Topics

اسپیس

سائنس دان اسپیس ایسی خلاء کو کہتے ہیں جہاں زمین کی کشش ثقل (GRAVITY) موجود نہ ہو۔ زمین کی (GRAVITY) کس کس جگہ موجود نہیں؟ یہ ایک الگ بات ہے۔ زمین کی کشش کی وجہ سے انسان سانس لیتا ہے یعنی کہ ایک ایسی زندگی ہے جو کشش چاہتی ہے اور اس کے بغیر اس کا قیام ممکن نہیں۔ مگر زمین پر بسنے والے انسان، حیوانات، جمادات اور نباتات میں ہی کچھ ایسا موجود ہے جو زمین کی کشش کا اثر نہیں لیتا۔ مثال کے طور پر وہم‘ خیال‘ افسوس اس کے علاوہ سوچ تفکر وغیرہ بھی زمین کی کشش سے لاتعلق ہیں۔ اس کے بہت سے ثبوت موجود ہیں۔ مثال کے طور پر انسان سو جاتا ہے۔ کشش اس کو سانس پہنچاتی رہتی ہے مگر اس کا ذہن کشش سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ خواب دیکھتا ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، چلتا ہے، ایک سیکنڈ کے حصہ میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس حالت میں جو کیفیتیں اس پر گزرتی ہیں‘ یادداشت پر تحریر ہو جاتی ہیں بالکل اسی طرح جیسے جاگنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کا ذہن جو کچھ دیکھتا ہے‘ سنتا ہے‘ سمجھتا ہے وہ زمین کی کشش سے آزاد ہے‘ اس کے سیدھے سادے معنی یہ ہوئے کہ سائنس کی یہ تعریف غلط ہے کہ اسپیس (SPACE) صرف خلاء کو کہتے ہیں۔جہاں زمین کی کشش موجود نہ ہو جب کہ انسان ہر جگہ زمین کی کشش سے آزاد ہے۔ انسان صرف سانس لینے والے کا نام تو نہیں ہے، اس لئے کہ جب وہ نیند میں سانس لیتا ہے تو اسے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ اس کے دوسرے معنی یہ کریں گے کہ انسان سوچ بچار‘ تفکر یا توجہ کا نام ہے۔ یعنی صرف حواس کا نام انسان ہے۔ حواس ہی انسان کی زندگی ہیں۔ میں اس حالت کی تفصیل اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ انسان چاہے زمین پر ہو یا خلاء میں وہ زمین کی کشش سے آزاد ہے۔ اس کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ اگر وہ زمین کی کشش کا پابند ہوتا تو کبھی مرتا نہیں۔ وہ ہمیشہ امر رہتا اس لئے کہ زمین کی کشش اس کی ہر کیفیت کو اپنے اندر سمو لیتی۔ روحانی دنیا میں اسپیس خلاء تک محدود نہیں ہے۔ مگر اسپیس ہر جگہ ہے‘ ہر چیز میں ہے اور کوئی چیز اسپیس سے الگ نہیں رہ سکتی۔

انسان کے ذہن میں جو پردہ ہے‘ اس کی چار جگہ (اسپیس) ہیں۔ ایک اندھیرا اور اندھیرے کے پیچھے کی اسپیس۔ ایک اجالا اور ایک اجالے کے پیچھے کی اسپیس، یہ چار اسپیس ہوئیں۔ انسان اگر چاروں اسپیس پر قدرت اور قابو پانا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اس طرح وہ اندھیرے میں دیکھ سکتا ہے اور اجالے میں پردے کے پیچھے جو کچھ ہے اسے دیکھ سکتا ہے۔ یہ جاگنے سے ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہو جاتا ہے پہلے چوبیس گھنٹے‘ پھر اڑتالیس گھنٹے‘ پھر بہتر گھنٹے‘ پھر بہتر سے زیادہ چوراسی گھنٹے‘ عموماً بہتر گھنٹے کے بعد وہ چیزوں پر قابو پا لیتا ہے جن پر قابو پا لینا چاہے، مثال کے طور پر بہت سی اسپیس پر قابو پا لیتا ہے معنی یہ ہوا کہ چاروں اسپیس دماغ کے پردے سے الگ ہو کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس میں بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو مستقبل سے متعلق ہوتی ہیں۔ وہ الگ الگ ٹکڑوں میں نظر آتی ہیں۔

آہستہ آہستہ انسان ٹکڑوں کو جوڑنے لگتا ہے۔ ٹکڑے جوڑنے کے بعد اسپیس میں کچھ معنی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر انسان اس کو سمجھنے لگتا ہے کہ مستقبل میں ایسے حالات پیدا ہونگے، آنکھوں کے ساتھ جب دماغ کے چاروں حصے بیدار ہو جائیں گے، حرکت میں آ جائیں گے تو سننے کی اسپیس بھی حرکت میں آ جائے گی اور جب اس طرح دونوں اسپیس مل جائیں گی تو انسان دیکھنے بھی لگے گا اور سننے بھی لگے گا۔ پھر سونگھنے اور چکھنے کی اسپیس مل جائے گی۔ جب ان پانچوں اسپیس دیکھنا، سننا، سونگھنا، چکھنا اور چھونے کے ساتھ چھٹی سوچنے کی اسپیس مل جائیں گی تو بہت دور کی باتیں دماغ میں آتی ہیں، جو مستقبل میں ہونے والی ہوتی ہیں۔ اگر سوچنے کی اسپیس نہ ملے تو پانچوں حواس مل کر خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ ان پانچوں اسپیس کے بارے میں انسان سمجھتا ہے۔ اس حالت کو ’’فتح‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے اندر انسان کا بدن صرف ایک چھاؤں (سایہ) بن جاتا ہے اور وہ وقت اور فاصلہ کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اس میں سوچنے کی اسپیس شامل نہیں۔ اگر سوچنے کی اسپیس شامل ہو جائے تو فتح میں کمزوری آ جائے گی۔ جسم بھاری ہو جائے گا مگر یہ پانچ اسپیس ملنے سے جو خیالات پیدا ہوں گے وہ سوچنا نہیں کہلائیں گے یہ تو صرف علم ہو گا جس میں انسان کا انفرادی ذہن شامل نہیں ہوتا۔ مگر یہ علم اسپیس کا ہوتا ہے۔ اس وقت جب انسان ’’فتح‘‘ کی حالت میں ہوتا ہے۔ اس کی اپنی فکر، اس کا اپنا سوچنا سب یادداشت سے نکل جاتا ہے۔ مگر وہ اسپیس کے علم سے سوچتا ہے یہ اسپیس کا علم اللہ کا نور ہے۔ 

سارے اولیاء اللہ کا قول ہے کہ ہم نے اللہ کو اللہ سے دیکھا، اللہ کو اللہ سے سمجھا اور اللہ کو اللہ سے پایا۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اسپیس کا علم ملا ہوا ہے۔ اسپیس کا علم، علم کی تجلی کو دیکھتا ہے جب اسپیس کا علم آنکھوں سے دیکھا جائے، کانوں میں سنائی دے تو تجلی نظر آتی ہے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحۡيًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآىٴِ حِجَابٍ اَوۡ يُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَيُوۡحِىَ بِاِذۡنِهٖ مَا يَشَآءُ‌ؕ

کسی کی طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرے مگر تین طریقوں سے وحی کے ذریعہ‘ رسول کے ذریعہ یا حجاب سے۔

یہ تینوں اسپیس ہیں۔

حجاب بھی اسپیس ہے۔

وحی اسے کہتے ہی کہ جو سامنے منظر ہو وہ ختم ہو جائے اور پردے کے پیچھے جو منظر ہو وہ سامنے آ جائے اور ایک آواز آتی ہے۔

فرشتہ کے ذریعہ یا رسول کے ذریعہ کے معنی یہ ہیں کہ فرشتہ سامنے آتا ہے اور اللہ کی طرف سے بات کرتا ہے۔

حجاب کے معنی یہ کہ کوئی شکل سامنے آتی ہے اور اس طرح بات کرتی ہے جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہے‘ حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ نہیں ہے‘ 

حجاب ہے۔

یہ وہ تین اسپیس ہیں جن کی تفصیل قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا سطور سے کی ہے۔ یہاں جو کچھ مزید کہنا ہے وہ یہ کہ ہر فرد کو یہ توفیق ملی ہے اور بشر سے مراد جو انسان آدمی کی شکل میں ہے وہ بشر ہے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں چیزیں پردے کے پیچھے ہیں۔ پردے کے اوپر نہیں ہیں۔ جب تک پردہ اٹھتا نہیں ہے یہ تینوں طریقے بیدار نہیں ہوتے۔ یہ تینوں شکلیں اس صورت میں ظاہر ہوتی ہیں جب انسان پردہ کے پیچھے دیکھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔

وحی کے بارے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ وحی صرف انبیاء پر آتی ہے وہ خاص ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ

میں نے مریم کی طرف وحی بھیجی ، میں شہد کی مکھی کی طرف وحی بھیجتا ہوں۔

شہد کی مکھی نبی نہیں ہے۔ یہاں یہ بات قابل بحث ہے کہ حضرت مریم پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو اس کے ساتھ پھل، پھول، انگور وغیرہ آتے تھے، جنہیں کھا کر وہ اپنی زندگی گزارتی تھیں۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عام وحی میں کھانے پینے کی چیزیں بھی شامل ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت مریم نبی نہیں تھیں۔ یہ جملہ قابل اعتراض تھا۔

اسپیس کی بات ہو رہی تھی۔ یہ سب چیزیں بھی اسپیس کہلائیں گی۔ انسان یا حیوانات یا جمادات یا نباتات سب اسپیس میں ہی ابھرتے ہیں۔ اسپیس میں حرکت کرتے ہیں اور جو چلتے پھرتے جانور ہیں۔ جن میں انسان شامل ہے وہ اسپیس میں سانس لیتے ہیں۔ 

ایسا کہئے کہ اسپیس کے اندر جڑے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے بدن کو اسپیس سے چھڑا نہیں سکتے۔ مگر ایک صورت ہے کہ وہ اسپیس کی دوسری سمت‘ ظاہری سمت سے باطنی سمت کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اس بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:

’’موتو انت قبل موت‘‘ 

اب ہمارے سامنے مرنے کے بعد کی سمت آ جاتی ہے۔ یعنی انسان ظاہری شکل سے باطنی شکل میں چلا جاتا ہے۔ جسے موت کہتے ہیں۔ اگر زندگی کے درمیان اس پر قابو پا لیا جائے تو اس پر وہ راز کھل جاتا ہے جو مرنے کے بعد کھلتا ہے یا مرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اسپیس کی باطنی سمت میں برزخ بھی ہے‘ حشر بھی ہے‘ دوزخ بھی ہے‘ جنت بھی ہے اور اعراف بھی ہے۔ اسپیس کے باہر جو سمتیں ہیں وہ سب سمتیں عالم ناسوت کے پردے میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم بولتے ہیں مگر مرنے کے بعد بول نہیں سکتے۔ تو یہ بولنا کہاں سے آتا ہے؟ یہ ایک الگ اسپیس ہے۔ ہم بہت ساری ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کا نام ہم زندگی رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر ہم انسان کو لاش کہتے ہیں۔



Qudrat Ki Space

حضورقلندربابااولیاء

پیش لفظ

سائنس صرف ایسی چیزوں کے بارے میں بات کرتی ہے جن کو چھوا جا سکے اور جن کا تجربہ ہو سکے۔ روحانیت کا مضمون صرف باطنی تجربوں کے ساتھ منسلک ہے مگر ان دونوں کے مابین ایک گہرا رشتہ ہے اور ان دونوں کا ارتقاء ایک دوسرے کے تعاون سے ہوتا ہے۔ یہ بات آج تک کسی نے کہی نہیں ہے۔

ایک مصنف یا مفکر صدیوں پہلے کوئی تخیل کرتا ہے۔ یہ تخیل اس کے دماغ میں دفعتاً آتا ہے۔ جب یہ اپنا خیال دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو لوگ اس پر ہنستے ہیں اور کچھ لوگ اس کو پاگل کی اختراع سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ صدیوں بعد جب کوئی سائنس دان اس تخیل کو مادی شکل دیتا ہے تو دنیا تعجب میں پڑ جاتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں سب سے پہلے وہ تخیل پیش کرنے والے کی تعریف کرنے لگتی ہے۔ ایسا کیوں؟ جس کو خیال آتا ہے وہی اس کو مادی شکل کیوں نہیں دے سکتا؟ اصل خیال صدیوں پہلے دنیا کے کونے میں بسنے والے آدمی کو آتا ہے‘ اور اس کو عملی شکل صدیوں بعد دنیا کے دوسرے کونے میں بسنے والا آدمی دینے کے قابل ہوتا ہے۔ جگہ اور وقت۔اسپیس اور ٹائم۔ ہزاروں میل اور سینکڑوں برس کا یہ فاصلہ کیا حقیقت ہے؟ یا صرف ایک مایہ ہے۔

نیند میں‘ خواب میں‘ انسان چلتا ہے‘ بیٹھتا ہے‘ کھاتا ہے‘ کام کرتا ہے اور جاگنے کی حالت میں بھی وہی کام کرتا ہے۔ ان میں کیا فرق ہے؟ ماحول میں ایسا کچھ بھی موجود نہ ہو پھر بھی یکایک کوئی غیر متعلق بات یا فرد کیوں یاد آ جاتا ہے؟ جبکہ اس بات یا فرد پر سینکڑوں برس کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔

یہ سب باتیں قدرت کے ا یسے نظام کے تحت ہوتی ہیں جس کا مطالعہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ایک بالکل نئے اور انجانے مضمون پر چھوٹی سی کتاب ایسی ہے،جیسے پانی میں پھینکا ہوا ایک کنکر،لیکن جب اس سے اٹھنے والی موجیں کنارے تک پہنچیں گی تو کوئی عالم‘ سائنس دان یا مضمون نگار کے دل میں موجیں پیدا کریں گی اور پھر اس کتاب کا گہرا مطالعہ ہو گا۔

قلندر حسن اخریٰ محمد عظیم برخیا