Topics
اللہ تعالی اپنا پیغام پہنچانے کے لئے چراغ سے چراغ جلاتا
ہے معرفت کی مشعل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں پہنچتی رہتی ہے۔ تمام روحانی لوگ
قدرت کے وہ ہاتھ ہیں جو مشعل لے کر چلتے ہیں اس روشنی سے وہ لوگ اپنی ذات کو بھی
روشن رکھتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہ روشنی پہنچاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک روحانی ہستی،
ایسا ہی روحانی ہاتھ ایسی ہی ایک روشن مشعل سید نا حضور علیہ الصلوة والسلام کے
وارث ابدال حق ،سلسلہ عظیمیہ کے بانی مبانی رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے روح رواں حسن
اخری محمدعظیم برخیا ، قلندر بابا اولیاء رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
محمد عظیم :یہ گھریلو نام حضور قلندر
بابا اولیاء کی پیدائش کے بعد رکھا گیا ۔
سید : آپ کا خاندانی سلسلہ
حضرت امام حسن عسکری سے قائم ہے۔
برخیا: شوق شعر و سخن تھا برخیا تخلص ہے ۔
قلندر بابا اولیاء:
عرفیت ہے مرتبہ قلندریت کے اعلی مقام پر فائز ہونے کی دجہ سے ملائکہ ارضی دسمادی
اور حاملان عرش میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اور یہی عرفیت یعنی "قلندربابا اولیاء
" عامتہ الناس میں زبان زد عام ہے۔
جاۓ پیدائش :۱۸۹۸میں قصہ خور جہ
ضلع بلند شہر
یوپی (بھارت) میں پیدا ہوتے۔
تعليم وتربیت :آپ نے
ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنےکے بعدمیٹرک بلند
شہر، سے کیا۔ اور انٹرمیڈیٹ کے لئے داخلہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیا۔
روحانی تربیت :اللہ تعالی جب کسی بندے کو اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا
ہے تو اس کی تربیت کا پورا پورا انتظام کرتا ہے۔ یہی کچھ قلندر بابا اولیاء کر کے ساتھ
ہوا۔ علی گڑھ میں قیام کے دوران آپ کا میلان در ویشی کی طرف بڑھ گیا۔ آپ وہاں
مولانا کابلی کے قبرستان کے حجرے میں زیادہ وقت گزارنے لگے۔ صبح تشریف لے جاتے اور
رات کو واپس آتے۔
تربیت کا دوسرا دور حضور قلندر بابا اولیاء کے نانا ، بابا
تاج الدین ناگپوری کی سرپرستی میں شروع ہوا۔ ناگپور میں ۹سال تک تربیت کا سلسلہ
جاری رہا ۔
شادی : تربیت کے دوران ہی
حضور قلندر بابا اولیاء کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ گھر کا نظام چلانے اور
بہن بھائیوں کی تربیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے نانا تاج الدین ناگپوری کے ارشاد کے
مطابق ان کی شادی ہوئی ۔
هجرت :تقسیم ہند کے بعد
قلندر بابا اولیا ءمع اہل و عیال، والد اور بہن بھائیوں کے ساتھ کراچی تشریف لے
آئے۔
ذریعہ معاش: کراچی میں
اردوڈان میں سب ایڈیٹر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک رسالہ نقاد میں
کام کرتے رہے ۔
بیعت :سلسلہ سہروردیہ کے
بزرگ قطب ارشاد حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی (بڑے حضرت جی ) جب ۱۹۵۶ء میں کراچی تشریف
لائے تو قلندر بابا اولیاء نے بیعت ہونے کی درخواست کی۔ بڑے حضرت جی نے فرمایا کہ
تین بجے آؤ۔ سخت سردی کا عالم تھا۔ قلندر بابا اولیاء گرانڈ ہوٹل میکلوڈ روڈ کی سیڑھیوں پر رات دو بجے جاکر بیٹھ
گئے۔ ٹھیک تین بجے بڑے حضرت جی نے دروازہ کھولا اور اندر بلالیا سامنے بٹھا کر پیشانی
پرتین تین پھونکیں ماریں۔ پہلی پھونک میں عالم ارواح منکشف ہوگیا۔ دوسری پھونک میں
عالم ملکوت وجبروت سامنے آگیا اور تیسری پھونک میں حضور قلندربابا اولیاء نے عرش
معلی کا مشاہدہ کیا۔
حضرت ابوالفیض قلندر علی سہروردی نے قطب ارشادکی تعلیمات تین ہفتے
میں پوری کرکے خلافت عطا رفرمادی ۔ اس کے بعد حضرت شیخ نجم الدین کبری رحمتہ اللہ علیہ
کی روح پرفتوح نے روحانی تعلیم شروع کی اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ سیدناحضورعليہ
الصلوۃ والسلام نے براہ راست علم لدنی کا علم عطا فرمایا۔ اور سیدنا حضور علیہ
الصلوة والسلام کی ہمت اور نسبت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں پیشی ہوئی اور اسرار و رموز خود اللہ تعالی نے
سکھائے۔ جن بزرگوں کی ارواح طیبات سے اور جن سلسلوں سے حضور قلندر بابا اولیاء کونسبت اویسیہ
کے تحت فیض حاصل ہواان کی تفصیل دیئے گئے نقشے نسبت فیضان میں بیان کی گئی ہے۔
حضور قلندربابا اولیاء کا وصال ۲۷ جنوری۱۹۷۹ کو ہوا۔
تصنيفات :حضور قلندر بابا اولیاء
کے فیض کو عام کرنے کے لئے سلسلہ عظیمیہ کو تین کتابیں بطور ورثہ منتقل ہوئی ہیں۔
)۱(علم و عرفان کا سمندر "رباعیات قلندر بابا اولياء"
(۲) اسرار و
رموز کا خزانہ "لوح وقلم "۔
(۳)کشف و کرامات اور ماورائی علوم کی توجیہات پرمستندکتاب
"تذکره تاج الدین بابا"
خواجہ شمس الدین عظیمی
انسان نے جس
قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا
ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔ سکون کی تلاش وجستجومیں
انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں
کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی
ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے
تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس
سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید
افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام مالک میں پھیل رہا ہے۔