Topics
دماغ کا ایک خاص
گیٹ (MAIN GATE)ہے۔ اس کے اطراف میں اور (GATES) ہیں۔ وہ گیٹ کلوز ہو جانے سے دیگر (GATES) بھی
کلوز ہو جاتے ہیں اور حواس سکڑنے لگتے ہیں سننے کے‘ دیکھنے کے‘ سونگھنے کے وغیرہ
سب حواس سکڑتے سکڑتے اتنے سکڑ جاتے ہیں کہ بیماری بن جاتی ہے اور اکثر عضلات کا
فالج ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی فرد ضدی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کی بات نہیں سنتا
تو اس کے بھی حواس سکڑنے لگتے ہیں۔ یہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ اس کے حواس سکڑ گئے
ہیں۔ ایسے شخص کے منہ کا ذائقہ خراب ہو جاتا ہے۔ آنکھوں کو جو چیزیں اچھی ہیں،
اچھی نہیں لگتیں یا پھر اس کے برخلاف جب وہ آواز سنتا ہے تو سریلی آواز بھی اسے
اچھی نہیں لگتی۔ بلکہ وہ نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ سب باتیں حواس کے سکڑنے کی نشانیاں
ہیں۔ حواس کے سکڑنے سے چہرہ بھی پھیکا پڑ جاتا ہے۔ یہ بھی ایک بات ہے جس سے کہ
بیماری پرکھی جا سکتی ہے۔ چہرے پر جیسی چمک ہونی چاہئے ویسی چمک نہیں رہتی۔ چاہے
چہرہ کسی بھی رنگ کا ہو۔
اس کا علاج یہ ہے
کہ شہادت کی انگلی پر:
’’
أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘
پڑھ کر دم کریں اور
انگلی کو کچھ (SECONDS) تک تالو پر پھیریں‘ اس طرح پھیریں کہ دماغ کے خاص گیٹ کو چھوئے۔
اگر پھر بھی کچھ سکڑن باقی رہے تو ایک بڑا پتلا بنائیں اور ایک مخصوص طریقے کے مطابق
سوئیاں لگائیں ہر پن کے اوپر۔
’’
أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‘‘
دم کرتے جائیں اور
پن لگاتے جائیں۔ اس سے بیماری بالکل ختم ہو جائے گی، حواس بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔
اگر ذہن میں ارادہ کر لیں کہ بیماری ختم ہو جائے تو بیماری ختم ہو جاتی ہے۔
ہر انسان (فرد) کے
دماغ میں دو کھرب خلئے ہیں۔ ان دو کھرب خلیوں میں ہر خاص گیٹ کے اطراف پانچ اور (GATES)
ہوتے ہیں۔ اس طرح کل بارہ کھرب خلئے ہوتے ہیں۔ خاص گیٹ وہ ہے جس میں وہم (CONCEPT)
پرورش پاتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور گیٹ اوپن ہوتا ہے جو حواس بن جاتا ہے‘ چوتھا
گیٹ اوپن ہوتا ہے جس سے حرکت واقع ہوتی ہے۔
پھر سوچ کے عمل کا
پانچواں گیٹ اوپن ہوتا ہے تو عمل وقوع پذیر ہوتا ہے اور جب چھٹا گیٹ اوپن ہوتا ہے
تو نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ یہ چھ (GATES) دراصل ایک ہی گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس میں (MAIN GATE)
وہم ہے‘ اگر اس (MAIN GATE) کو کلوز کیا جائے تو دوسرا گیٹ (MAIN GATE)
بن جاتا ہے۔ یعنی وہ گیٹ جس میں عمل پرورش پاتا ہے اور خیال کے بعد فوراً نتیجے پر
پہنچ جاتا ہے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا