Topics
جب کچھ نہ تھا تواللہ تھا ، اس تنہا اور یکتا ذات نے چاہا کہ کوئی اسے جانے ، کوئی اسے
پہچانے، کوئی اسکی ربوبیت کا اقرار کرے ، کوئی اس کی عظمت کا اعتراف کرے ۔ کوئی اس
کی بڑائی کو تسلیم کرے اور اسکی خالقیت اور اس کی صناعی کا اظہار ہو ۔ اس عظیم ہستی
نے تخلیق کا ارادہ کیا اور جو کچھ ذات اکبر کے ذہن میں موجود تھا اس کو عملی جامہ
پہنایا۔ اور جیسے ہی ’کن فیکون بنا ساری کائنات وجود میں آگئی ۔ کائنات کی تمام
دوسری نوعوں کے ساتھ انسان بھی وجود میں آ گیا۔ انسان دنیا میں آیا۔ یہاں اس کی
تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ تعداد میں اضافہ کے ساتھ ساتھ آبادیاں بن گئیں۔ بے شمار
مسائل پیدا ہوئے سکون بے سکونی میں تبدیل ہوا یقین ٹوٹنے لگا۔ ذات اکبر کوانسان پر
رحم آیا۔ ہدایت کا سلسلہ جاری ہوگیا اور انبیاءبھیجے جانے لگے۔ یہاں تک کہ آخری نبی
حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ۔ لیکن
رہنمائی کا سلسلہ جاری رہا ۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث علماء اولیاء
اللہ انسانوں کی رہنمائی کرتے رہے ۔ قدرت کی فیاضی اپنا فیض جاری رکھنے کے لئے ایسے
بندے منتخب کرتی ہے جو بندوں کو دنیا کی حقیقت سے روشناس کراتے ہیں۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انسان نے جس
قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا
ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔ سکون کی تلاش وجستجومیں
انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں
کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی
ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے
تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس
سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید
افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام مالک میں پھیل رہا ہے۔