Topics
اللہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے:
اللّٰہ نور السموات والارض
جب لفظ ارض آیا تو یہ کہنا کہ مٹی سڑی ہوئی ہے یا سڑی ہوئی تھی اس کے کچھ معنی نہیں ہوتے۔ میں اس بات پر بحث نہیں کروں گا کہ مٹی کیسی تھی مگر ایسی تھی کہ جیسی اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔
اب اس آیت پر زور دے کر میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسپیس کی تین اقسام ہیں۔ ایک قسم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نور ارضی کہا ہے۔ دوسری قسم کہ جب نور ارضی کو روشنی کے طور پر دیکھا جائےاور یہ نور جسے میں نے روشنی کہا ہے، ایک برقی جسم ہوتا ہے جو انسان کے چاروں طرف غلاف کی طرح قائم ہوتا ہے۔ یہ غلاف تقریباً ایک فٹ موٹا ہوتا ہے۔ تیسری قسم وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے روح کہا ہے۔ اسے ہم دیکھ نہیں سکتے اور چھو بھی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں یہ فرمایا ہے کہ یہ روشنی نہ شرقی (مشرق کی) ہے نہ غربی (مغرب کی) اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسپیس کی ڈائی مینشن میں کوئی سمت نہیں ہے۔ اب اگر ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو برقی جسم کے ذریعہ ہی دیکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ برقی جسم ہماری نظر اور چیز کے بیچ میں رکاوٹ ہے۔
اب ہماری نظر ایک طرف روح کی نمائندگی کرتی ہے اور دوسری طرف برقی جسم کی نمائندگی کرتی ہے اور تیسری طرف اس چیز کی نمائندگی کرتی ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسپیس کے ڈائی مینشنز میں تین چیزیں شامل ہیں۔ روح، برقی جسم اور وہ چیز جسے اللہ تعالیٰ نے ارض کہا ہے۔ ارض کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے۔ بڑی بھی ہو سکتی ہے، چھوٹی بھی ہو سکتی ہے، ارض درخت بھی ہو سکتی ہے، ارض کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے، ارض زمین بھی ہو سکتی ہے، ہم ارض کو چھوتے بھی ہیں، دیکھتے بھی ہیں، سونگھتے بھی ہیں، سنتے بھی ہیں اور چکھتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ ہماری سمجھ کے مطابق یہ ارض کبھی ہمارے سامنے پھول کی شکل میں آتی ہے، کبھی تتلی کی شکل میں، کبھی پھل کی شکل میں۔
اب سوچنے کے قابل بات یہ ہے کہ برقی رو جو ہمارے چاروں طرف غلاف کا کام کرتی ہے، وہی نظر کے لئے منشور (PRISM) بن جاتی ہے اور ہم سے وہ حقیقت چھپا لیتی ہے جو ہمارے اوپر ظاہر ہونی چاہئے۔ اس ہی لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں صاف صاف بتا دیا ہے کہ میرے ہادی آپ کے پاس آئیں گے اگر آپ ان کی بات مانیں گے، ان کے کہنے کے مطابق عمل کریں گے، ان کا اتباع کریں گے تو آپ کو آپ کے آباؤ اجداد کا وطن واپس مل جائے گا۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اعلیٰ اسپیس اور ادنیٰ اسپیس میں آنے پر نافرمانی نے ہمیں غلط خیالوں میں اور جھوٹے دکھاؤں میں ڈال دیا ہے اور ہم ہمیشہ کے لئے اس میں پھنس گئے ہیں۔ منشاء یہ ہے کہ پرزم نے ہمیں غلط دکھانا شروع کر دیا۔
جو ہادی ہمارے پاس آئے وہ صحیح طور پر پیغام نہیں پہنچا سکے۔ اس لئے کہ ہم ان کے پیغام کو برابر نہیں سمجھ سکے۔ حقیقت میں یہ خرابی پرزم کی اسپیس نے پیدا کی۔ نتیجہ کے طور پر روح ہماری آنکھوں سے چھپ گئی اور طرح طرح کے بت جو ہمارے خیالات میں نصب ہوئے تھے، ہماری آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔ حقیقت میں یہ پرزم کا اثر تھا جو ہمارے جسم پر برقی غلاف کی شکل میں چڑھا ہوا تھا۔ آنکھوں کے سامنے آنے کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے ہمارے دماغ کے اوپر قبضہ کر لیا۔ پہلے تو ہم نے ان بتوں کو توہم، شک میں دیکھا پھر پرزم نے ایسی حرکت کی کہ وہ سب توہمات ہمارے سامنے صورت بن کر آ گئے۔ اور جتنے جتنے وہ ہمارے قریب آتے گئے اتنے اتنے ہم حقیقت سے دور نکلتے گئے۔
پرِزم کی وجہ سے ہم کسی چیز کو چھوٹی سے بڑی ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں۔ کسی چیز کو ختم ہوتے دیکھتے ہیں۔ کوئی چیز ہمارے وہم میں ہو اسے آہستہ آہستہ صورت میں دیکھتے ہیں۔ ہم اس چیز کو اپنی کوششوں کا نتیجہ سمجھنے میں فرق نہیں کرتے۔ میں آپ کو اس کی مثالیں دے رہا ہوں مثلاً جس نے ٹیلیفون ایجاد کیا وہ چاہے ایک فرد ہو یا زیادہ اس نے آہستہ آہستہ ترقی کی اور اپنے خیالات کو عملی شکل دی۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ جو ٹیلیفون ہے اس کی شکل ہمارے سامنے آ گئی یہ وہی پرزم کا اثر تھا جس نے ہمارے امیج یا عکس کو مختلف تجربوں اور مراحل پار کروا کے ٹیلی فون بنا دیا۔ یہی معاملہ ٹیلی ویژن کا ہے۔ کچھ لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا۔ مگر اس سمت میں کوششیں کیں تو آہستہ آہستہ یہی پرزم، ٹیلی ویژن کو ایک شکل میں ہمارے سامنے لے آیا۔ یہ بات الگ ہے کہ کتنے مرحلہ پار کرنے پڑے اس میں مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہ انسان کے ذہن کی ایجاد ہے۔ یہی مثال ہوائی جہاز کے سلسلہ میں آپ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ یہی بات ایٹم کے بارے میں ہے کہ وہ پرزم کے ذریعہ اصل شکل میں ہمارے سامنے آ گیا۔ ہمارے سامنے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں۔
تاریخ اس پرزم کی ہی وجہ سے بدلتی رہتی ہے۔ اگر آپ پرزم کی زیادہ تفصیل چاہیں تو وہ بہت آسان ہے۔ وہ یہ کہ ایک طرف پرزم ہمیں ہمارا جسم بتاتا ہے، ہماری ہڈیوں کو سخت بتاتا ہے، ہمارے گوشت میں ایک خاص قسم کی لچک بتاتا ہے۔ دوسری طرف یہی پرزم ہمیں بتاتا ہے کہ ہر چیز مٹی ہے اور مٹی سے مختلف شکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک طرف وہ خیال کو کچھ اہمیت نہیں دیتا اور دوسری طرف وہ خیال سے دس سال، بیس سال، تیس سال، ہزار سال کی شکل بنا لیتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا تاریخ، جغرافیہ وغیرہ سب علم کی شاخیں ہیں۔ یہ میں نے قرآن کی رو سے لکھا ہے میں اپنی طرف سے نہ کوئی بات لکھ سکتا ہوں، نہ لکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے آدم کو علم الاسماء سکھایا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نہیں فرمایا کہ آدم علیہ السلام کو زمین دی یا درخت دیئے یا پہاڑ دیئے یا دریا دیئے۔ نہ تو اللہ تعالیٰ نے یہ تفصیل کی ہے کہ میں نے آدم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے۔ صرف یہی فرمایا ہے کہ میں نے آدم کا پتلا مٹی سے بنایا اور اس میں، میں نے روح پھونکی اور آدم کو علم الاسماء سکھایا۔
دوسری جگہ سورۃ یاسین کی آخری آیت میں ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ
اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ ارادہ کرتا ہے کسی چیز کا تو کہتا ہے ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ ارادہ سے کس طرح بدل جاتی ہے، آخر کوئی تو طریقہ ایسا ضرور ہو گا جو اللہ کے سامنے ہے، اللہ کی نظر میں ہے مگر ہمارے سامنے نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بار بار فرمایا کہ تفکر کرو، تدّبر کرو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے ارادے کو علم الاسماء سے ملانا (جوڑنا) ہے، یہ سب پرزم کی بدولت ہوتا ہے جو ہمارے اوپر غلاف (خول) کی طرح ڈھکا ہوا ہے۔ اس کے واضح معنی یہ ہوئے کہ ہماری روح کے اوپر یہ پرزم خول کی شکل رکھتا ہے۔ ہم اس پرزم کے ذریعہ دیکھتے ہیں، اسی کے ذریعہ چھوتے ہیں، اسی کے ذریعہ جانتے ہیں اور اسی پرزم کے ذریعہ حرکت کر سکتے ہیں۔ یہاں ایک اور آیت بھی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ:
’’آپ سب اتر جائیں۔‘‘
اس کے معنی (مفسرین) تفسیر کرنے والے یہ کرتے ہیں کہ زمین پر اتر جاؤ۔ مجھے اس ترجمہ سے کوئی اختلاف نہیں مگر میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ آپ سب کے سب اس پرزم میں اتر جائیں۔ یہاں کسی جگہ پر بھی اللہ تعالیٰ نے لفظ ارض استعمال نہیں کیا ہے یعنی کہ اللہ کی نگاہ کے سامنے اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں چیزیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ادنیٰ میں اتر جانے کا حکم دیا جو اعلیٰ کے اثرات سے بالکل مختلف تھا۔
زمین سے جتنے بھی انسان خلاء میں گئے چاہے وہ کتنی بھی اونچائی پر گئے ہوں، پریشر سوٹ کے بغیر نہیں جا سکے۔ یعنی کہ پرزم ان پر مسلط تھا۔ اگر وہ آکسیجن نہ ہونے کا بہانہ کریں تو اس پر مجھے کچھ بحث نہیں کرنا ہے۔ وہ اگر چاہیں تو آکسیجن اپنے ساتھ لے جائیں۔
میں ایک ہی بات کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پرزم میں ہی تھے، پرزم سے باہر نکل نہیں سکے۔ مگر یہ بات بھی واضح ہے کہ جو خلاء باز کھو گئے وہ اس پرزم کے باہر نکل گئے تھے اور نتیجہ میں ان کی ہستی مٹ گئی یا پھر وہ ایسی جگہ چلے گئے جس کا نام ہم نہیں جانتے۔
خلا بازوں کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہمارے سامنے ہے، اس کے ساتھ ساتھ اور مثال یہ ہے کہ امریکا اور روس نے ایسے سٹیلائٹ خلا میں رکھے ہیں جو اس پرزم کے اندر ہیں اور ساتھ ساتھ ٹیلیفون کا کام بھی کرتے ہیں اور ہم کہہ نہیں سکتے کہ کتنے سارے کام کرتے ہیں۔ مگر ہم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب پرزم کے اندر ہیں۔ اگر پرزم کے باہر نکل جائیں تو ان کی ہستی نہیں ملتی۔ کسی بھی طرح جو کچھ بھی اس پرزم کے اندر ہے قدرت نے اس پر کچھ حدیں لگا دی ہیں وہ حدیں توڑی نہیں جا سکتیں اور نہ ان سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ مصنوعی سیارے انہیں حدود کے اندر ہی ٹوٹتے ہیں اور ٹوٹ کر گرتے ہیں۔ ان کی نشانیاں بھی مل جاتی ہیں۔ پرزم کے اندر حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں جو اہرام مصر میں واضح ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں سال پہلے کی ممی (MUMMY) آج بھی اسی حالت میں موجود نظر آتی ہے حالانکہ وہاں ہوائیں پہنچتی ہیں جو کسی بھی چیز کو خراب اور ختم کر سکتی ہیں۔ ایسا اکثر ہم روزانہ دیکھتے رہتے ہیں کہ ایک بچہ ایک سال کا ہے پھر وہ دس سال کا ہوتا ہے۔ پھر وہ پچاس سال کا ہوتا ہے اور پھر وہ اسی سال کا ہوتا ہے، پھر اسے موت آ جاتی ہے یا سو سال سے بھی زیادہ زندہ رہتا ہے۔ اور ایک بچہ ہے جو ایک سال بھی پورا زندہ نہیں رہتا۔ دونوں اسی پرزم کے اندر ہیں۔ اس کے صاف معنی تغیرات ہیں۔ پرزم کے اندر ہر وقت ہر سیکنڈ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اگر آپ ان تبدیلیوں پر غور و فکر کریں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہزاروں سال پہلے یہ زمین کیا تھی، لاکھوں سال پہلے کیا تھی؟ اربوں سال پہلے کیا تھی؟
جغرافیہ کے ماہرین اس بات کا اندازہ لگاتے رہتے ہیں مگر ہزاروں میں شاید ہی دوچار ایک سوچ پر ہم خیال ہوتے ہیں۔ بہرحال یہ ان کے خیالات ہیں اور ان کے خیالات کو یہی پرزم عملی جامہ پہنا کر ہزاروں کو لاکھوں میں، لاکھوں کو کروڑوں میں، کروڑوں کو اربوں میں تقسیم کرتا ہے۔ وہ صحیح طور پر نہیں بتا سکتے کہ ہمالیہ پہاڑ کی عمر کیا ہے اور بحرالکاہل کس زمانے سے قائم ہے اور یہ براعظم ہیں وہ آج سے کتنے سال پہلے الگ ہوئے۔ یہ سب پرزم کی وجہ سے ہوتا ہے۔
تفصیل اس بات کی تھی کہ یہ پرزم کائنات کو کم از کم دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک وہ جو ہمارے نزدیک سے نزدیک حصہ ہے اسے کہتا ہے کہ یہ سب مٹی ہے اور جو ہم سے دور ہے اسے ہماری آنکھیں روشنی یا چمکتی شکل میں دیکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ہے:
’’آپ پہاڑ کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ قائم ہے (حالانکہ وہ قائم نہیں)۔‘‘
یہ بھی پرزم کی تفصیل ہے۔ اسی پرزم کے ذریعہ مستقبل میں ایسی ایسی ایجادیں ہوں گی جو انسانوں کو تعجب میں ڈالیں گی۔
انسان کی ترقی کا راز اسی پرزم میں ہے۔ اب پرزم میں جو حصہ ہمارے نزدیک ہے اس کے بارے میں قرآن پاک میں جگہ جگہ تفصیل ہے:
’’اس نے سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر بنا دیئے۔ کیا تمہیں خدا کی تخلیق میں کوئی کسر نظر آتی ہے۔ پھر نظر پھراؤ کچھ کمی دکھتی ہے۔ تمہاری نظر رد ہو کر تھک کر واپس آئے گی۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے پرزم ہی کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ (3) ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرٌ 67/3,4
’’میں نے ایک دوسرے پر سات آسمان پیدا کئے ہیں۔ کیا تجھے اس بناوٹ میں کچھ فرق نظر آتا ہے۔‘‘
دنیا ابھی تک اس بارے میں حیران ہے۔ آسمان نظر کی حد کو کہتے ہیں۔ نظر کی حد سے مراد کوئی نہ کوئی چیز ہے۔ جہاں نظر رک جاتی ہے۔ پھر وہ چاہے کچھ بھی ہو، نظر بندی ہو، رکاوٹ ہے۔ آپ آسمان کی کیفیت شام کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور کچھ رات گزر جانے کے بعد بھی اور آدھی رات نکل جانے کے بعد بھی اور صبح کے وقت اور دن چڑھا ہو اس وقت بھی اور دوپہر کو دماغ پر مختلف اقسام کی کیفیتیں چھا جاتی ہیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کیفیت ہر پل بدلتی رہتی ہے۔ چاہے ایک منٹ ہو چاہے ایک سیکنڈ۔
پھر آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آسمان کو دیکھنے سے یہ پل پل کی تبدیلیاں اور منٹ منٹ کا پلٹنا، موسموں کا بدلتے رہنا ہے ۔مگر اثر میں اس کے مطابق تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسی کہ آسمان کو دیکھنے سے ہوتی ہے۔ اگر آپ غور و فکر کریں گے تو معلو م ہوگا کہ آسمان کی طرف دیکھنے سے جو آپ پر اثر ہوتا ہے وہ زمین کے اثر پر حاوی رہتا ہے۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ زمین کا اپنے محور پر گھومنا اور سورج کے اطراف انڈے کی شکل میں گھومنا دونوں حرکتیں کائناتی یعنی آسمانی حرکتوں سے مقابلتاً کم ہیں۔ یہ حرکتیں پرزم کے اوپر اثر کرتی ہیں۔ جس پرزم کا ہماری آنکھیں استعمال کرتی ہیں اور جس پرزم کو دماغ آنکھوں کے ذریعے دیکھتا ہے۔ یہ وہی پرزم ہے جس کے ذریعہ ہم خود کو چلتے پھرتے اور سانس لیتے محسوس کرتے ہیں۔
جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو پرزم کے ذریعہ ہم بولنا، دیکھنا، چکھنا، سونگھنا آہستہ آہستہ سب سیکھتے ہیں۔ اور چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ پھر ڈھلان کی طرف آتے ہیں اور جو طاقتیں ہم پرزم سے حاصل کرتے ہیں آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہیں۔ اور جو برقی رو ہمارے جسم پر لگی ہوتی ہے وہ ہمیں چھوڑ دیتی ہے اور موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ پرزم نے ہمیں چھوڑ دیا ہے۔ پرزم ہمیشہ ہمارا ساتھ دیتا ہے۔ ہم زندہ رہیں تو ہمیں زندگی دیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اوپر والی آیت میں فرمایا ہے۔
’’کیا رحمٰن کی تخلیق میں تم کچھ فرق دیکھتے ہو۔‘‘
یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم اپنی طاقتیں اور اختیارات کس کس طرح استعمال کرتے ہیں یہ معمولی بات ہے۔کچھ سالوں پہلے اس دنیا میں وہ چیزیں موجود نہ تھیں جواب ہیں۔ آج سے پچیس سو سال پہلے یونان کے ایک باشندے کے دماغ میں ایٹم کا خیال آیا۔ وہ خیال کچھ لوگوں کے ذہن میں پھیلتا گیا۔ نتیجہ کے طور پر بہت ساری چیزیں ایجاد ہوئیں اور پتا نہیں اور کتنی چیزیں ایجاد ہوں گی۔ پرزم کے خواص میں سے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جب کوئی فرد اپنے ظاہر سے کام لینا چاہے، لے سکتا ہے اور جب اپنے باطن سے کام لینا چاہے جتنا چاہے لے سکتا ہے۔
یہ ایک الگ بات ہے کہ انسان کو ظاہر سے زیادہ دلچسپی ہے اور باطن سے کم ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنے دماغ سے کام لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔ یہ وہی طاقتیں ہیں جو کبھی تصور تھیں پھر صورت اختیار کر کے سامنے آ گئیں۔ ہم باطن سے بھی اسی طرح کام لے سکتے ہیں۔ جیسے کہ ایک خیال پچاس سال میں نتیجہ کی صورت میں آ جاتا ہے۔ اگر اس میں ظاہری اسباب شامل ہوں تو ہم اس کو سائنس کہتے ہیں اور اگر ظاہری اسباب شامل نہ ہوں تو ہم اسے کرامت کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہی بات کہی ہے:
’’کیا تم اپنے رب کی تخلیق میں کچھ فرق دیکھتے ہو؟‘‘
فرق کے معنی ظاہر اور باطن کا فرق ہے۔ اس کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے:
’’میں نے سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر بنائے۔‘‘
اب آپ پوری آیت پر تفکر کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ معنی میں اس آیت کے دو حصے نہیں کئے جا سکتے۔ پہلے حصہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ میں نے آسمان کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا ہے اور تم کیا میری تخلیق میں کچھ فرق دیکھتے ہو۔ اگر ہمارے سامنے وہ پرزم ہو تو ہم اس آیت کو مکمل طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
’’پھر نظر دوڑاؤ کیا تمہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے۔‘‘
اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر شگاف ہو تو نظر آر پار ہو جائے۔ اب نظر واپس ہو جاتی ہے اس لئے کہ شگاف نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’پھر نظر کر دوبارہ نظر کر تیری نظر رد ہو کر واپس تیرے پاس آ جائے گی۔‘‘
اس کے معنی یہ ہیں کہ سب کیفیات جو ایک دوسرے کے اوپر آسمانوں میں ہیں نظر اپنے ساتھ لائے گی۔اب یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ نظر ہماری نہیں ہے مگر وہ پرزم کا عکس ہے جس کی تفویض اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔
آگے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے زمین کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ہے۔‘‘
یہ چراغوں والا آسمان ایک الگ کیفیت رکھتا ہے۔ آپ جب رات کے وقت چمکتے تارے دیکھیں گے تو آپ کو اس کا اندازہ ہو گا۔
سورۃ واقعہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
فَلا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ
75,76/56
’’قسم کھاتا ہوں میں تارے کے ڈوبنے کی اور یہ قسم تم سمجھو تو بہت بڑی ہے۔‘‘
اس آیت میں بھی اللہ پرزم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پہلے تو ایک معمولی بات ہوئی ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے ڈوبنے کی پھر فوراً فرماتا ہے:
’’اگر سمجھو تو یہ قسم بہت بڑی ہے۔‘‘
اس کے معنی یہ ہوئے کہ پرزم آپ کو جو کچھ بتاتا ہے وہ عکس بن کر دکھتا ہے۔ اس کی تفصیل پہلے آیت میں آچکی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’میں نے آسمان اول کو تاروں سے زینت دی ہے‘‘
تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب ہم تاروں کو دیکھتے ہیں تو وہ ان کیفیتوں کو واپس کر دیتا ہے جو اس کے اندر پائی جاتی ہیں اور جن کیفیتوں کو ہماری آنکھیں قبول کر لیتی ہیں اور اس ہی کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اگر سمجھو تو یہ قسم بہت بڑی ہے۔‘‘
منشاء یہ ہے کہ اس پرزم کی کائناتی حرکت سے ہر چیز ہماری آنکھوں پر رکاوٹ ڈالتی ہے۔ کیا چیز ہے جو رکاوٹ ڈالتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے وہ کیفیت، خواص پرزم کے اندر رکھ دیئے ہیں۔ جو ہماری آنکھوں کو نظر آتے ہیں اور رد کر دیتے ہیں یہ کیفیت بار بار ہماری آنکھوں کے سامنے آتی ہے اور بار بار رد ہو جاتی ہے۔ زمین کی سب کیفیات جو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں، ان ہی کیفیات کا حصہ ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر سمجھو تو یہ قسم بہت بڑی ہے۔ یعنی اس کی اہمیت اتنی ہے کہ زمین پر دیکھتا ہے جو اللہ دکھانا چاہتا ہے۔ وہ سب اسی پرزم کا حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پرزم کے ذریعہ بہت ساری نعمتیں عطا کرتا ہے۔ اسی کی تفصیل سورۃ الرحمٰن میں بار بار آئی ہے وہ سب چیزیں جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں، سونگھتے ہیں، چکھتے ہیں، سوچتے ہیں یہ سب اسی پرزم سے واپس ہو کر آتی ہیں۔
سورۃ یاسین کی آیت نمبر ۱۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠o 36/12
’’ہر چیز کو گن لیا ہے ایک کھلی اصل میں۔‘‘
یہ پرزم کی ہی تفصیل ہے۔ کھلی اصل کی منشاء یہ ہے کہ اس پرزم کے اطراف میں ایک بیلٹ ہے جو گھوما کرتی ہے۔ ایک طرف کائنات کی حرکت کا اس پر اثر ہے۔ دوسری طرف زمین کے محور کی حرکت اور تیسری طرف طولانی حرکت ان تینوں حرکتوں سے مل کر ہماری نظر اور ہماری نظر کے ساتھ جو کچھ ہے وہ ہوتا رہتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ’’کن فیکون‘‘ ہر پل جاری ہے۔
آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’جو اگاتا ہے زمین میں۔‘‘
اور آپ کو اس میں اور ان چیزوں میں جن کی آپ کو خبر نہیں ہے۔ اب بہت سارے ایسے علوم ہیں جو انسان کے ذہن میں موجود ہیں مگر ان کو عمل میں آنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ انسان کے دماغ میں آتے ہیں۔ پہلے خیال میں اور پھر کچھ وقت میں چاہے وہ وقت کم ہو یا زیادہ، وہ صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
’’اور میں یہ بات ان کو دکھاتا ہوں۔ رات کو دن سے نکالا گیا۔‘‘
وہ بات جو یہ نہیں سمجھتے وہ پرزم ہے جس کے ذریعہ ہم ایسا کہہ سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ اندھیرے میں رہتے ہیں۔ انہیں کچھ علم نہیں۔ اس لئے کہ وہ اس چیز کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سورج بھی چلتا ہے اسی راستہ پر جو اس کے معین ہے، یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ راستہ زبردست خبر والے کا معین کیا ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ پرزم کا سورج کی رفتار سے بھی رشتہ ہے۔ زبردست اس لئے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار کرشمے سورج سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کرشموں سے واقف ہے جو سورج سے ظاہر ہوتے ہیں اور ظاہر ہوں گے۔
یعنی کہ آپ کے دماغ کے اوپر اور آپ کی زندگی کے اوپر سورج اثر انداز ہوتا ہے۔ میرا اورآپ کا سوچنا۔ میرا اور آپ کا دیکھنا۔ میرا اور آپ کا سننا اور چکھنا، سونگھنا، ہماری ہر ایک حس سورج سے اثر لیتی ہےمگرظاہر میں اس کا علم نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہی پرزم ہے۔
اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے:
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ 36/39
’’میں نے چاند کی منزلیں متعین کی ہیں۔ جس کا علم آپ کو نہیں ہے۔ یہ ایک پرانی شاخ ہے۔‘‘
کس چیز کی شاخ ہے، اسی پرزم کی جس کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ اور اس کی سب حرکتوں، رفتاروں کا جاننے والا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے ہر چیز کی بیلٹ معین کی ہے۔ نہ چاند، سورج کو پکڑ سکتا ہے اور نہ سورج چاند کو۔ اور یہ ممکن نہیں کہ رات، دن سے آگے نکل جائے اور دن، رات سے آگے نکل جائے۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ نے کیا انتظام کیا ہے، کس لئے کیا ہے، اس کے اثرات کیا ہیں، ان سب باتوں کا اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو پرزم میں پہلے سے ہی موجود رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے ان کو اس طرح بنا دیا ہے جس طرح وہ لوگ چلتے ہیں۔ مگر ایک معین راستے پر ایک معین کئے ہوئے بیلٹ کے اندر اگر میں چاہوں تو ان کو ہلاک کر دوں۔‘‘
اب اس میں ہلاک ہونے والے انسانوں کی بھی تفصیل ہے۔ وہ بھی ایک معین راستے پر چلتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے ان کو اس طرح زندہ رکھتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے، انہیں موت دیتا ہے۔
’’اگر میں ہلاک کروں تو ان کی فریاد کو سننے والا کوئی نہیں ہو گا، پھر چاہے چاند، سورج ہو چاہے انسان ہو اور اگر میں ان کو زندہ رکھوں تو اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک میں نہ چاہوں۔‘‘
یہاں بھی اس پرزم کی تفصیل ہے۔ آخری اشارہ اسی پرزم کی طرف ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر ذرے میں زندگی ہے۔
حضورقلندربابااولیاء
پیش لفظ
سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔
ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔
نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔
قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا