Topics
حضور مرشد کریم خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب بات سمجھاتے ہوئے رکے ، پنکھے کی طرف دیکھا اور فرمایا ، ” کیا پنکھا ’یا اللہ یا رحمٰن ‘نہیں کہہ رہا۔۔۔؟“
وہ چونک گیا ، حیران ہو کر پنکھے کو اور پھر سوالیہ نظروں سے مرشد کریم کو دیکھا۔
فرمایا ، ” غور سے سنو۔“
آواز سننے کی کوشش کی۔ چند ثانیے بعد محسوس ہوا کہ پنکھا ” یا اللہ یا رحمٰن “ کہہ رہا ہے۔
فرمایا ” اب تم کوئی لفظ کہو۔“
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا ۔۔۔ فرمایا ،” دیکھو ! اب کہہ رہا ہے ، میں کون میں کون۔“
یہ تجربہ اس کے لئے بالکل نیا تھا۔ ایک بار پھر پنکھے کی طرف متوجہ ہوا۔۔ میں کون میں کون کی گونج تھی۔ صرف پنکھا نہیں، کمرے کی فضا اور درو دیوار بھی یہی پوچھ رہے تھے۔ میں کون میں کون!
فرمایا ، ” اچھا اب تم کوئی لفظ بتاؤ۔“
عرض کیا ، اللہ ھو۔
فرمایا ،” ٹھیک ہے اللہ ھو۔“
چند ساعت بعد فرمایا ،” اب اللہ ھو کی تکرار ہے۔“
اندر باہر ۔۔۔ باہر اندر ہر شے میں اللہ ھو تھا۔
آوازوں میں گم تھا کہ شیخ نے پوچھا ، ” آپ کیا سمجھے ، یہ سب کیا ہے۔۔۔؟“
جواب نہ دے سکا تو فرمایا ،” جو سوچیں گے وہ echo ہونے لگے گا۔
سوال یہ ہے کہ ایکو کیا ہے۔۔۔؟“
عرض کیا ایکو بازگشت ہے۔
پوچھا ، ” بازگشت کیا ہے۔۔؟ “ پھر خود ہی بتایا کہ ” جو آواز آرہی ہے، اس کا پھیلاؤ بازگشت ہے۔ ہر آدمی ذہن کے مطابق مفہوم سمجھتا ہے۔ فلم ایک ہے، ایک شخص نرم مزاج اور دوسرا سخت ہے، افسردہ منظر دیکھ کر ایک آدمی رونے لگتا ہے اور دوسرے کو معلوم ہے کہ یہ فلم ہے، وہ نہیں روتا۔ذہن میں مفہوم کا اثر ماحول میں پھیلتا ہے۔“
مزید فرمایا ،” زبان کے معنی بازگشت ہیں۔ کھانا کھا لیجیئے ، کھانا ٹھونس لیجیئے ۔۔۔ بازگشت کا فرق ہے۔ ’ ٹھونس‘ ناگوار تاثر دیتا ہے۔ اچھا آدمی اچھی زبان بولتا ہے۔ اب دیکھو پنکھا ' سبحان اللہ' کی تکرار کر رہا ہے۔“ پنکھا سبحان اللہ کہہ رہا تھا۔
انہوں نے فرمایا ،” مشق کر کے دیکھ لو، تم جس شے کی تکرار کرو گے ماحول میں اس کی بازگشت ہو جائے گی۔“
اس نے سوچا ، یا اللہ یا رحمٰن ، میں کون میں کون ، سبحان اللہ ۔۔۔ مرشد کریم کے اندر کی آواز ہے جس کی باز گشت ماحول میں موجود ہر شے پر محیط ہوگئی۔ ہر آواز میں اللہ کی حمد اور میں کون کی بازگشت تھی۔ بابا بلھے شاہ ؒ فرماتے ہیں،
بلھیا کی جانا میں کون
بلھیا کی جانا میں کون
درو دیوار اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب ہم آواز ہو کر حمد باری تعالیٰ بیان کر رہے تھے۔ ورد بدلا تو قرب و بعد میں اشیا نے ورد کرنے والے کی تقلید کی۔
فرد جو کچھ بولتا ، کرتا یا سوچتا ہے اس کی بازگشت فضا میں پھیلتی ہے اور ماحول پر محیط ہو جاتی ہے۔ اولیا ء اللہ کا قلب اللہ کا ذکر کرتا ہے، اسی مناسبت سے ماحول میں ہرشے رد عمل ظاہر کرتی ہے۔ سطحی سوچ کا حامل فرد کہتا ہے کہ گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک ٹک ٹک کرتی ہیں جب کہ اعلیٰ اسپیس کا مکین سنتا ہے ہر گھڑی کی سوئیاں ٹک ٹک نہیں کرتیں، ” اللہ ھو “ کہتی ہیں۔ فرد جب آواز کی فریکوئنسی سے مانوس نہ ہو تو ظاہری تاثر کو ٹک ٹک سمجھتا ہے۔ ہر فرد کی اسپیس ذہن کی وسعت کے مطابق ہے۔
یہ بات بہت اہم ہے کہ آواز کا پھیلاؤ بازگشت ہے ۔ پھیلاؤ سے اسپیس تخلیق ہوتی ہے اور اسی کے مطابق وقت کا تعین ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسپیس آواز پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم ” کن“ کی بازگشت کائنات کی اسپیس ہے۔ جو شخص آواز کو جتنا قریب سے سنتا ہے ، اس کے لئے اسپیس سمٹتی ہے اور جو آواز کو دور سے سنتا ہے یا پھر سنتا ہی نہیں ، اس کے لئے اسپیس پھیلتی جاتی ہے۔
رب العالمین اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،
” ہم اس کی رگ جاں سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں۔“ (ق : ۱۶)
صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اپنا لکھا ہوا سمجھنے کے لئے ذہن کو اس اسپیس میں جانا پڑتا ہے جس وقت تحریر لکھی گئی ورنہ مفہوم ذہن میں نہیں آتا۔
ایک روز صاحب علم و عرفان کو تحریر سناتے ہوئے پوچھا ، محسوس ہوتا ہے کہ اس تحریر میں جھول ہے جیسے کہیں کوئی بات رہ گئی ہے۔
فرمایا ،” آپ اس تحریر سے مانوس نہیں ہیں، اس لئے ایسا کہہ رہے ہیں۔ جھول نہیں ہے۔“
پوچھا ،فرد اپنی تحریر سے مانوس نہ ہو، یہ کیسی بات ہے؟
فرمایا ،” یہاں کچھ بھی اپنا نہیں، تحریر اپنی کیسے ہو سکتی ہے!“
یہ بات سن کر ذہن میں ” میں کون میں کون “ کی تکرار ہونے لگی ۔
کتنی بار اس نے سوچا ہے کہ میں کون ہوں؟
میرے اندر آواز کیسے پیدا ہوتی ہے؟
مجھے کس طرح سنائی دیتی ہے؟
جسم کیسے حرکت کرتا ہے؟
حرکت کیا ہے اور مجھے ہدایات دینے والا کون ہے؟
اکثر کان بند کر کے وہ اپنی آواز اندر سنتا ہے یہ جاننے کے لئے کہ آواز کیا ہے۔۔۔؟
ابتدا میں تجربہ سے گونج محسوس ہوئی لیکن ساخت واضح نہ ہو سکی۔
جب شیخ نے ایکو ( بازگشت ) کی طرف متوجہ کیا تو تفکر کے دوران ایک بار پھر ہاتھ کان پر رکھ کر باہر کی آواز سے توجہ ہٹائی اور کہا،
” آواز کیا ہے، میں آواز کی ساخت سمجھنا چاہتا ہوں۔“
ٹھہر ٹھہر کر متعدد مرتبہ جملہ دہرایا۔ ابتدا میں محض گونج تھی۔ اس کے بعد پھیلاؤ محسوس ہوا یعنی آواز کے ساتھ متوازی عناصر ہیں جیسے ایک ساتھ کئی لائنیں آگے بڑھ رہی ہیں۔ آواز ایک لائن نہیں ہے ، بہت ساری لائنوں کا مجموعہ ہے ۔ اس کے بعد base واضح ہوئی اور ادراک ہوا کہ آواز پر غلاف محیط ہے۔ غلاف کی آواز ایسی ہے جیسے ریڈیو میں فریکوئنسی سیٹ کرتے ہوئے ” ہس “ کی آواز ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ جس کو اس نے ”ہس“ سمجھا وہ ذہن کی فریکوئنسی سے ماورا ہے اس لئے احاطہ نہ کرنے کی وجہ سے وہ اسے ”ہس “ سمجھ رہا ہے۔
خود سے پوچھا ، پھیلنے سے جو کچھ آواز میں ہے، وہ ظاہر ہوتا ہے یعنی اسپیس تخلیق ہوتی ہے ہم سب اسپیس ہیں، اگر آواز نہ پھیلے تو کیا ہمارا وجود ہوگا۔۔؟
یعنی بازگشت کا ایک مفہوم دوری یا دوئی ہے۔
کائنات کی تخلیق اور حرکت کی ابتدا آواز ہے ۔ تصور میں جسم کا اندرونی حصہ بوتل میں خلا کی مانند نظر آیا۔ دیکھا کہ اندر میں سے آواز نشر ہوتی ہے، دائرہ کی شکل میں آگے بڑھتی ہے، خلیات سے ٹکراتی ہے اور لہروں میں چھپا مفہوم واضح ہوتا ہے۔ مرکز جہاں سے آواز نشر ہو رہی ہے ، دیکھنا چاہا تو نظر دھندلا گئی جیسے پردہ ہو۔
بعض اوقات جاگنے کے بعد سینہ کے درمیان میں خلا محسوس ہوتا ہے ۔ جن دنوں اس کیفیت میں شدت تھی، زیادہ سے زیادہ یا حی یا قیوم کا ورد کیا۔ شعور مغلوب اور لاشعور غالب ہونے سے خود کو بلندی پر دیکھا ۔ نظر آیا کہ نیچے منظم لشکر جا رہا ہے ، اچانک لشکر میں بے چینی پھیل گئی۔
منظر دیکھنے میں مگن تھا کہ باطن میں آواز گونجی ۔ دیکھا کہ اندر خلا ہے، انتہائی مدھم دودھیا روشنی پھیلی ہوئی ہے ، آواز کی لہریں دائرہ کی شکل میں گردش میں ہیں او ر کہہ رہی ہیں،
” جب یہ اللہ کی آواز سنیں گے تو انہیں سرور مل جائے گا۔“
کمرے میں گہری خاموشی تھی۔ خیال نے کہا کہ خاموشی بھی اسپیس ہے اور اسپیس آواز پر قائم ہے۔ خاموشی کو سنیں تو ”ھو“ کی آواز آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہوا سائیں سائیں کرتی ہے۔ دھیان دیا جائے تو ہواؤں میں ”ھو“ کا ساز ہے۔ درختوں پر مینا، چڑیا، کوئل، بجلی کے تاروں پر بیٹھے کبوتر، پتوں کی سرسراہٹ یہاں تک کہ پنکھا ، کاغذ پر پنسل کی آواز۔۔۔ ہر گونج ” ھو “ یا ” اللہ ھو“ کہتی ہے۔ ہر آواز پر ” ھو “ کا گمان لئے ہوتا ہے کہ جب وہ جسم کی طرف متوجہ ہوا تو خلا میں ”ھو“ کی بازگشت تھی۔
مرشد کریم سے پوچھا، میں بات کرتا ہوں تو میرے چہرہ کے آگے کچھ نہیں ہے، ہونا یہ چاہیئے کہ آواز فضا میں بکھر جائے اور واپس نہ آئے لیکن جب ہم بات کرتے ہیں تو اپنی آواز خود بھی سنتے ہیں۔ آواز کس چیز سے ٹکرا کر واپس آتی ہے۔۔۔؟
فرمایا ، ” ایکو خلا ہے۔ خلا بھی تو وجود رکھتا ہے ، اس سے ٹکراتی ہے اور ٹکرا کر آپ کے اندر مادی زبان کا ریکارڈ ہے اس میں ترجمہ کر دیتی ہے۔ کوئی واٹر کہے تو ذہن میں نقشہ پانی کا بنے گا نقشہ کو دیکھ کر ترجمہ ہوگا۔ ہم جو کہہ رہے ہیں الفاظ تو کچھ نہیں، خیالات ہیں۔ خیال بھی آواز ہے جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہے۔ جب انسان کائنات میں غور و فکر کرتا ہے تو جہاں تک ذہن کی رسائی ہوتی ہے،لہریں ذہن کی اسکرین سے ٹکراتی ہیں اور آواز بن جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، آدمی کو وہی ملتا ہے جس کی اس نے سعی کی۔ سعی بھی ایکو ہے۔“
ذہن قرآن کریم کی طرف متوجہ ہوا۔ چند روز بعد شیخ طریقت سے عرض کیا کہ ایکو سے متعلق آیات تلاش کرنا چاہیں تو ذہن میں ” راجعون“ آیا۔
فرمایا ، ” رجع کا مطلب ہے کہ مسلسل ایک چیز جائے اور پلٹ کر آدمئے۔ ہر زبان میں زمین کے مختلف نام ہیں لیکن زبان کے فرق کے باوجود سب اسے زمین سمجھتے ہیں۔ وجہ کیا ہے۔۔۔؟ وہ بازگشت سے سمجھ رہا ہے۔ جیسے ہی بازگشت ہوگی ، فوراًٍ پانی کا نقشہ آئے گا اور اتنا گہرا ہوگا کہ آپ کو دماغ میں تراوٹ محسوس ہوگی۔“
بازگشت کو عربی میں رجع کہتے ہیں۔ لغت میں اس کے معنی پلٹا نا یا گردش کر کے اس مقام پر آنا ہے جہاں سے چلی تھی۔ رجع کے بنیادی حروف ر ج ع ہیں۔ اس کے تحت بننے والے الفاظ کے معانی پہلی حالت کی طرف رجوع کرنا ، لوٹنا، دہرانا یا بازگشت کے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر echo کا قانون بیان فرمایا ہے۔ خالق کائنات فرماتے ہیں،
” ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔“ ( البقرۃ : ۱۵۶)
قرآن کریم میں لکھا ہے،
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الرَّجْعِ . وَالأرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ
سماء ۔۔۔ آسمان ، ذات۔۔۔ وجود، الرجع۔۔۔ بازگشت ( ایکو) ہے۔ ارض ۔۔۔ زمین اور صدع شگاف کو کہتے ہیں۔ تفکر سے ادراک ہوتا ہے کہ آیت میں آسمان اور زمین کی صفات ، ایکو کیا ہے، ایکو کے Source کی نشان دہی اور تکرار کا قانون بیان کیا گیا ہے۔
آسمان لاشعور اور زمین شعور کے قائم مقام ہے۔ بازگشت یا ایکو دراصل اطلاع ہے۔ اطلاع میں کسی لمحہ تعطل نہیں ہے، جہاں سے آتی ہے وہیں لوٹ جاتی ہے اس لئے بازگشت کہا گیا ہے۔
آیت میں لاشعور سے ہونے والی بازگشت کی قسم کھائی گئی ہے کہ جب وہ زمین پر پھیلتی ہے تو زمین اس اطلاع کو قبول کرتی ہے اور تخلیقات کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ ہر تخلیق اطلاع ہے ، جہاں سے آتی ہے ، وہیں لوٹ جاتی ہے ۔ آسمان ، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، ان میں اطلاع گردش کر رہی ہے۔ بازگشت کا ایک مفہوم محیط ہونا ہے۔
” اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک وہی ہے۔ زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ وہی اول بھی ہے اور آخر بھی اور ظاہر بھی ہے اور باطن بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ ایام میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ جو کام تم کرتے ہو وہ اسے دیکھ رہا ہے، وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام امور اسی کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔“ (الحدید : ۱-۵)
ایک ایک لفظ میں مفصل انداز سے ایکو (بازگشت) کا Source ، قانون اور زاویے بیان ہوئے ہیں۔ جو کائنات تخلیق ہو چکی ہے، ہم اس کی بازگشت ہیں۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے