Topics
سلسلہ عالیہ عظیمیہ جذب وسلوک دونوں روحانی شعبوں پر محیط ہے حضور قلندر بابا اولیاء
خصوصاً اکیس سلاسل طریقت کے مربی دمشفی ہیں اور مندرجہ ذیل گیارہ سلاسل کے خانوادہ
ہیں:
ا۔ قلندریہ :
امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصری
۲۔ نوریہ : امام سلسلہ حضرت موسی کاظم رضا
۳۔چشتیہ : امام سلسله ممشاد دینوری
۴۔نقشبندیہ: امام سلسلہ حضرت شیخ بہاء الحق نقشبند خواجہ باقی بااللہ
۵۔ سہروردیہ : امام سلسلہ حضرت ابوالقاہر
۶۔قادریہ: امام سلسلہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی
۷۔طيفوریہ : امام سلسلہ حضرت با یزید بسطامی
۸۔جنيدیہ: امام
سلسلہ حضرت ابوالقاسم جنید بغدادی
۹۔ملامتيیہ: امام سلسلہ حضرت ذوالنون مصری
۱۰۔ فردوسیہ: امام سلسلہ حضرت نجم الدین کبری ٰ
۱ا۔ تاجيیہ : امام سلسلہ
حضرت صغریٰ تاج الدین
سلسلہ عظیمیہ میں روایتی پیری مریدی کا مروجہ طریقہ نہیں
ہے۔
نہ اس میں کوئی مخصوص لباس ہے نہ کوئی وضع قطع مختص ہے خلوص
کے ساتھ طلب روحانیت کا ذوق وشوق ہی طالب کو سلسلہ عظیمیہ سے منسلک رکھتا ہے سلسلہ
میں مریدین دوست کے لقب سے یادکے جاتے ہیں ۔تعلیم وتربیت کے سلسلے میں سخت ریاضتوں،
چلوں اور مجاہدوں کے بجائے ذکر واشغال نہایت آسان اورمختصر ہیں۔ تعلیم کا محوروہ
غار حرا والی عبادت ہے جہاں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل عرصہ صرف کیا
۔اس عبادت سے سالک میدان روحانیت میں بہ آسانی گامزن ہو جاتا ہے جوں جوں اس کا قدم
آگے بڑھتا ہے اس پر تفکر کے دروازے کھلنے لگتے ہیں ۔ لاشعور میں ہر سمت بیداری اور
نظرمیں اسرار کے پردوں میں جھانکنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ زاہد خشک کے
بجائے حق آگاہی کا ایک ہوشمند طالب علم بن جاتا ہے۔ چونکہ امام سلسلہ ابدال حق حضرت
قلندر بابا اولیاء شعبہ تکوین کے اعلی ترین عہدے اور قلندریت کے نہایت بلند
مقام پر فائز تھے اس لئے سلسلہ عظیمیہ میں قلندری رنگ مکمل طور پر موجود ہے۔
قلندر عارف باللہ،
علم الہی کا آئینہ دار ہوتا ہے حق کی عکاسی کرتا ہے۔ انوار محمدی کے طفیل وہ خالق
و مخلوق کے درمیان رابطہ بن جاتا ہے کہ ادھراللہ سے واصل ادھر مخلوق میں شامل فیضان
حق سے سیراب ہوتا ہے توحیدی سکون اور حق آگہی کے کیف میں زندگی گزارتا ہے غیب کی
ہر راہ اپنی انتہا تک اسکے لیے کھلی ہوتی ہیں۔
قلند رخزائن کن کے
انوار کو پالیتا ہے۔ اس کی روح کو ایک انبساط کی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر غیراللہ
بشمول خود کی لا، کہہ کے الہ “ کا حسن دیکھ لیتا ہے ۔
مشاہدہ کرنے والوں نے دیکھا کہ قلندر بابا کی محفل میں انکے
دسترخوان پرشیعه ،سنی، دیوبندی، بریلوی، غرض کہ ہر مکتبہ فکر کے لوگ بصد آداب بیٹھے
ہوے نظر آتے تھے ۔ قادری، چشتی ، نقش بندی ،سہروری ہر سلسلہ روحانی کے تشنہ لبوں کی
حضور قلندر بابا اولیاء کی جوئے کرم سے سیرابی ہوتی تھی، قلندر بابا اولیاء کے دریا
ئے فیض کی طغیانی کی یہ کیفیت تھی کہ جس نے بھی ان کا دامن پکڑ لیا اللہ تعالی نے
اس پر فضل کر دیا جس کو قلندر بابا نے محبت اور کرم کی نگاہ سے دیکھ لیا اس کی دنیا
ہی بدل گئی جس کو ان کی طرزفکر منتقل ہوگئی اسکے نصیب جاگ اٹھے ۔حق آگہی کے شرف سے
مشرف ہوگیا ۔
مستی خود آگہی قلندر کی ایک شان ہوتی ہے ۔ اس کوذات اور صفات
دونوں کی آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ وہ اپنے وجود سے کم اور حق میں ضم ہوجاتا ہے ۔یہ
ادائے قلندرانہ ہے کہ درویشانہ بے نیازی کے ساتھ تیر اور لب بندی اس کا شیوہ ہوتی
ہے۔
قلندر شہید خفی ہو کر جیتے جی اپنے مرکز وجود میں سبحانیت
کا نظارہ کرتا ہے۔ وہ دما دم دم کے کیف دائمی سے سرشار ہوتا ہے ۔حضوری کے رشتے میں
منسلک من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ کے بھید کا راز دان ہوتا ہے۔ اس سے وجودی کثافتوں
کے پردے ہٹ جاتے ہیں اور وہ حق کو حقانیت میں دیکھتا ہے ۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
انسان نے جس
قدرس سائنسی ترقی کی ہے اسی قدر وہ مذہب دور ہوگیا ہے اور اس کا عقیدہ کمزور ہوگیا
ہے۔ یقین ٹوٹ گیا ہے اور انسان سکون سے نا آشنا ہو گیا ہے ۔ سکون کی تلاش وجستجومیں
انسان روحانیت کی طرف متوجہ ہوا مگر روحانیت کے حصول کے لئے غیرسائنسی طور طریقوں
کو وہ اپنانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک ایسے روحانی سلسلے کی
ضرورت تھی جو وقت کے تقاضوں کے عین مطابق ہو۔ سلسلہ عظیمیہ کا قیام اسی مقصد کے
تحت ہوا اور یہ سلسلہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس
سلسلے میں روایتی طور طریقوں کو نظر انداز کر کے جدید طرزیں اختیار کی گئی ہیں جدید
افکار و نظریات کی وجہ سےیہ سلسلہ تیزی سے دنیا کے تمام مالک میں پھیل رہا ہے۔