Topics
وہ اسکول میں اوسط درجے کا طالب علم تھا لیکن صبح اسمبلی کے
وقت اور فزیکل ٹریننگ کے پیریڈ میں ہمیشہ آگے رہتا۔ آٹھ بجے اسمبلی لگتی اور ساڑھے
سات بجے وہ اسکول میں ہوتا۔ اجلے سفید صاف ستھرے یونیفارم پہنے روشن چہرے، بغض و
عناد سے پاک پاکیزہ مسکراہٹ، بچوں کا خود اپنی صفوں کی ترتیب و توازن اور درستی کا
خیال، ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط ان کی
پہچان ۔۔۔ قومی ترانے کی دھنیں بجتی ہیں اور اسمبلی ہم آواز ہو کر وطن کی عظمت اور
سر بلندی کا گیت گاتی ہے۔ انگ انگ وطن کی محبت کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے اور چاند
ستارے والا پرچم آہستہ آہستہ کھلتے ہوئے قوم کے نونہالوں کو دیکھ کر نہال ہوتا ہے۔
بچے نہیں جانتے ہوئے بھی جانتے ہیں کہ قومی شعور کیا ہے لیکن پھرمعلوم نہیں بچے
بڑے کیوں ہو جاتے ہیں اور بڑے بچے کیوں نہیں ہوتے۔۔۔؟
اسکول میں پڑھی گئی نظمیں یاد رہتی ہیں۔ وہ معاشرہ میں اخلاقی اور قومی
قدروں کی بے قدری کو دیکھتا ہے تو آدمی کی حیثیت اور دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کرتی
نظیر اکبر آبادی کی نظم یاد آجاتی ہے۔
پڑھانے والے
اس کے لیے ہمیشہ قابل ِ احترام رہے ہیں۔ اسکول و کالج اور یونی ورسٹی میں اساتذہ
کے ساتھ ماں باپ بھی زندگی کے اسباق پڑھاتے ہیں۔ بچہ کا پہلا اسکول ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت
ہوتی ہے۔ کاش کہ یہ سب قابل احترام لوگ بچوں کو نظمیں پڑھاتے ہوئے مفہوم سے بھی
واقف کرائیں۔ پھر بچے کبھی بڑے نہ ہوں اور بڑے بچے بن جائیں۔ بچپن بچپن ہو کر
بچپن بچپن بن جائے۔!
ملک میں افراتفری اور مسلم دنیا کی زبوں حالی
کا سوچ کر وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ لوٹ مار اور کشت و خون کا بازار کیسے بند ہوگا
اور نوع ِ آدم کب سکون و راحت پائے گی۔۔۔وہ مرشد سے جاننا چاہتا تھا۔۔ اسے طوفانِ
نوحؑ سے متعلق اپنا سوال یاد آگیا۔ اس نے شیخ سے عرض کیا کہ طوفانِ نوحؑ کو دس
ہزار سال پورے ہوگئے ہیں۔ کیا دنیا پھر کسی طوفان کی زد میں ہے۔۔۔؟
انہوں نے فرمایا۔۔۔ ” دس ہزار سال کے بعد جہاں زمین ہے وہاں پانی آجاتا ہے
اور پانی کے اندر جو ایورسٹ کی چوٹیاں ڈوبی ہوئی ہیں وہ باہر آجاتی ہیں اور جو
چوٹیاں باہر ہیں وہ پانی میں چلی جاتی ہیں۔ پانی جب اترتا ہے تو پھر جو کچھ بچ
جاتا ہے اس سے زندگی کا آغاز غاروں سے ہوتا ہے۔ غاروں کے بعد لوگ درختوں پر بسیرا کرتے ہیں۔ درختوں میں راستے بناتے ہیں،
بازار اور مکان بناتے ہیں۔ وہاں نیچے پانی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ طوفان کے بعد
کچھ زمین ایسی رہ جاتی ہے وہاں پانی نہیں ہوتا۔خشکی میں قدرت کچھ چیزیں اگا دیتی
ہے۔ بیج کا دانہ زمین میں جاتا ہے تو کھیتی باڑی شروع ہوتی ہے۔ اب زمین چوں کہ بہت
بڑی ہے تو لوگوں کو فرشتوں کی راہ نمائی حاصل ہوتی ہے۔ فرشتے آ کر shape بنانا سکھاتے ہیں۔ پھر وہ فرشتے پانی کو تقسیم کر کے نہریں بنانا
سکھاتے ہیں۔پانی اترتا ہے تو بہت زیادہ نشیبی علاقے میں پانی آجاتا ہے اور وہاں
دریا بن جاتا ہے۔ پہاڑوں پر بارش برستی
ہے۔ چوٹی پر آکسیجن کم ہونے سے بارش برف بنتی ہے۔ سورج کی تپش سے برف پگھلتی ہے
اور پگھلنے کے بعد دریا بن جاتے ہیں۔دریا سمندر میں چلا جاتا ہے۔ سمندر کے اندر
آتش فشاں ہیں۔ بہت زبردست حرارت ہے اور سمندر کے اندر ہوا بھی ہے۔ گرمی اور ہوا
آپس میں ٹکراتے ہیں تو دس ، بیس ، سو فٹ اور اس سے بھی زیادہ اونچی لہریں اٹھتی
ہیں۔پھر وہ پھیلتی ہیں تو ہوا انھیں اٹھا کر فضا میں بکھیر دیتی ہے، خشک لو چلتی
ہے، اس کا مطلب اب وہاں پانی کی کمی ہو گئی ۔ پھر آہستہ آہستہ پتھر کا دور۔چقماق
کا دور۔ آگ کی دریافت۔ لوہے کی دریافت آہستہ آہستہ ترقی ہوتی ہے، نئی نئی ایجادات
ہوتی ہیں۔“
وہ
فرمارہے تھے کہ ” جو سائنس اس وقت ہے اس سے زیادہ ترقی یافتہ دس ہزار سال پہلے
تھی۔ آج ایرو پلین عام ہے، کل اڑن کھٹولا نام تھا۔ آج ٹی وی ہے، گزشتہ کل جامِ جم
تھا۔آدم طوفان نوح ؑ سے پہلے آدم تھا۔آج بھی آدم ہے اور پھر دس ہزار سال پورے
ہورہے ہیں۔ پانی جب نقل مکانی کرتا ہے یعنی اپنی دنیا تبدیل کرتا ہے تو ساتھ ساتھ
درخت بھی زمین پر موجود ہوتے ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ ہمیشہ قائم رہا، آج بھی ہے کہ
اگر آم گٹھلی سے پیدا ہوتا ہے تو پہلی گٹھلی کہاں سے آئی۔۔۔؟ ستارے کہکشائیں زمین پر نہیں ہیں، یہ اپنی جگہ
قائم رہتے ہیں لیکن زمین اپنی بیلٹ تبدیل کر لیتی ہے۔ مغرب مشرق بن جاتا ہے اور
مشرق مغرب کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اللہ کے ارشاد کے مطابق کائنات کی بنیاد نور
ہے۔ نور مشرق مغرب کا محتاج نہیں ہے۔ مشرق مغرب شمال جنوب زمین آسمان ہر سمت بیک
وقت دور کرتا ہے۔ نور کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔ پھر سمت کیا ہے۔۔۔؟ اللہ نے جو
نظام قائم کر دیا ہے اس میں نہ تغیر ہے نہ تعطل ہوتا ہے۔ دوسری بات قابلِ غور یہ ہے
کہ اصل نقل ہے ، نقل اصل ہے لیکن نقل فکشن ہے اور اصل reality ہے۔“
اتنا کہہ کر وہ
خاموش ہوگئے۔
مرشد کریم نے
مختصراً آنے والے وقت کی منظر کشی کر دی تھی لیکن وقت نہیں بتایا۔۔ اس نے پوچھا
نہیں ایسا کب ہوگا کیوں کہ خیال نے کہا نہیں۔ بس مزید یہ جاننے کی خواہش کی کہ
سرکار ! پیش گوئی کی گئی تھی کہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے کوئی مسیحا آئے گا؟
فرمایا۔۔۔” جب کوئی باغ لگتا ہے تو مالی پہلے سے ہوتا ہے۔۔ بندہ پیدا ہو گیا ہے
یقیناً ۔۔۔ کب سامنے آئے گا، بتانے کی اجازت نہیں۔ “
نظیر اکبر
آبادی کہتے ہیں:
ہر
آن
نفع
اور ٹَوٹے میں ،
کیوں
مرتا
پھرتا
ہے بن بن |
ٹک
غافل
دل
میں
سوچ ذرا ، ہے ساتھ
لگا
تیرے
دشمن |
کیا لونڈی ،
باندی ،
دائی
دوا ، کیا
بندہ
چیلا
،
نیک چلن |
کیا
مندر ، مسجد ، تال، کنوئیں
، کیا گھاٹ سرا ، کیا باغ ، چمن |
سب
ٹھاٹھ
پڑا
رہ
جاوے
گا جب
لاد
چلے
گا
بنجارہ |
کچھ
کام
نہ
آوے
گا تیرے
یہ
لعل ،
زمرد،
سیم و
زر |
جب
پونجی
باٹ
میں
بکھرے
گی پھر آن بنے گی جانوں پر |
نقارے ،
نوبت ، بان نشان ،
دولت،
حشمت ،
فوجیں ، لشکر
|
کیا
مسند ، تکیہ ، ملک،
مکاں، کیا کرسی، چوکی ، تخت ، چھپر |
سب
ٹھاٹھ
پڑا رہ
جاوے گا جب
لاد چلے
گا بنجارہ |
مغرور
نہ
ہو تلواروں پر، مت پھول بھرو سے ڈھالوں کے |
سب
پٹا
توڑ کے بھاگیں گے، منہ دیکھ
اجل کے بھالوں کے |
کیا ڈبے موتی
ہیروں
کے، کیا ڈھیر خزانے
مالوں
کے |
کیا
بغچے تاش مشجر
کے ،
کیا تختے
شال دو شالوں کے |
سب
ٹھاٹھ پڑا
رہ
جاوے گا جب لاد
چلے
گا
بنجارہ
|
وہ سوچ رہا تھا جب وقت اجل آ پہنچے گا ، سب ٹھاٹھ یہیں رہ جائیں گے ، مال و
زر اور نام و نشاں سب مٹی میں مل جائیں گے۔۔۔اور صرف ایمان باقی رہے گا۔ کسی کا
دولت پر ایمان ہے تو کسی کو مرتبہ پر ناز ہے۔ کوئی اقتدار چاہتا ہے تو کوئی کبرو
نخوت کی تصویر ہے، کسی کے لیے مال فتنہ ہے تو کسی کے لیے اولاد فتنہ ہے، کوئی زر و
جواہرات جمع کرتا ہے تو کوئی زمینوں سے امید رکھتا ہے، کسی کو غیبت کھا رہی ہے تو
کسی کو خود غرضی اور حسد کی بیماری ہے، کوئی جھوٹ بولتا ہے تو کوئی دھوکا دیتا ہے
، کسی کو ملاوٹ کی عادت ہے تو کسی کا کاروبار ناپ تول ہے، کوئی انتقام لیتا ہے تو
کوئی نفرت کا بیج بوتا ہے، کسی کو عورت کی کشش خاک میں ملا تی ہے تو کسی کو مرد کی
کشش خاک میں ملا تی ہے ، اور یہ سب کے سب
ہیں زمین کی کشش ثقل میں گرفتار۔ یہ نہیں جانتے کہ گرفتاری قید اور قید مصیبت ہے۔
لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جن کا ایمان اللہ سے محبت اور فرمان الٰہی کی فرماں برداری
ان کا ایقان ہے۔ ان پر یقین کی دنیا روشن ہوتی ہے۔ ضمیر نور باطن اور نور روشنیوں
کا سمندر ہے۔ یہ خوف رکھتے ہیں نہ ان کے دل غم گین ہوتے ہیں۔ یہ اللہ ” اشد حباللہ“ کی تفسیر ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے ،
” بعض لوگ ایسے ہیں جو غیر اللہ کو شریک بناتے
ہیں اور ان کی محبت دل میں رکھتے ہیں مگر ایمان والوں کو اللہ سے شدید محبت ہے۔“ ( البقرۃ :
۱۶۵ )
اس نے سوچا جو شخص جو کر رہا ہے وہ اس کا ایمان ہے ۔ سچ
بولنے والے کا ایمان سچ اور جھوٹ بولنے والے کا ایمان جھوٹ ہے۔ مال و زر سے محبت
کرنے والے کا ایمان پیسہ اور اللہ کی راہ میں دینے والے کا ایمان سخاوت و استغنیٰ
ہے۔ایمان ایقان اور ایقان ایمان ہے۔ جزا و سزا اور قضا و قدر کے فیصلے ایمان و
ایقان پر ہوتے ہیں۔ لیکن دین محبت کسے کہتا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔۔۔؟
جاننا چاہتا تھا قرآن نے محب اور محبوب کی تعریف کیا کی ہے۔۔۔۔؟
پودے پر پتے اور پھول رنگ رنگ بدل کر سوکھ جائیں تو نئے پھول پتے آتے ہیں
اور ٹہنیاں ہری بھری ہو جاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ خیال نے کہا جڑ سلامت رہتی ہے۔۔۔ لیکن تمہاری
دنیا تو اب وہ پودا بن گئی ہے جس کی جڑ کو دیمک کھا رہی ہے۔۔۔۔۔ پھول لگتے ہیں نہ
شاخ پر سبزہ ہے۔ جس پودے کی جڑ خراب ہو جائے اس پر نیا رنگ نہیں چڑھتا۔۔۔ مالی
پودے کو زمین سے نکال کر نئے بیج کی آبیاری کرتا ہے اور پودا پروان چڑھتا ہے۔
اسے
سوچ میں گم دیکھ کر مرشد نے فرمایا ، ”
درخت کا بیج اگر نہیں دیکھا ہے تو غور سے دیکھو۔ بیج دراصل دو پرت ہیں لیکن
ان دونوں کے درمیان مائیکرو فلم کا ایک دھاگہ ہے۔ اگر اس کو بیج کی روح سمجھا جائے
تو دراصل یہی درخت ہے۔“
بات ختم کر کے وہ مسکرا دیئے۔ اس نے سوچا بات مختصر، گہری اور مکمل ہے۔ بار
بار پڑھ کر اور پھر بیج کو کھول کر بات سمجھ میں آئے گی۔ رخصت لے کر گھر جاتے ہوئے
بیج کے قانون پر غور کر رہا تھا کہ ذہن میں سوال آیا۔ خیال سے پوچھا۔۔۔ پودا تو
لگے گا اور پروان چڑھ کر جوان بھی ہوگا لیکن اس سے پہلے جو تباہی ہے اس کا کیا
ہوگا۔ نجات کا راستہ کیا ہے۔۔۔؟
جواب موجود تھا اور خیال بھی جانتا تھا کہ
ذہن جواب سے واقف ہے لیکن وہ دونوں گفتگو رکھنا چاہتے تھے ۔ خیال نے دماغ کی
اسکرین پر خدوخال بنانا شروع کر دیئے۔ لکیر ایک تھی لیکن لکیر لکیر سے مل کر نئی
لکیر یں بن رہی تھیں، رنگ بھی ایک تھا مگر رنگ رنگ سے مل کر نیا رنگ بن رہا تھا،
نقش ابھر رہے تھے، خدوخال واضح ہو رہے تھے اور تصویر جگ مگ جگ مگ جگ مگا رہی تھی۔
یہ وہ تصویر ہے جس کی خوب صورتی اور دل کشی تصویر والے کے حسن سے ہے۔
خیال میں محو تھا کہ دماغ میں بابا بلھے
شاہ ؒ کا کلام گونجنے لگا۔
علم
نہ
آوے
وچ شمار |
اکو
الف
تیرے درکار |
جاندی
عمر
نہیں
اتبار |
علموں
بس
کریں
او
یار |
جد
میں
سبق عشق
دا پڑھیا |
دریا ویکھ
وحدت دا
وڑیا |
گھمن
گھیراں
دے وچ
اڑیا |
شاہ
عنایت
لایا
پار |
علموں
بس
کریں
او
یار |
بلھا
رافضی نہ
ہے سنیّ |
عالم
فاضل
نہ
عامل جنی
ّ |
اکّو
پڑھیا
علم لدنی |
واحد
الف
میم
درکار |
علموں بس
کریں او
یار |
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے