Topics
بندہ جب کسی سے متاثر ہوتا ہے تو پہلے ارادی طور پر یاد کرتا ہے اور پھر یاد غیر ارادی بن جاتی ہے، اپنی موجودگی مغلوب۔۔۔ہر آن ، ہر لمحہ محبوب کا احساس غالب ہو جاتا ہے۔
ذہن خیال میں قائم ہونے سے تصور واضح ہوا۔ تصور احساس میں داخل ہو گیا ہےاور اب ہر وقت حرارت محسوس ہوتی ہے۔ حرارت موجودگی کی اطلاع ہے لیکن پاس ہو کر بھی کوئی دکھائی نہ دے تو دل مضطرب اور اندر میں شور بڑھ جاتا ہے۔ احساس میں گم ، خود سے بے خبر جب وہ سانس اندر لیتا ہے تو تکمیل چاہتا ہے، وصال ہوتا نہیں کہ فراق شروع ہو جاتا ہے۔۔۔جدائی کی خلش بڑھ جاتی ہے۔
جدائی ایک روز کی ہو یا دس روز کی۔۔۔ ایک روز کی طوالت ایک سال اور دس روز کی دس سال کے برابر ہے۔دس سال کا ہر روز مزید ایک سال ہے۔اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ ذہن کسی طور کام پر آمادہ ہوتا ہے۔ پہلے محسوس ہوتا تھا کہ تصور میں دیکھنا بھی قربت ہے لیکن اس قربت میں دوری ہے کیوں کہ تصور بھی تصویر ہے۔۔تصویر عکس ہے اور عکس کو کسی نے نہیں پایا!
عرض کیا، یہاں سے جانے کے بعد میں خود کو یہیں پر چھوڑ جاتا ہوں ، کسی کَل قرار نہیں ہے۔
فرمایا ، یہ تو اچھی بات ہے، شاعر نے کہا ہے،
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
عرض کیا، حضور ! شاعری القا ہے اور کیفیت کے مطابق ورود ہوتا ہے۔ شعر یقیناً شاعر کے حسب حال ہے کیوں کہ یہ بھی محبت میں ایک مرحلہ ہے لیکن۔۔تصویر اور محبوب میں فرق ہے۔ تصویر دل کے آئینہ میں ہی کیوں نہ ہو، ہے تو وہ عکس۔۔۔ محبوب کہیں اور ہے۔
فرمایا ، ” بات صحیح ہے۔ تصور میں بندہ محسوس تو کرتا ہے لیکن تشفی نہیں ہوتی، جدائی کا احساس بڑھ جاتا ہے لیکن ۔۔ تکمیل تو سامنے دیکھ کر بھی نہیں ہوتی !“
بات بہت گہری تھی۔ ایسے وقت میں مرشد کریم کی نظر کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ٹھہری ہوئی آنکھیں اور مسکراہٹ میں رموز۔۔اسے سوچ کے سمندر میں گم کر کے وہ اپنے کام میں مشغول ہو گئے۔ اس نے سوچا کہ تصویر دیکھ کر جدائی کے احساس میں اضافہ ہوتا ہے اور سامنے دیکھ کر اندر میں خلا بڑھ جاتا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ بندہ کیا کرے۔ عجیب معاملہ ہے کہ تصور گہرا ہونے سے قربت کے بجائے دوری کا خیال غالب ہوتا ہے۔
ملاقات میں تعطل آجائے تو دنیا سے بے زاری بڑھ جاتی ہے۔ زندگی بوجھ ، بے رونق اور بے کشش محسوس ہوتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایک ہی طرح کی زندگی روزانہ کیسے گزارتے ہیں؟ یکسانیت سے اکتاہٹ بھی نہیں۔ جب کہ وہ ایک جیسی زندگی روز جی کر اس قدر بے زار ہو چکا ہے کہ سوچتا ہے کسی وقت صاحب طریقت سے دریافت کرے گا کہ اللہ نے اس کے مقدر میں اور کتنی زندگی لکھی ہے۔ دل بے چین اور اندر میں اس قدر خلا ہے کہ بعض اوقات دم نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن نکلتا نہیں جیسے نزع کا عالم ہو۔ ایسے میں وہ سوچتا ہے کہ اگر موت بھی آجائے تو دوسرے عالم میں بھی بے چین اٹھے گا۔ ذوؔق نے لکھا ہے،
اب کے گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
علاج زندگی میں ہے نہ موت میں۔۔۔صرف قربت چاہئے جو خود سے گزرے بغیر نہیں ملتی۔
خیال بولا ، تم اچھائی اور برائی میں قید ہو جب کہ محبوب دونوں سے بے نیاز ہے۔ ایسے میں خود سے گزرنے کا مرحلہ کیسے طے ہو۔۔۔؟
پہنچیں گے رہ گزرِ یار تلک کیوں کر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
خیال نے کہا ، تم انا کے قیدی ہو۔ کسی کے قریب ہونے کے لئے پہلے خود کو خود سے دور ہونا ضروری ہے۔
دل ۔۔۔ دنیا میں نہیں ہے لیکن زندہ رہنے کی کوئی وجہ تو ہے۔ سبب نہ ہو تو اسباب بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ تعطل ذہن کو مفلوج کر دیتا ہے۔ اگرچہ بظاہر غیر موجودگی میں مرشد کریم کی موجودگی کا خیال محیط ہوتا ہے لیکن یقین کی کمی سے شکوک و شبہات بڑھ جاتے ہیں۔
ایک روز فرمایا ، ” شیطان کے بہکاوے میں کیوں آتے ہو؟ بندہ محبت کرتا ہے تو کھونے کا ڈر دل میں بیٹھ جاتا ہے، یہ سب شیطانی وسوسہ ہے۔ مرشد کے ذہن میں شک نہیں ہے ، تمہارے ذہن میں بھی شک نہیں ہونا چاہئے !“
عرض کیا، آپ استاد ہیں اور میں شاگرد ، اس تعلق میں انتظار بہت ہے۔کبھی دو گھنٹے ، کبھی دو دن ، دو ہفتے یا اس سے زیادہ۔ ایسا وقت بھی آتا ہے جب اندر میں وحشت بڑھ جاتی ہے یہاں تک کہ آنکھیں شہادت دیتی ہیں۔
فرمایا ،” انتظار موت سے زیادہ شدید ہے۔“
مرشد کریم کا انتظار سوہان ِ روح بن جاتا ہے۔
ہر محسوس کی ہوئی بات لکھی نہیں جاسکتی، لکھ لی جائے تو محدود ہو جاتی ہے۔ کئی مرتبہ سوچا کہ محسوسات کو الفاظ میں بیان کرے۔۔۔سوائے چند الفاظ کے کیفیت کسی طور لفظوں میں نہیں ڈھلتی۔ بہت کم ایسا ہوا کہ مرشد کریم کے سامنے اپنی کیفیت بیان کی مگر الفاظ جذبات بیان کرنے سے قاصر تھے اور مخاطب ہستی الفاظ کی پابند نہیں ہے لہذا وہ خاموش ہو جاتا ہے، مرشد صرف مسکراتے ہیں، کچھ نہیں کہتے۔ جذبات میں شدت سے دل ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔۔ بندہ اپنا نہیں رہتا ، یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں پر ہے، ہے بھی یا نہیں۔
حضرت شیخ شرف الدین بو علی قلندر ؒکا کلام اسے بہت پسند ہے، فرماتے ہیں،
منم محو جمال او ، نمی دانم کجا رفتم
شدم غرق وصال او، نمی دانم کجا رفتم
غلام روئے او بودم، اسیر موئے او بودم
غبار کوئے او بودم، نمی دانم کجا رفتم
بآں مہ آشنا گشتم ، ز جان و دل فدا گشتم
فنا گشتم فنا گشتم ، نمی دانم کجا رفتم
شدم چوں مبتلائے او ، نہادم سر بپائے او
شدم محو لقائے او، نمی دانم کجا رفتم
قلندر بو علی ہستم ، بنام دوست سر مستم
دل اندر عشق او بستم ، نمی دانم کجا رفتم
ترجمہ :میں اس کے جمال میں محو ہوں ، نہیں جانتا میں کہاں گیا۔ میں اس کے وصال میں ڈوبا ہوا ہوں، نہیں جانتا میں کہاں گیا۔ میں اس کے چہرہ کا غلام، زلف کا اسیر اور اس کے کوچہ کا غبار تھا، اب نہیں جانتا کہ میں کہاں گیا۔ میں اس چاند سے آشنا ہوں ، جان و دل سے اس پر فدا ہوں، میں فنا ہو گیا ہوں اور نہیں جانتا کہاں ہوں۔ جب عشق میں مبتلا ہوا تو سر اس کے قدموں میں رکھ دیا۔ اس کے چہرہ میں محو ہوا اور نہیں جانتا کہ میں کہاں گیا۔ میں قلندر بو علی ہوں، دوست کے نام میں مست ہوں۔ دل میں اس کا عشق بسا ہے۔ نہیں جانتا میں کہاں گیا۔
ایک روز عرض کیا، جدائی میں اذیت ہے۔
فرمایا۔۔۔” اذیت نہیں، لذت ہے۔“
حضور ! لذت نہیں، اذیت ہے۔
سر نفی میں ہلایا اور دہرایا ۔۔۔ ” اذیت نہیں، لذت ہے !“
اور وہ خاموش ہو گیا۔
ہر شے کو مرکز اور وجود کو قرار چاہئے ۔ قرار کا قانون راسخ ہونا ہے۔راسخ کا مطلب شے کا قائم ہو جانا ہے ۔ قائم ہونا۔۔۔ ٹھہراؤ ہے یعنی اب وہ شخص حرکت نہیں کرتا جو قائم ہوا ہے بلکہ وہ وجود حرکت کرتا ہے” جس میں“ وہ شخص قائم ہوا ہے۔ مرید جب مرشد میں راسخہوتا ہے تو مرید کی حرکت ختم اور مرشد کی حرکت ۔۔۔ مرید کی حرکت بن جاتی ہے۔
ایک مرتبہ پوچھا تھا کہ راسخ ہونا کیا ہے؟
فرمایا کہ مشاہدہ کر لینا ، شک ختم ہونا، یقین حاصل ہو جانا ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے،
” جو لوگ علم میں راسخ ہو جاتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ ہمارا اس بات پر یقین ہے کہ ہر شے من جانب اللہ ہے۔“ ( آل عمران : ۷)
کام میں مشغول تھا کہ موجودگی کا احساس بڑھ گیا، یک لخت ہاتھ رک گئے ، دائیں بائیں اور پھر پورے کمرے میں دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آیا البتہ یہ احساس غالب رہا۔تھوڑی دیر آنکھیں بند کیں اور مراقبہ کیا۔ محبت میں سرور ہے۔ بندہ خود کو ان لہروں میں تحلیل ہوتا محسوس کرتا ہے جو اس کی بنیاد ہیں۔ تحلیل لامحدودیت اور ترتیب۔۔۔ محدودیت ہے۔ بنیاد سے قربت تسکین دیتی ہے اور تسکین سے تکمیل کی طلب بڑھ جاتی ہے۔
حال یہ ہے کہ تصویر آنکھوں میں ہے اس طرح کہ نظر صوفہ پر پڑے تو خالی صوفہ۔۔خالی نہیں۔ گلاس میں پانی ہو تو گلاس غائب اور پانی عکس بن جاتا ہے۔۔ سانس۔ آواز اور ۔۔۔ آواز ایک ہے۔ آواز اندر میں گونجتی ہے ، ارتعاش پیدا ہوتا ہے لیکن سماعت بصارت کے مرحلہ میں منتقل نہیں ہوتی اور بے چینی بڑھ جاتی ہے ۔ ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ آواز دے اور جواب نہ آئے۔۔۔ لیکن جواب سنائی نہیں دیتا۔ پوچھا ، جب میں پکارتا ہوں تو مجھے پکار کا جواب سنائی کیوں نہیں دیتا؟
فرمایا، ” بندہ سکت کی مناسبت سے لہریں قبول کرتا ہے، دل کا آئینہ صاف ہوگا تو آواز آجائے گی۔“
جب وہ چلتا ہے تو اکیلا نہیں ہوتا ، بیٹھتا ہے تو کوئی موجود ہوتا ہے۔ پہلے کبھی کبھار خوش بو کا جھونکا آتا تھا مگر اب عود کی مہک اکثر حصار میں لے لیتی ہے۔ ہر جگہ ایک چہرہ نظر آتا ہے ، ہاتھ بڑھا کر چھونا چاہے تو غائب ہو جاتا ہے۔ مناظر کا رنگ بھی ایک ہے جس میں داخل ہو کر وہ بے رنگ ہو جاتا ہے۔ خیال کے محیط ہونے اور موجودگی کو محسوس کرنے کی کیفیت کو جن الفاظ میں بیان کیا جائے وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جن سے بندہ گزرتا ہے ۔ خواجہ میر درد ؒ فرماتے ہیں،
جب نظر سے بہار گزرے ہے
جی پہ رفتار یار گزرے ہے
وہ زمانہ سے باہر اور مجھے
رات دن انتظار گزرے ہے
جس کے تو ہو کے سامنے گزرا
آپ سے بار بار گزرے ہے
نالۂ راز درؔد کا ہر ایک
چھوٹتے ، دل کے پار گزرے ہے
جس طرح موسم بہار اپنے ساتھ خوش بو ، تازگی اور مستی لاتا ہے یہی حال محبوب کے حسن اور مہک کا ہے۔ جس کا دن رات انتظار ہے ، اسے دیکھنے کے لئے دل بینا چاہئے ۔۔ دل بینا۔۔۔ اپنی نفی سے کھلتا ہے اور نفی کے بعد اثبات ہے۔ اے میرے محبوب! جس نے تجھے دیکھ لیا ، وہ تیرے حسن کا اسیر ہو گیا، روز زندگی سے گزرتا ہے ، روز مرتا اور روز جیتا ہے۔ جب اس کے دل سے آہ نکلتی ہے تو سننے والے کے دل پر اثر کرتی ہے۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے