر دیں۔میں اپنے بچوں کو دودھ پلا کر
واپس آجاؤں گی۔
حضرت محمدﷺ نے ہرن کی بات سن کر اسکی رسی کھول دی۔ہرن وعدہ کے مطابق بچوں
کو دودھ پلا کر واپس آگئی۔حضرت محمدﷺ اسے رسی سے باندھ رہے تھے کہ سویا ہوا آدمی
اٹھ گیا۔ وہ شخص سمجھا کہ ہرن آپ ﷺ کو پسند آگئی ہے۔
اس نے کہا:
”یا رسول اللہ ﷺ میں یہ ہرن
آپ ﷺ کو تحفہ میں پیش کرتا ہوں۔“
حضرت محمدﷺ نے ہرن کو آزاد کر دیا۔ہرن آزاد ہونے کے بعد خوشی سے بھاگتی
ہوئی بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ رہی تھی۔جیسے وہ حضرت محمدﷺ کا شکریہ ادا کر رہی
ہو۔
پیارے بچو!
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو ساری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین بنا
کر بھیجاہے۔ چرند، پرند، نباتات، جمادات، جنات، فرشتے اور انسان سب کے لیے حضرت محمدﷺ
رحمت ہیں۔ حضرت محمدﷺ کی شفقت اور رحم دلی کا یہ حال تھا کہ حضرت محمدﷺ کسی کو بھی
تکلیف میں دیکھ کر بے چین ہو جاتے تھے۔ پرندے اور جانور بھی اس بات سے واقف تھے کہ
حضرت محمدﷺ ان کا دکھ درد سنتے ہیں اور اس کا مداوا کرتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔