Topics
جب
تک طرز ِ عمل اللہ کی سنت کے مطابق نہیں
ہوتا، روحانیت نہیں آتی۔۔ اس کے بعد قوانین روشن ہوتے ہیں۔ کوئی کتنی کتابیں پڑھ
لے، تھوڑا بہت لکھنا بولنا سیکھ لے لیکن اسرارِ الٰہی اس وقت کھلتے ہیں جب ذہن۔۔
ذہن سے ملتا ہے۔
علم سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ خود کو اس ہستی کے تابع کر دیا جائے جس کے
پاس علم ہے۔ تابع ہونا۔۔اپنی نفی اور ہستی کا اثبات ہے۔ اس کے بعد نفی کی ضرورت
رہتی ہے نہ اثبات کی۔ نفی مشکل مرحلہ ہے۔ مشکل حل کرنے سے آسان ہوتی ہے۔مرشد کریم
فرماتے ہیں کہ ” کام تو مشکل ہی کرنا چاہئے اور سب سے پہلے مشکل کام کرنا چاہیئے۔“
بیش تر ایسا ہوتا ہے کہ بہت مرتبہ سنی ہوئی بات، کسی گیت یا کلام کا مفہوم
اچانک واضح ہوتا ہے اور آدمی سوچ میں گم ہو جاتا ہے کہ اتنی مرتبہ سننے کے باوجود
سمجھا نہیں کہ کیا سن رہا ہے، کیا پڑھ رہا ہے۔ خیال آیا، یہی تو ”صم ”بکم“ “ ہے۔
اس
نے ہمیشہ اس لفظ کو ان لوگوں سے منسوب کیا جو دوسروں کا مال غصب کرتے ہیں ، حق دار
کا حق ادا نہیں کرتے، خیال میں ، گفتار میں ، کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرتے
ہیں۔ذہنی اور زبانی۔۔۔ غیبت میں مصروف رہتے ہیں، حسد اور قیاس آرائی کرتے ہیں،
جھوٹ بولتے ہیں، دوسروں کے لئے گڑھے کھودتے ہیں غرض ہر منفی عمل جس سے مخلوق کو
نقصان ہو یقیناً ”صم ”بکم“ “ ہے لیکن کبھی غور نہیں کیا کہ اپنا طرزِ عمل
کیا ہے۔ اس کا ذہن بھی تو بند ، کان سن اور آنکھیں اندھی ہیں۔ فریب کو منظر سمجھنا،
حقائق پڑھ کر مفہوم واضح نہ ہونا یہاں تک کہ بات سن کر بھی ذہن نہ کھلنا، حواس کا
مقید ہونا ہے۔
جب بات کھلتی ہے تو ایک طرف توفیق پر اللہ کا شکر اور دوسری طرف دل متوجہ
کرتا ہے کہ پہلے کیوں سمجھ نہیں آیا اس وقت ذہنی کیفیت کیا تھی؟ ذہن بند اور فہم و
فراست کا نہ ہونا اور ہونا کیا ہے؟استاد طریقت کا ممنون ہے کہ انہوں نے ترجمہ کے
ساتھ قرآن کریم پڑھنے کی ترغیب دی۔ عربی الفاظ کے معنی لغت میں ڈھونڈنا اور آیات
پر غور کرنا سکھایا۔ بتایا کہ جس شے پر غور کرنا ہے، اسے پورے قرآن میں تلاش کرو ،
اس کے بعد غور کرو گے تو اللہ کی رحمت سے صحیح مفہوم کھلے گا۔
جب سے حکم پر عمل کیا ہے، خواب اور بیداری میں اشارے ملتے ہیں۔ ضمیر کی
آواز اتنی واضح طور پر سنتا ہے کہ اپنی نفی اور اندر میں وجود باقاعدہ محسوس ہوتا
ہے۔
قرآن
کریم اللہ کی آواز ہے۔ اللہ کا کلام سمجھنے سے پہلے وہ اللہ سے مدد مانگتا ہے،
اپنی ناتوانی کا اظہار اور درخواست کرتا ہے کہ اس کا دل کھول دیں کہ وہ ” کتاب
المبین “ کے باطن سے واقف ہو۔ درود شریف پڑھتا ہے۔ حضور اکرم ؐ رحمتہ للعالمین
ہیں، آپ ؐ کے ذریعے عالمین میں وسائل
تقسیم ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں آپ ؐ کو ” سراجاً منیراً
“ کہا گیا ہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے :
” اے نبی ؐ ! ہم نے تمہیں بھیجا
ہے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا
کر۔اللہ کی اجازت سے اس کی طرف
دعوت دینے والا بنا کر اور روشن چراغ
بنا کر۔“ ( الاحزاب :
۴۵۔۴۶)
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ؐ نے فرمایا:
” اے جابر ! سب سے اول اللہ
تعالیٰ نے اپنے نور سے تیرے نبی کے نور کو پیدا کیا۔“
سیدنا حضور پاک ؐ چراغ ہیں اور چراغ میں
نور بھی۔ خیال آیا کہ منیراً اور نور ملتے جلتے الفاظ ہیں۔ راہ نمائی ہوئی کہ
منیرا ً کے بنیادی حروف ن ور ۔۔ نور ہیں اور اس کے ساتھ ہی ” اللہ نور السمٰوٰت
والارض “ کی آیت ذہن میں آئی۔
” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس
کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق
میں چراغ رکھا ہوا ہو، چراغ
ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے
موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا،
اور وہ چراغ زیتون کے ایسے مبارک درخت کے
تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ
شرقی ہو نہ غربی، جس کا تیل آپ ہی آپ
بھڑکتا
ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے، نور
پر نور۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے
راہ نمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں
کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔ اللہ ہر چیز سے
خوب واقف ہے۔“ ( النور : ۳۵)
لاشعور نے کہا ، اللہ نور السمٰوٰت والارض ۔۔ سراجاً منیراً کی تشریح ہے۔
آسمان و زمین ، ان میں مخلوقات کی بناوٹ اور وسائل نور کے ذریعہ تقسیم ہوتے ہیں
اور نور کا Source تجلی ہے۔
اس آیت میں کائنات کی ساخت (Structure) بیان ہوئی ہے۔ پڑھ کر ہر
بار نئی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن نگاہ ٹھہرتی نہیں کہ ذہن مفہوم کا احاطہ کر لے۔ ذہن اور خیال کی رفتار میں مطابقت نہ ہونے کی
وجہ سے وہ خیالات کو ترتیب نہیں دے پاتا۔ اس آیت میں بہت حقائق ہیں جن کا سمجھنا
باقی ہے۔ جیسے کہ مشکوٰۃ (طاق) کیا ہے، مصباح (چراغ) کس کو کہتے ہیں، زجاجہ (شیشہ
) کیا ہے، کوکب (چمکتاہوا تارا) سے کیا مراد ہے، زیتون کی خاص بات کیا ہے اور مشرق
و مغرب یہاں کن معنوں میں استعمال ہوا ہے۔یُضی کسے کہتے ہیں، نور اعلیٰ نور کا
مطلب کیا ہے اور کائنات کے اسٹرکچر میں طاق ، مصباح، زجاجہ اور کوکب کو اللہ
تعالیٰ کس کی مثال کے طور پر بیان فرما رہے ہیں۔۔۔؟
منتظر تھا کہ آیت میں مخفی نکات سمجھنے کے لئے اشارہ ملے۔ اللہ کی مہربانی
سے ذہن روشن ہوا اور یاد آیا کہ دوسال پہلے مرشد کریم نے اس آیت کے الفاظ انڈر
لائن کروائے اور فرمایا کہ سمجھنے کے لئےالفاظ کو نمبر وار ترتیب میں لکھو۔ شیخ
بتاتے گئے ، شاگرد لکھتا گیا۔
۱۔ اللہ
۲۔ نور
۳۔ آسمان
۴۔ زمین
۵۔ مثال یہ ہے کہ طاق
۶۔ طاق میں چراغ
۷۔ چراغ قندیل میں
۸۔ قندیل ایسی جیسے چمکتا ہوا ستارہ
۹۔ زیتون کا تیل ( زیتون کے تیل میں دھواں نہیں ہوتا)
۱۰۔ سمت مشرق نہ مغرب
۱۱۔ روشن ایسا جیسے بھڑکتی آگ
۱۲۔ تہ در تہ نور
۱۳۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اس کو ہدایت دیتا
ہے
۱۴۔ اور اللہ مثالیں دے کر فارمولے بیان
کرتا ہے
۱۵۔ اور اصل حقیقت کیا ہے۔۔۔ یہ اللہ
جانتا ہے
رحمٰن ورحیم ہستی سے مدد مانگ کر غور کرنا شروع کیا، الفاظ کے معانی لغت
میں تلاش کیے اور اس دوران جو خیالات آئے ، لکھ لیے۔
٭ مشکوٰۃ کے بنیادی حروف ش ک و ہے۔شکَوۃ ۔۔
مشک یا چمڑے کا تھیلا جو پانی یا دودھ رکھنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ المشکوٰۃ کے
معنی ہیں دیوار میں ایسا خلا جو آر پار نہ ہو۔ایک معنی طاق یا چراغ دان بھی ہیں۔
٭ مصباح کا مادہ ص ب ح ہے۔ لغت کے مطابق اس کے
معنی رنگوں میں سے ایک رنگ ہے۔
٭
زجا جہ کا مادہ ز ج ج ہے ۔ الز جا ج کانچ اور شیشہ سے بنی ہوئی چیزوں کو
کہتے ہیں۔ زجا جہ واحد ہے اور معنی شیشہ کی چمنی ، فانوس یا قندیل ہے۔
٭
زیتون کے تیل میں دھواں نہیں ہوتا۔ دھوئیں سے مراد ثقل ہے۔ ثقل محدودیت ہے
اور حدود کے تعین سے سمتیں ظاہر ہوتی ہیں۔
٭
یکادزیتھا یضی۔۔ لغت کے
مطابق ضوء (چمک ) کا لفظ نور سے زیادہ شدت اور قوت رکھتا ہے۔ ضوء کسی کی ذاتی
روشنی کو کہتے ہیں اور نور اس روشنی کو جو دوسرے سے اکتساب کی گئی ہو۔ اس کے معنی
روشن کرنا اور روشن ہونا کےبھی ہیں۔
نمبر
وار ترتیب کے مطابق آیت کو سمجھنا شروع کیا۔
رب
العالمین اللہ کائنات کا خالق ہے۔ حضرت محمد ؐ ۔۔۔ نور اور رحمتہ للعالمین
ہیں۔ وسائل آپ ؐ کے وسیلہ سے درجہ
بہ درجہ سماوات و ارض اور ان میں موجود مخلوقات میں تقسیم ہوتے ہیں۔ درجہ بہ درجہ
تقسیم سے ٹائم اور اسپیس ظاہر ہوتی ہے۔ ہر درجہ مکان اور اس میں حرکت کی رفتار
زمان ہے جب کہ جس ٹائم اور اسپیس میں کائنات ظاہر ہوئی وہ زمان حقیقی ہے۔
آسمان اور زمین
میں مخلوقات رہتی ہیں۔ جیسے ہمارے لئے آسمان ہے وہ اس میں رہنے والی مخلوق کے لئے
زمین ہے۔ اسی طرح ہر آسمان زمین اور زمین آسمان ہے۔ نیچے سے دیکھیں تو آسمان اور
اوپر دیکھیں تو زمین۔
دیکھنا۔۔ حواس
ہے۔۔ حواس کا ایک نام زمین اور دوسرا نام آسمان ہے۔ یہ دونوں ایک ہیں۔ چوں کہ ان
کے درمیان پردہ ہے اس لئے الگ محسوس ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے آیت میں کائنات کی ساخت کو مثال سے سمجھایا ہے یعنی مشکوٰۃ
(طاق) کائنات ہے۔ مشکوٰۃ خول ہے ایسا خلا جس میں روشنی داخل ہوتی ہے تو آر پار
نہیں ہوتی، آئینہ کی مانند عکس بنتا ہے۔ جس طرح شکوٰۃ میں پانی ڈالا جاتا ہے ،
کائنات کا خلا بھی پانی ہے اور خود پانی بھی خلا ہے اس لئے کہ ہر شے میں داخل ہو
جاتا ہے یا شے پانی میں جذب ہو جاتی ہے۔
کائنات ایسا طاق ہے جس میں ہر طرف پانی ہے اور پانی کا درجۂ حرارت مختلف
ہے۔
درجہ ”
مکان“ اور حرارت ”زمان“ ہے۔ حرارت توانائی ہے۔ ہر شے میں حرارت ہے اور حرارت کا
درجہ مختلف ہے۔ درجۂ حرارت کا مطلب توانائی کی مقداریں ہیں۔ چوں کہ کائنات میں ہر
شے مقداروں سے مرکب ہے اس لئے پانی بھی مقدار ہے۔کہیں برف بن جاتا ہے، کہیں بھاپ
اور کہیں مائع ہے، سر دو گرم ہوا اور ہوامیں نمی بھی پانی ہے۔ عالمین کا کوئی ذرّہ
پانی سے خالی نہیں۔ جسے ہم خشکی کہتے ہیں وہ بھی پانی ہے لیکن خشکی میں پانی کا
درجۂ حرارت مختلف ہے۔ مقداروں میں ردو بدل سے حالت تبدیل ہوتی ہے۔ پانی کیا ہے۔۔۔؟
صفات پر غور کیا تو تالاب کی تہ سے متعدد لہریں اٹھیں۔ اس نے نکات نوٹ کر لئے تا
کہ بعد میں تفصیلاً لکھ سکے۔
چراغ فانوس میں اور فانوس طاق میں ہے۔ چراغ جب منور ہوتا ہے تو اس کی روشنی
فانوس پر پڑتی ہے اور فانوس کا شیشہ چمکتے تارہ کی مانند ہو جاتا ہے۔ طاق کائنات
اور چراغ کائنات میں روشنی ہے۔ نظریہ آتا ہے کہ شیشہ روشن ہے لیکن شیشہ کی روشنی
چراغ کی وجہ سے ہے۔ شیشہ اسکرین ہے۔ چراغ میں جلنے والا تیل ایسے برکت والے درخت
سے ہے کہ تیل جلنے سے دھواں نہیں نکلتا۔ دھواں نہ ہونے سے سمتیں ظاہر نہیں ہوتیں
یعنی پوری کائنات نور ہے۔
ابدال ِ حق قلندر بابا
ؒ نے اسے ” عارض “
فرمایا ہے۔ سائنس فوٹان کہتی ہے لیکن فوٹان سے عارض کی وضاحت نہیں ہوتی۔ مرشد کریم
نے سمجھایا تھا کہ عارض بیک وقت ساری کائنات کا چکر لگا لیتا ہے۔۔۔ زمین کا
نہیں۔۔۔ کائنات کا ۔۔۔ زمین کا کردار سب دخان ہے۔ آسمان اور زمین پہلے یک جا تھے۔
دخان داخل ہوا تو الگ ہوئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،
”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا
جو اس وقت محض دخان تھا۔ اس نے
دخان سے کہا، داخل ہو جا زمین میں
خوشی سے یا زبردستی ۔ اس نے کہا،
میں داخل ہوا فرماں بردار ہو کر۔“ (حمٰ السجدہ : ۱۱ )
اس
نے یہ سمجھا کہ دخان سے انفرادیت ظاہر ہوتی ہے اور انفرادیت میں محدودیت ہے۔ جیسے
باہم ملے ہوئے آسمان اور زمین کا الگ الگ ہونا۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ کسی شے میں سے ثقل
ختم کر دیا جائے تو وہ تحلیل ہو جاتی ہے۔
مشرق کی طرف نہ مغرب کی طرف ۔۔۔ مرشد کریم نے فرمایا کہ ” مشرق اور مغرب کا
مطلب لندن کراچی نہیں ہے۔۔ مقداریں ہیں۔“ لغت میں مغرب غروب ہونے اور مشرق سورج
طلوع ہونے کی جگہ کو کہا گیا ہے۔ اس نے یہ سمجھا کہ جب غروب ہونے کی مقداریں غالب
ہوتی ہیں تو شے غروب ہو جاتی ہے، یہی کام طلوع کی مقداروں کا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ
جسے ہم طلوع ہونا کہتے ہیں وہ کہیں پر غروب ہے اور یہاں غروب ہونا کہیں پر طلوع
ہے۔ پھر طلوع اور غروب کیا ہے۔۔؟
زمان و مکان مقداریں ہیں اور آیت کے حصہ میں سمتوں یعنی مقداروں کی نفی ہے۔
حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
خرد ہوئی ہے زمان و مکان کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں ، لا الٰہ الا اللہ
روشن ایسا جیسے بھڑکتی
آگ ۔۔ اس نے یہ سمجھا کہ یہاں جوش ، ابال ، بلبلے ، نت نئےمظاہرات کا ذکر ہے اور ہر مظاہرہ منفرد ہے۔۔۔
کل یوم ھو فی شان۔
تہہ
در تہہ روشنی ۔۔۔ یہاں پر روشنی کے خواص، اقسام اور فارمولے بیان کئے گئے ہیں۔
ذہن میں کئی سوالات تھے۔ مرشد کریم کے پاس جانے سے پہلے جو
لکھا تھا ایک بار اسے پڑھا۔ اپنا لکھا ہوا پڑھتے ہوئے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے
کہ کسی اور کا لکھا ہوا پڑھ رہا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ کریم مرشد سےعرض
کیا۔۔حضور ! آیت سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن محسوس ہوتا ہے کہ جو سمجھا وہ
سرسری براہ کرم راہ نمائی کیجئے۔
عائشہ خان عظیمی
حضور قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں
بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے
استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتے