Topics
پیارے بچو!
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے پیغمبروں کو اس دنیا میں بھیجا ہے۔پیغمبروں کی تعلیمات یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر محیط ہیں ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ رگِ جان سے زیادہ قریب ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ سب کے خالق ہیں اور ہم سب اس کی مخلوق ہیں ۔۔۔۔۔۔ جس بندہ نے اپنی روح کو پہچان لیا،وہ اپنے رب کو پہچان لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے ۔۔۔۔۔۔ بزرگوں کا ادب کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بچوں کے ساتھ ادب سے پیش آؤ ۔۔۔۔۔ ماں باپ کی خدمت کرو ۔۔۔۔۔۔ اساتذہ کا ادب کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔ قرآن شریف ترجمہ کے ساتھ پڑھو ۔۔۔۔۔۔۔ نماز میں جو سورتیں پڑھی جاتی ہیں ان کا ترجمہ یاد کرو۔
پیارے بچو!
حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور آخری رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جو مقام حضرت محمد ﷺ کو عطاکیا ہے اس پر تمام انبیاء فخر کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ حضرت محمد ﷺ سے محبت کرتے ہیں اور حضرت محمد ﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ سے باتیں کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
ترجمہ: “جو بندہ میرے محبوب ﷺ سے محبت کرتا ہے میں بھی اس سے محبت کرتا ہوں۔”
پیارے بچو!
جب ہم قرآن کی تعلیمات پر غورو فکر کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت محمدﷺ کی محبت اور اطاعت کے بغیر کامیاب زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔
حضرت محمدﷺ کی اطاعت اور محبت کے لیے ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت کا بار بار مطالعہ کریں اور جس طرح حضرت محمدﷺ نے زندگی گزاری ہے ہم بھی اس کا عملی مظاہرہ کریں۔حضرت محمد ﷺ کی سیرت پر عمل کرنےکا آسان طریقہ یہ ہے کہ جس عمل کو حضرت محمدﷺ نے پسند فرمایا ہے ہم وہ عمل کریں اور جس عمل سے منع فرمایا ہے ہم وہ عمل نہ کریں۔
پیارے بچو!
کتاب “بچوں کے محمدﷺ “تین حصوں میں شائع کی جا رہی ہے تاکہ حضرت محمدﷺ کی سیرت ہمارے ذہنوں میں نقش ہو جائے۔آپ نے حصہ اول میں حضرت محمدﷺ کی پیدائش سے لے کر تبلیغ اسلام کے ابتدائی حالات کا مطالعہ کیا ہے۔اب کتاب بچوں کے محمدﷺ کا حصہ دوئم آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اب ہم حصہ دوئم میں حضرت محمدﷺ کے اس دور کا مطالعہ کریں گے جب حضرت محمدﷺ نے اللہ کے حکم سے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے توحید باری تعالیٰ کو قبول کرنے کے بجائے حضرت محمدﷺ کو تکالیف پہنچائیں۔ حضرت محمدﷺ مکہ میں رہتے ہوئے دس سال تک ان تکالیف کو برداشت کرتے رہے۔آخر کار اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے۔
خواجہ شمس الدین عظیمی
۲۷ جنوری ۲۰۰۹ء
خواجہ شمس الدین عظیمی
تصوف
کی حقیقت، صوفیاء کرام اور اولیاء عظام کی سوانح، ان کی تعلیمات اور معاشرتی کردار
کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور ناقدین کے گروہ نے تصوف کو بزعم خود ایک الجھا
ہوا معاملہ ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود تصوف کے مثبت اثرات ہر جگہ
محسوس کئے گئے۔ آج مسلم امہ کی حالت پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری عمومی
صورتحال زبوں حالی کا شکار ہے۔ گذشتہ صدی میں اقوامِ مغرب نے جس طرح سائنس
اور ٹیکنالوجی میں اوج کمال حاصل کیا سب کو معلوم ہے اب چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان
ممالک بھی روشن خیالی اور جدت کی راہ اپنا کر اپنے لئے مقام پیدا کرتے اور اس کے
ساتھ ساتھ شریعت و طریقت کی روشنی میں اپنی مادی ترقی کو اخلاقی قوانین کا پابند
بنا کر ساری دنیا کے سامنے ایک نمونہ پیش کرتے ایک ایسا نمونہ جس میں فرد کو نہ
صرف معاشی آسودگی حاصل ہو بلکہ وہ سکون کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو مگر افسوس ایسا
نہیں ہو سکا۔ انتشار و تفریق کے باعث مسلمانوں نے خود ہی تحقیق و تدبر کے دروازے
اپنے اوپر بند کر لئے اور محض فقہ و حدیث کی مروجہ تعلیم اور چند ایک مسئلے مسائل
کی سمجھ بوجھ کو کافی سمجھ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اکیسویں صدی کے مسلم معاشروں میں
بے سکونی اور بے چینی کے اثرات واضح طور پر محسوس کئے جاتے ہیں حالانکہ قرآن و سنت
اور شریعت و طریقت کے سرمدی اصولوں نے مسلمانوں کو جس طرز فکر اور معاشرت کا
علمبردار بنایا ہے، اس میں بے چینی، ٹینشن اور ڈپریشن نام کی کوئی گنجائش نہیں۔