Topics
جب کبھی وہ
واقف اسرار کن فیکون، نظام تکوین میں صدر الصدور کے عہد ےپر فائز ابدالِ حق حضور
قلندر بابا اولیاء ؒ کی شخصیت اور ان کی
تعلیمات پر تفکر کرتا ہے کہ ابدالِ حق کی ہستی کن اعلیٰ اوصاف کی حامل ہے اور
انہوں نے نوع ِ جن و انس کو جن تعلیمات سے روشناس کرایا ہے، وہ کیا ہیں۔۔۔؟لاشعور
راہ نمائی کرتا ہے، اطلاع آتی ہے ، دماغ کی اسکرین پر بکھر جاتی ہے، لہروں میں
باوقار ہستی کا عکس بنتا ہے اور غیب کی آواز بولتی ہے کہ ابدالِ حق کی تعلیمات سے
واقف ہونا ہے تو اپنے مرشد کریم سے دوستی کرو کیوں کہ ابدال ِ حق کی تعلیمات
تمہارے مرشد ہیں۔
اندر میں آواز کہتی ہے کہ استاد جسے اپنا
ذہن عطا کر دے، وہ شاگرد ہے اور شاگرد استاد کا عکس ہے۔ ذہن منتقل ہونے کا مطلب یہ
ہے کہ قبول کرنے والے نے نفی کر کے خود کو مرشد کے حوالہ کر دیا۔ خیال کہتا ہے کہ
مرید خول اور خول میں جا ن مرشد ہے۔ ذہن ایک اور قالب دو ہوں تو اسے دو نہیں
کہتے۔۔۔ وہ ایک ہیں۔ ایک ہونے کے باوجود دو اس لئے نظر آتے ہیں کہ اگر ایک نظر
آئیں تو شعور سوال بن جائے گا۔
ایک روز دل کے مکین سے پوچھا ، یہاں سے
جاتا ہوں، تشنگی رہ جاتی ہے۔ اپنا آپ خالی محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ
آیا ہوں۔ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟
فرمایا ، ” وجود تکمیل چاہتا ہے۔“
حضور! تکمیل کیسے ہو۔۔۔؟
” چینی اور پانی سے شربت بنتا ہے۔ شربت
بنانے کے لئے کیا کرتے ہیں؟“
چینی اور پانی ملاتے ہیں۔
” چینی پانی میں کب ملتی ہے۔۔؟“
چینی پانی میں گھل جاتی ہے۔
”چینی پانی میں کب گھلتی ہے۔۔؟“
جب دونوں کی مقداریں ایک ہو جائیں۔
فرمایا ، ” یہی آپ کی بات کا جواب ہے!“
پانی کی اسپیس بڑی اور چینی کی چھوٹی ہے۔
چینی پانی میں حل ہونے کے لئے اپنی نفی کرتی ہے اور فنا ہو کر اسے بقا ملتی ہے۔
ایک بار قلندر بابا ؒ کے بارے میں کچھ پوچھا تو فرمایا ،
من تو شدم تو من شدی |
من تن شدم تو جاں شدی |
تاکس نہ گوید بعد ازیں |
من دیگرم تو دیگری |
وضاحت فرمائی ،
” میں تو ہو جاؤں تو میں ہو جا، میں بدن ہو جاؤں تو جان ہو جا۔ تخلیق کے دو رخ اس
طرح ایک دوسرے میں جذب ہو جائیں کہ دیکھنے والا یہ نہ کہے سکے کہ ایک تصویر الگ ہے
اور ایک تصویر الگ!“
مرشد کریم نے جب اپنے عظیم مرشد کا ذکر
کیا تو چہرہ پرمحبت کی مٹھاس گہری ہو گئی اور آنکھوں میں سلیٹی رنگ کے گرد نیلگوں
کناروں میں خمار چھا گیا۔ مسکراہٹ اتنی خوب صورت کہ۔۔۔؟
استاد کا احترام کیا ہوتا ہے، یہ مرشد سے
سیکھا ہے۔
ایک مرتبہ کسی تحریر میں ابدالِ حق کا ایک
قول شامل کیا جو عام فہم سے بالا تھا۔
شیخ نے فرمایا ، ” اسے مت لکھو ، سمجھ میں
نہیں آئے گا۔“
اس نے ان سطروں پر لکیر پھیر دی، واضح
کرنے کے لئے کہ مضمون میں شامل نہیں کرنا ہے۔
شیخ نے تحریر سے الفاظ کو کاٹتے دیکھا تو
یہ بات ناپسند ہوئی اور فرمایا،
” قلندر بابا اولیا ؒ کی تحریر پر کبھی لکیر مت
پھیرنا۔۔۔ یہ گستاخی ہے۔ دائرہ بنا دیا
کرو جس کا مطلب یہ ہے کہ جو انہوں
نے فرمایا وہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔“
اس
روز زندگی کا بہت بڑا سبق سیکھا کہ یہ اور اس کے علاوہ کتنی باتیں ایسی ہیں
کہ بے ادبی ہو جاتی ہے لیکن احساس نہیں ہوتا۔تحریر لکھنے والے کا ذہن ، ان کے
الفاظ ہیں۔ ہر عمل طرز فکر کی نشان دہی ہے۔ بہر حال عام لفظ ہو یا خاص۔۔ وہ سب پر
دائرہ بنا دیتا ہے۔
دائرہ بنانے سے زندگی دائرہ میں آتی ہے۔
دائرہ محدود لیکن اپنی طرزوں میں لامحدود ہے۔ یہ اللہ کی صفت محیط ، صفت قدیر و
قادر ، حاضر و ناظر ، اول و آخر اور ظاہر و باطن کی صفات کی علامت ہے۔ دائرہ پر
اللہ محیط ہے۔ سمجھ میں یہ آتا ہے صفات ،
ذات سے الگ نہیں لیکن ذات اور ہے اور صفات اور ۔
ذات پر محیط ہے۔
ذہن کا منتقل ہونا دوئی ختم ہونا ہے۔ ابدال
ِ حق قلندر بابا اولیا ؒ ۔۔۔ نظام ِ تکوین میں صدر الصدور ہیں۔ رحمتہ للعالمین
حضرت محمد ؐ کے حکم سے ” لوح وقلم “ تحریر فرمائی۔
شیخ فرماتے ہیں کہ " میرا سارا
علم ' لوح و قلم' ہے۔ قلندر بابا ؒ نے '
لوح و قلم ' لکھوانے کے لئے صبح چار بجے کا وقت مقرر کیا تھا۔ وہ فرماتے تھے، میں الفاظ سنتا اور
لکھتا جاتا تھا۔ آواز کے ساتھ ان کے ماتھے پر اسکرین چلتی تھی ، میں آواز کے ساتھ الفاظ کا مشاہدہ بھی
کرتا تھا۔ ایک طرف ان کی آواز اور پھر فلم چلتے دیکھنا ، ذہن پر بہت دباؤ پڑتا تھا
جس سے میں سو جاتا تھا۔۔۔وضوکے بعد پھر حاضر ہو جاتاتھا"
مرشد کریم ”
لوح و قلم “ کے امین ۔ ” لوح و قلم “ قرآن کریم کی تفسیر ۔۔تخلیقی فارمولوں کی
دستاویز ہے۔ تخلیقی فارمولے ، علم الاسما ہیں جو کن فیکون یا کائنات کی تخلیق کا
علم ہے۔
سائنس جن رازوں کو تلاش کر رہی ہے وہ سب
قرآن کریم میں ہیں۔ جیسے کہ،
٭ ٹائم
اور اسپیس کی پہنا ئیاں کیا ہیں۔
٭ شے (
ہر نوع ) کیا ہے اور کن مقداروں کا مرکب ہے۔
٭ لہریں
کس طرح تخلیق ہوتی ہیں اور لہروں کے دوش پر وجود ایک مقام سے دوسرے مقام پر کیسے
منتقل ہوتا ہے۔
٭
چاند ، سورج ، کہکشانی نظام، اجرامِ فلکی ، زمین اور زمین کے اندر موجود
دنیا کا نظروں کے سامنے آنا
کیا
ہے ۔
٭
مادی سائنس کا انحصار مادی آلات پر ہے جس کے نتائج قیاس پر مبنی اور محدود
ہیں جب کہ قرآن
کریم میں
ارشاد ہے:
” اے جن و انس ، تم زمین
اور آسمان کے کناروں سے نہیں نکل سکتے،
مگر سلطان سے۔“ (الرحمٰن : ۳۳ )
اس نے خواب میں دیکھا تھا کہ مرشد بادشاہ
ہیں اور بادشاہ کے سر پر اللہ کا ہاتھ ہے۔
٭
امر کیا ہے اور امر کا قانون کیسے کام کرتا ہے۔ اللہ احسن الخالقین ہے یعنی
تخلیق کرنے والوں میں
بہترین
خالق۔ یہ اشارہ ہے کہ اللہ نے تخلیق کا علم اپنے خاص بندوں کو عطا کیا ہے جو اللہ
کے حکم
سے
کائنات میں تصرف کرتے ہیں۔
اسرار و رموز بہت ہیں اور صفحات کم!
شیخ طریقت کو
قریب سے دیکھنے کا جتنا موقع اللہ نے عطا کیا، یہ جانا کہ شیخ کا ذہن اپنے مرشد سے
نہیں ہٹتا۔ ہر بات میں ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیا ؒ کا نام آ جاتا ہے کہ،
انہوں نے یہ فرمایا۔۔۔۔۔
انہوں نے یہ فرمایا۔۔۔۔۔
انہوں نے یہ
فرمایا۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ
تحریر لکھواتے ہوئے شیخ رک گئے اور فرمایا
، ” نہیں! یہ نہیں لکھنا ، منع کر دیا ہے !“
وہ چونک گیا
اور یہ سیکھا کہ ٹائم اور اسپیس روحانی ہستی کے تابع ہیں۔
خوش نصیبی سے
اللہ کا دوست۔۔ دوست بن جائے تو ہر لمحہ قرب ہے۔ مرشد کریم دن رات علم کے فروغ کے
لئے کوشاں ہیں تا کہ نوع آدم اور نوع جنات اللہ کا عرفان حاصل کر کے سکون سے آشنا
ہوں۔جو باغ ابدالِ حق نے لگایا ہے، شاگرد رشید نے اس کی خوش بو دنیا کے ہر کونے تک
پہنچانے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک اللہ نے کامیابی عطا فرمائی ہے۔
شیخ فرماتے ہیں کہ ” مرشد مکمل ایثار ہوتا ہے۔ ابدالِ حق نے سولہ سال شب و
روز میرے گھر قیام کیا۔ مجھ سے غلطی ہوتی تو ان کا رویہ مشفق باپ اور استاد کا تھا۔
ہمیشہ درگزر فرمایا اور محبت سے خامیوں کی اصلاح کی کہ پھر جس بات سے انہوں نے منع
فرمایا الحمد اللہ میں نے کبھی نہیں کیا۔ ان کا معمول تھا کہ ہفتہ کے روز گھر جاتے
اور پیر کی شام آفس کے بعد واپس آجاتے۔ صلبی و روحانی، دونوں اولادوں کی ذمہ داری
بحسن و خوبی ادا کی۔“
اس نے شیخ سے عرض کیا کہ شاگرد مرشد کے قرب کے لئے تڑپتا ہے۔ آپ کتنے خوش
نصیب ہیں کہ خود مرشد کریم نے آپ کے گھر قیام فرمایا۔ اب جب میں آپ کا قرب چاہتا
ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ سولہ سال معمولی عرصہ نہیں ہے۔ تربیت کا ایک دور مکمل ہوا
اور سولہ سال کی رفاقت کے بعد وہ گھر واپس گئے۔ آپ نے کیسے برداشت کیا؟
فرمایا ، ” میں برداشت نہیں کر سکا۔ بہت برا حال تھا۔ کسی چیز کا ہوش نہیں
تھا۔ گھر کی زیارت سے سکون ملتا تھا۔“
وہ سوچتا ہے کہ ابدالِ حق کیسے ہیں۔۔۔؟
دل کہتا ہے کہ تمہارے مرشد کے جیسے ہیں۔
بہت مرتبہ خیال آیا کہ ابدالِ حق
کا شکر ادا کرنا چاہئے لیکن مرشد کریم سے
کیسے کہتا۔ شکریہ تو اس وقت ادا ہوتا ہے کہ جب نعمت کی قدر کی ہو۔ کوتاہیوں اور
خامیوں کا احساس اس قدر بڑھ جاتا کہ زبان
ساتھ نہ دیتی اور شکریہ ادا نہ کرنے پر اندر میں کوئی ملامت کرتا۔
ایک روز یہ سوچ کر ارادہ کیا کہ جیسا بھی ہوں، شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔
حضور! کچھ کہنا
چاہتا ہوں۔ بہت مرتبہ دل میں خیال آیا لیکن ہمت نہیں ہوئی۔
” کہو، کیا
کہنا ہے۔۔۔؟“
میری طرف سے
قلندر بابا اولیا ء ؒ کا شکریہ ادا کر دیں کہ ہمیں آپ مل گئے۔
چہرہ پر دل
آویز مسکراہٹ تھی۔
فرمایا، ” آپ
خود شکریہ ادا کر دیں۔“
سمجھ نہیں آیا
کہ وہ کیا کہے۔ وہ تو اپنے مرشد کے سامنے اتنی مشکل سے یہ بات زبان پر لایا لہذا
اس بات پر خاموش رہا۔
فرمایا، ” میں
بھی کہہ دوں گا، آپ بھی شکریہ ادا کریں۔“
وہ خیال میں بے خیال ہو جاتا ہے۔ اب جو کام کرتا ہے اس طرح کہ مرشد دیکھ
رہے ہیں۔ ان سے باتیں کرتا ہے، سوال پوچھتا ہے، جواب ملتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ جب
تصور احساس میں تبدیل ہوا تو عود کی خوش بو پھیل گئی۔بس مظہر بننے کا مرحلہ باقی ہے۔ قرب کی تڑپ بڑھنے
سے گداز آنکھوں سے بہنے لگتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا ایسا کیا کروں کہ احساس مظہر
بن جائے۔
خدمت میں حاضر
تھا۔ عرض کیا، حضور ! ملاقات میں تعطل آجائے تو۔۔۔۔
مسکرائے اور
فرمایا ، ” برداشت نہیں ہوتا۔“
عرض کیا، جی
ذہن منتشر اور میں بے حال ہو جاتا ہوں۔
فرمایا ، ” اپنے دل میں دیکھو۔۔۔ دنیا مسافر خانہ ہے۔۔۔ جو آتا ہے وہ چلا
جاتا ہے اور جہاں چلا جاتا ہے وہاں سے نیا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ دل میں دیکھو، دل
کا دیکھنا جھوٹ نہیں ہوتا۔ میرا یہ عالم تھا کہ میں اپنے گھر میں بیٹھ کر اپنے پیر
دباتا تھا کہ میں قلندر بابا ؒ کے پیر دبا رہا ہوں۔ میں خود سے الگ سمجھتا ہی نہیں
تھا۔“
اس نے سوچا کہ
مرشد کی باتیں قصے کہانیاں نہیں ہیں، ان میں سبق ہے۔
احساس اس وقت مظہر بنتا ہے جب ذہن یک سو ہوتا ہے۔ یک سوئی کا مطلب یہ ہے کہ
خیالات کے ہجوم میں کسی ایک خیال میں آدمی بے خیال ہو جائے۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے