Topics
میں
سوچتا مرشد کی فکر کی مثال بھی ایسی ہی ہے ۔ جو میری ذات کی کائنات میں ازل سے ابد
تک ۔ مشرق سے مغرب تک۔ شمال سے جنوب تک پھیلا ہوا ہے اور ہر وقت پھل دے رہا ہے۔ اس
کا پھل اس فکر کے علوم ہیں ۔ فکر جب طیب یعنی پاک ہوتی ہے تو لا محدودیت کو پا لیتی
ہے۔ پاکی اللہ تعالی کی سبحانیت ہے۔ سبحانیت لا محدودیت ہے پس پاک فکر کا بیج لا
محدودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور لامحدودیت اللہ کا نور ہے۔ پس اس بیج کے
پھلنے پھولنے میں نور اور اس کی نگہداشت کرنے سے اچھا پھل آتا ہے اسی طرح اچھی
فکر بھی انسان کے اندر روح کی توانائی پیدا کرتی ہے جبکہ غلط انسان کے اندر خراب
روشنیاں یا ایسی توانائی بھر دیتی ہے جو
انسان کی ذات کو نقصان پہنچاتی ہے۔ مجھے محسوس ہوا مرشد میری روح کی توانائی ہے۔
تنہائی میں مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے مرشد میری ذات سے اس قدر قریب ہے کہ اس کی
سانسیں میری سانسوں میں داخل ہو رہی ہیں ۔ یہ ایک سرکل چل رہا ہے۔ میں سوچتا ۔ میری
ہر سانس مرشد کی بخشش ہے۔ وہ سخی ہے ۔ میں اس کی عطا کا محتاج ہوں۔ میری حیات، میری
ممات، میرا ایثار سب کچھ مرشد کے لئے ہے۔ میرے ذہن میں قرآن کی یہ آیت ابھرتی۔
ترجمہ:
’’ بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا
اور میرا مرنا اللہ کے لئے ہے جو رب ہے، سارے جہانوں کا‘‘۔ (سورۃ انعام ۱۶۲)
آج
مجھے محسوس ہوا بندگی کے راستے پر مرشد کی ذات وہ پہلا دروازہ ہے جو اس عالم میں
کھلتا ہے ۔ میرا جی چاہا میں اس در کی چوکھٹ بن جائوں کہ مرشد کے قدم ہر بار اس
چوکھٹ سے گزرتے رہیں۔ آج میرا عشق مجھے اس مقام پر لے آیا ہے جہاں ساری کائنات کی
محبتیں مرشد کے نقطے میں جذب ہو گئی ہیں۔ نریما کی محبت۔ دادی اماں کی محبت، ماں کی
محبت، باپ کی محبت، بہن کی محبت میرے ذہن میں تیزی سے سارے خاندان کے ہر ہر فرد
آتے رہے۔ یوں لگتا جیسے تمام افراد میرے سازِ محبت کے بکھرے تار ہیں۔ سازِ محبت میرا
دل ہے اور یہ سارے تار دل کے مرکز میں آکر ایک جگہ پیوست ہو گئے ہیں۔ اب اس مرکز
دل سے نغمے جاری ہیں۔ دل کے ہر نغمے کا محور مرشد کی ذات ہے۔ مرشد میرا دل ہے، میری
جان ہے، جس کی دھڑکن میرا نغمہ حیات ہے۔ میرا دل کہہ اُٹھا۔
محبت کے لئے کچھ خاص دل مخصوص ہوتے ہیں
یہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گایا نہیں جاتا
ذہن
و دل کی اس تمام وابستگی کے باوجود میں برابر دفتر بھی جا رہا تھا۔ گھر کے بھی سب
کام درست ہو رہے تھے۔ البتہ ہر بات جب منہ سے الفاظ بن کر نکلتی تو یوں لگتا جیسے یہ
الفاظ بڑی گہرائی سے نکل رہے ہیں اور ان الفاظ میں وزن تھا کہ انہیں سننے والا
متاثر ہوتا تھا۔ شیخ احمد کو گئے ہوئے تین ہفتے گزر گئے۔ ایک دن شام کو خیال آیا
نہ جانے مرشد کو میری اس حالت کی خبر ہے یا نہیں۔ دراصل عشق جب اپنی انتہا کو پہنچ
جاتا ہے تو محبوب سے قربت چاہتا ہے۔ عشق کی معراج وصال ہے ۔ یعنی عشق ذات کی کشش
ہے۔ یہ کشش عشق بن کر ذات سے قریب کرتی رہتی ہے۔ جب عاشق اپنے محبوب سے قریب تر
پہنچ جاتا ہے تو اسے اس منزل کو چھو لینے کی خواہش ہوتی ہے۔ مرکز تخیل کو تمام
حواس کا چھو لینا ہی معراج ہے۔ روح کی تڑپ نے جسمانی حواس کو مرتعش کر دیا۔ کون
جانتا ہے مرشد کو میرے حال کی خبر ہے یا نہیں۔ اسی وقت فون کی گھنٹی بجی۔ آواز
آئی۔ سلمان بیٹے ٹھیک تو ہونا۔ میں تمہارے ہر حال سے باخبر ہوں۔ میری توجہ ہر دم
تمہاری جانب ہے۔ بہت جلد آنے والا ہوں۔ میری زبان گنگ ہو گئی۔ قوت سماعت کے ذریعے
مرشد کے الفاظ کی لہریں میرے ناتواں حواس کو تقویت پہنچانے لگیں۔ میں نے آہستہ آہستہ
گہری سانسیں لیں۔ جیسے مردہ جسم میں زندگی آگئی ہو۔ بڑی مشکل سے صرف اتنا کہہ
سکا۔ بس آپ جلدی آجائیے۔ آپ کی بے حد یاد آتی ہے۔ روح کی آواز خاموشی کی زبان
میں اندر اندر کہہ رہی تھی۔
ابرِ
باراں ذرا اک قطرہ شبنم دے دے
دل جلا
جاتا ہے تو دیدہ پرنم
دے دے
رحمتیں آج مرے درد کا درماں بن جائیں
دل کے ہر زخم کو دیدار کا مرہم دے دے
دوسرے
دن شام کو میں اپنی اس حالت پر غور کرنے لگا کہ روحانیت کے راستے پر محبت اور عشق
کا اتنا دخل کیوں ہے۔ میرا ذہن بچپن کے دور میں جھانکنے لگا۔ اس پورے دور میں مجھے
دادی اماں کی ذات وہ ہستی نظر آئیں جن کے ساتھ میری ذہنی اور قلبی وابستگی اسی
انداز میں رہی جیسی آج مرشد کے ساتھ ہے۔ میں نے سوچا بچے کی تو ہر حرکت فطری
تقاضے کے زیرِ اثر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے جانے کا تقاضہ اور چاہنے کا دونوں
تقاضے انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ انسان اپنی زندگی کی عمارت اسی
بنیاد پر کھڑی کرتا ہے۔ وہ چاہے جانے کا اور چاہنے کا تقاضہ تمام عمر پورا کرتا
رہتا ہے۔ مگر اس تقاضے کی تکمیل کے دو رخ
ہیں۔ ایک رخ میں اس کی محبت کا محور اللہ کی ذات ہوتی ہے۔جہاں اللہ کی ذات مرکزیت
بن جاتی ہے وہاں حواس لامحدودیت کو محسوس کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حواس کی ہر کیفیت
شدید اور گہری ہو جاتی ہے۔
چار
پانچ دنوں میں نریما بھی آ گئی اور اس کے دو دن بعد شیخ احمد بھی آگئے۔ اب میرا
دل شدت سے یہ چاہنے لگا کہ میں تنہائی میں انھیں اپنی کیفیت سے آگاہ کروں۔ مجھے یوں
لگتا تھا کہ مجھے اپنی کیفیات اور مرشد کے ساتھ اس حد تک وابستگی کے متعلق کسی سے
ذکر نہیں کرنا چاہیئے۔ کیونکہ ہر شخص حواس کی اس گہرائی سے واقف نہیں ہے ۔ جس کی بناء
پر وہ اسے صحیح معنی نہیں پہنا سکتا۔ صرف مرشد کی ذات اس گہرائی کو جانتی ہے۔ میرے
ذہن میں دریا میں ڈوبنے کا تصور آ گیا۔ جب دادی اماں رنگین دریا میں ڈوبنے کا ذکر
کرتی تھیں۔ میں سوچنے لگا میں مرشد کی ذات کے دریا میں تہہ تک ڈوب چکا ہوں۔ جس طرح
پانی کے اندر ڈوبنے سے حواس پر دبائو پڑتا ہے۔ اسی طرح ذات کی مرکزیت میں فنا ہونے
سے بھی غالب آنے والی ہستی کے دبائو کو محسوس کیا جاتا ہے۔
دوسرے دن رات کو میں شیخ احمد کے پاس گیا۔ وہ
تنہا تھے۔ میں نے جاتے ہی ان کے قدم چوم لیے۔ یہ سب کچھ ایک والہانہ جذبہ تھا۔میں
ان کے قدموں میں بیٹھ گیا۔ ہو کہتے رہے کہ صوفے پر بیٹھ جائو۔ مگر میں نے ان کے
گھٹنوں پر اپنا سر ٹیک دیا۔ بابا جی مجھے یہیں رہنے دیں۔ پھر میں نے آہستہ آہستہ
اپنی ساری کیفیت انھیں بتائی۔ میرے مرشد ! مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میری ذات آپ کی
ذات میں فنا ہو رہی ہے۔ ان کے چہرے پر خوشی کی جھلکیاں تھیں۔ بولے۔ بیٹے روحانیت میں
یہ منزل بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ فنا فی الشیخ کے درجے میںمرید جو کچھ محسوس کرتا ہے
وہ تم جان چکے ہو۔مگر اس کی علمی توجہیہ ابھی تمہارا ذہن نہیں سمجھ پایا ہے۔ بیٹے،
انسان کادل ایک آئینہ ہے۔ اس آئینے میں لوحِ محفوظ کے نوری تمثلات عکس ریز ہوتے
رہتے ہیں۔ فنا فی الشیخ کے درجے میں مرید کا آئینہ مرشد کے دل کے آئینے کے مقابل
آ جاتا ہے۔ نگاہ کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنی سیدھ میں دیکھتی ہے۔ یعنی سامنے دیکھتی
ہے۔ جب مرید کے دل کا آئینہ مرشد کے دل کے مقابل آ جاتا ہے۔ تو وہ اپنے دل میں
عکس ریز نوری تمثلات کو مرشد کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ یعنی مرید کے آئینے کا عکس
اپنے بالمقابل آئینے میں پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ مرشد کے آئینے میں اپنی ذات کو دیکھتا
ہے۔ چونکہ آئینہ مرشد کا دل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرید مرشد کی ذات کے اندر اپنے آپ
کو دیکھتا ہے۔ نظر جیسے جیسے آئینے کی گہرائی پر پڑتی جاتی ہے۔ نظر کی گہرائی نظر
کا آئینے پر ٹھہر جانا ہے۔ جب تک نظر آئینے پر ٹھہری رہتی ہے۔ نظر کی روشنی آئینے
کی سطح سے ٹکرا کر دیکھنے والے کے احساس میں جذب ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
احساس گہرا ہو جاتا ہے۔ احساس گہرا ہونے پر مرید کی نظر آئینے کی گہرائی میں عکس
کو دیکھتی ہے اور گہرائی کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ کی ذات میں فنا ہوتا
جا رہا ہے۔ دل مرکز ہے اور ہر شے کے مرکز میں تجلی کا اک نقطہ ہے۔ جسے نقطۂ ذات
کہتے ہیں۔ آئینے کے بالمقابل آجانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک نقطۂ ذات کی روشنی
دوسرے نقطۂ ذات میں جذب ہو رہی ہے۔
چنانچہ فنا فی الشیخ کے درجہ میں شیخ کے نقطۂ ذات میں مرید کے نقطۂ ذات کی روشنیاں
جذب ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ روشنیوں کے جذب ہونے کی کیفیات کو فنائیت کا
نام دیتا ہے۔ تجلیٔ ذات کا نقطہ ذات باری تعالیٰ کی تجلی ہے۔ اس تجلی کا ذاتی تفکر
وحدانیت ہے۔ وحدانیت ذاتِ خداوندی کی صفت ہے۔ روحانیت میں مرشد کی ذات اللہ تعالیٰ
کا نائب بن کر کام کرتی ہے۔جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے۔ اور
اپنے بندوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے تا کہ اس کی ذات سے آرام پائیں۔ اسی طرح مرشد
کی تجلی ذات کے نقطے کی روشنیاں مقناطیسی قوت رکھتی ہیں۔ اس مقناطیسی قوت کی گرفت
میں جب کوئی مرید آ جاتا ہے تو وہ شیخ کی
ذات سے قریب ہو جاتا ہے۔ مگر یہ ساری کیفیات روشنیوں کے جذب کرنے سے پیدا ہوتی ہیں۔
اس کا عمل داخلی طور پر ہوتا ہے۔ جب باطن کی روشنیوں میں تبدیلی آ جاتی ہے تو
ظاہر میں بھی آجاتی ہے۔ جو تبدیلی باطن سے ظاہر میں آتی ہے وہ دائمی ہے اور جو
تبدیلی ظاہر سے باطن میں اثر کرتی ہے وہ عارضی ہے۔ مرشد کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ
مرید پر اپنا تصرف کر کے اس کے داخل کی روشنیوں میں تبدیلی پیدا کر دے۔ تا کہ مرید
کی طرزِ فکر مرشد کی طرزِ فکر جیسی بن جائے۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء