Topics
اگر آپ کسی شخص کے دماغ کی کوئی مخصوص رگ میں سوئی چبھوئیں گے تو دماغ کے جس گیٹ کے وہ نزدیک ہو گی وہ گیٹ اوپن ہو جائے گا۔ وہ شخص ہنسنے لگے گا اور ہنستا ہی چلا جائے گا۔ بالکل اسی طرح اگر رونے والے گیٹ میں باریک پن چبھائی جائے تو وہ فرد رونے لگے گا اور جب تک وہ گیٹ اوپن رہے گا اس کا رونا جاری رہے گا۔ کچھ لوگ بلاوجہ ہنستے نظر آتے ہیں۔ ان پر ہنسنے کا موڈ چھایا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ سوچنے کی اسپیس GATESکو حرکت دیتی ہے اور کلوز کرتی ہے۔ یہ حالت صرف زندگی میں ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسپیس میں کوئی الیکٹران اپنے مرکز سے الگ ہونے کے لئے جمپ لگاتا ہے تو باہر سے کوئی الیکٹران اس جگہ کو پُر کرنے کے لئے آگے آ جاتا ہے۔ جب الیکٹران کا یہ فعل باہر کی طرف جمپ لگانا، دوسرے الیکٹران کا اس کی جگہ لینا، اسپیس کے اندر رونے یا ہنسنے والے GATESکو یا سنجیدہ کرنے والے GATESکو یا دیکھنے والے GATESکو یا سونگھنے والے GATESکو حرکت دیتا ہے تو اس حرکت سے جو نتیجہ ملتا ہے اسے ہم بولنا، سونگھنا، ہنسنا، رونا وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ جب ہم کسی مرحوم رشتہ دار کو یاد کرتے ہیں تو جس قسم کی حرکت ہوتی ہے یا حرکت ایسی ہوتی ہے کہ وہ سنجیدگی کے GATESکو چھو لیتی ہے اور وہ شخص سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اگر یہ فعل بار بار ہو تو انسان اداس ہو جاتا ہے اور مسلسل ہونے لگے تو رونے لگتا ہے۔ اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ آپ کے کسی دوست کو یکایک کوئی بات یاد آ جاتی ہے اور اس بات کا کوئی رشتہ موجودہ ماحول سے نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی نہ کوئی الیکٹران باہر جمپ لگاتا ہے۔ اور کوئی نہ کوئی الیکٹران اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس تبدیلی سے میری مراد الیکٹران نہیں مگر وہ BEHAVIOURہے جسے الیکٹران کہتے ہیں۔ وہ BEHAVIOURجن GATESکو چھو لیتا ہے وہ GATESاوپن ہو جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان کی تحریریں بھی یاد آ جاتی ہیں۔ اس شخص کو تعجب ہوتا ہے کہ نہ تو ایسی کوئی بات ہو رہی تھی اور نہ ماحول میں ایسا کچھ ہوا ہے جس کا اس سے رشتہ ہو، اگر یہ سمجھنا مشکل ہے تو کیا وجہ ہے۔
آپ نے کسی ڈاکو کے بارے میں یہ پڑھا ہو گا کہ اس نے کسی شخص کو بھاری چیز سے سر پر چوٹ ماری اور جس شخص کو سر پر چوٹ لگی وہ بے ہوش ہو گیا۔ بے ہوش ہونے کی وجہ بالکل سیدھی سادی ہے۔ کھوپڑی کی ہڈی بہت مضبوط ہوتی ہے۔ بدن میں ایسی مضبوط ہڈی شاید ہی کوئی ہو۔ چوٹ کا اثر ہڈی پر نہیں مگر دماغ کے اندر جو برقی رو ہے اس پر ہوتا ہے جس سے اس کے اندر خلل واقع ہو جاتا ہے اور GATES اپنا کام چھوڑ دیتے ہیں یا جب تک چوٹ کا اثر رہتا ہے وہ شخص بے ہوش رہتا ہے۔ ایسے موقع پر سر پر مالش کی جائے تو وہ شخص جلد بیدار ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ برقی رو دماغ کو ماحول کے ساتھ ملاتی ہے جو ہاتھ کے ذریعے بہت جلد ہوتا ہے اور تمام زخمی GATESکو آرام ملتا ہے۔ آرام ملنے سے وہ شخص ہوش میں آ جاتا ہے۔ اسپیس میں ہر پل یعنی کہ سیکنڈ کے چھوٹے سے چھوٹے حصے میں بھی کچھ تبدیلی ہوتی ہے۔
اس کے بارے میں ایک صوفی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ جس دریا کو میں نے زندگی میں ایک مرتبہ پار کیا ہے اس دریا کو زندگی میں پھر کبھی پار نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ایک دریا کے کنارے رہتا تھا اور دن میں کئی مرتبہ اسے پار کرتا تھا۔ وہ حقیقت میں اس بات کو کچھ حد تک ضرور سمجھتا تھا کہ سیکنڈ کے ہر حصے میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور واقع ہوتی ہے۔ انسان کی نظر اس تبدیلی کو سوچنے اور سمجھنے سے قاصر ہے۔ کوئی درخت جو آپ کے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے سے ہر پل بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے۔ اندر بھی اور باہر بھی۔
کونپلوں سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ بڑھتا ہے مگر یہ کیسے بڑھتا ہے اس کے بارے میں ہم سوچتے نہیں ہیں۔ حقیقت میں اس کے بڑھنے کی وجہ اسپیس ہے، اسپیس میں تبدیلی ہے۔ اسپیس اپنی کاریگری ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہے اور ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ درخت میں کونپلیں پھوٹ رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایک پتہ بالکل ہرا ہے اور کچھ وقت کے بعد وہ سوکھ جاتا ہے اور اپنی جگہ سے گر جاتا ہے۔ یہ عمل ہر پل ہوتا رہتا ہے یعنی کہ کونپل سے پتہ بنتا ہے اور پتہ سوکھ جاتا ہے۔ یہ تمام عوامل اسپیس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
اسپیس کا اپنا عکس ہر چیز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہے اور ہر سیکنڈ کے چھوٹے سے چھوٹے حصہ میں بھی یہ تبدیلی عمل میں آتی رہتی ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ عمل یکطرفہ نہیں ہوتا مگر ہماری آنکھوں میں بھی ہوتا ہے۔ ہمارے دماغ میں بھی ہوتا ہے اور ہماری پوری زندگی کے درمیان یہی تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں یعنی عمل دو طرفہ ہوتا ہے۔ ایک طرف شاہد میں اور دوسری طرف مشہود میں۔ یکطرفہ کبھی نہیں ہوتا۔ ہم جب کوڑے کے ڈھیر میں آگ لگاتے ہیں تو وہ جلنے لگتا ہے اور اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ کوڑے کو آگ سے کیا رشتہ؟ اسی کوڑے سے آگ نکلتی ہے جہاں ایک سیکنڈ پہلے آگ کا نشان موجود نہیں تھا۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ کوڑا آخر میں راکھ بن جاتا ہے۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ لال شعلے جو کوڑے میں سے نکلے تھے وہ کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟ حالانکہ کوڑے سے لال شعلوں کا اور جلنے کا کوئی رشتہ نہیں ہے۔
جس چنگاری سے آگ کی ابتداء ہوئی وہ تو صرف ایک چنگاری ہی تھی۔ اس کی حیثیت چنگاری سے زیادہ ہرگز نہیں تھی۔ مگر دیکھنے والی آنکھ اسے بڑھتی ہوئی آگ کی شکل میں دیکھتی ہے اور شعلوں پر شعلوں کا احساس ہوتا ہے۔ کبھی کبھار آبادیاں، بستیاں بھی جل جاتی ہیں اور ہمیں راکھ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حقیقت میں یہ تمام شعلے اسپیس سے آئے تھے اور اسپیس میں گم ہو گئے۔ ہم کسی چیز کے ڈائی مینشن اسپیس میں دیکھتے ہیں یعنی کہ لمبائی، چوڑائی اور موٹائی اور کبھی یہ سوچنے کی تکلیف نہیں کرتے کہ یہ سب کیسے نظر آتا ہے؟ آپ ذرا تھری ڈائی مینشن فلم کے اوپر سوچیں۔ اس فلم میں کچھ گہرائی نہیں مگر آپ کی آنکھوں پر جو چشمے لگے ہوئے ہیں اس میں گہرائی موجود ہے جو آپ کو نظر آتی ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ایک دیوار کی لمبائی، موٹائی اور چوڑائی سب آپ کے سامنے موجود ہیں۔ اگر ہم اس فلم سے گہرائی نکال لیں تو صرف تصویر رہ جاتی ہے اور تصویر کو مائیکروفلم میں تبدیل کر دیں تو صرف ایک ذرہ رہ جائے گا۔ اور ذرہ کے ٹکڑے کر دیں تو ذرہ کے ہر ٹکڑے میں وہ تمام خوبیاں موجود ہوں گی مگر ٹکڑے ہونے سے اور چھوٹا ہونے سے ایک وقت ایسا آئے گا کہ ٹکڑے کا ہر حصہ آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا، تو کیا اس سے یہ سمجھا جا ئے کہ ذرہ کی ہستی مٹ گئی؟ ہرگز نہیں۔ میں یہ بات کسی طرح بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ وہ ذرہ موجود نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذرہ میرا دیکھا ہوا ہے اور میرے ذہن کے پردے پر موجود ہے۔ حالانکہ وہ ہمیں نظر نہیں آتا مگر ہم اس کی ہستی سے انکار نہیں کر سکتے۔ اس چیز کے اوپر اگر آپ اپنا ذہن مرکوز کریں تو اسپیس یا ایتھر کا خیال فوراً آئے گا اور یہ بات آپ کے ذہن میں آ جائے گی کہ کوئی چیز اسپیس کی حرکت میں رکاوٹ نہیں پیدا کر سکتی اور اس میں لچک یہ بھی ہے کہ ہر مائیکروفلم یا تو کم ہو گی یا بڑھے گی۔ ایک ہی حالت میں قائم نہیں رہتی۔ یہ عمل مسلسل جاری رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات میں تمام جاندار، نباتات، جمادات وغیرہ کی نسلیں چلتی ہیں۔
ایک چھوٹی سی مثال یہ بھی ہے کہ جس سے یہ بات ذرہ زیادہ واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کونپلیں بڑھ کر پتے کی شکل اختیار کرتی ہیں تو ان کے اندر ایٹموں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے مگر اللہ کی سنت کے مطابق جب وہ چیز اپنی انتہا کو پہنچتی ہے تو ایٹموں کی تعداد کم ہونا شروع ہو جاتی ہے، پتوں کا رنگ بدلتا جاتا ہے اور یہ افعال سلسلہ وار ہوتے ہیں۔ پتہ کا رنگ ہی نہیں بدلتا مگر وہ سکڑتا بھی ہے۔ یہاں تک کہ سوکھ جاتا ہے اور درخت کی ڈالی پر لگا ہوا نہیں رہ سکتا، مگر الگ ہو کر گر جاتا ہے اور کمزور اور چھوٹا ہوتے ہوتے مائیکروفلم بن جاتا ہے اور وہ پھر وہی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اسے جلایا جائے۔ اگر جلایا نہیں بھی جائے، پھر بھی وہ ایک مائیکروفلم بن جائے گا اور مائیکروفلم سے وہی شکلیں اختیار کرے گا۔ کونپل اور کونپل سے پتہ۔ یہ بات انسان کی نظر کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ پتوں کی زندگی کے مرحلے دیکھ سکے یا انہیں گن سکے۔ اس لئے کہ یہ سب افعال انسان سے بات چیت کرنے کے قابل نہیں ہیں، کیونکہ وہ ان کی نظروں سے بالکل چھپے رہتے ہیں۔ وہ صرف ان حالات کو دیکھتا ہے جسے آنکھیں دیکھ سکتی ہیں، جن کی حدیں کچھ طول موج تک محدود ہیں۔ اگر اس طول موج میں ایک بال بھر کی بھی کمی رہ جائے یا ایک بال بھر کی بھی زیادتی ہو جائے تو آنکھیں اس اسپیس کو نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے کہ آنکھوں کی اسپیس اس اسپیس سے اتنی دور ہو جاتی ہے کہ آنکھوں کی اسپیس اس کی نفی کردیتی ہے۔ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہوئے کہ ذرہ فنا ہو گیا ہے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا