Topics
اس
واقعہ سے خاندان کے افراد کے علاوہ محلے پڑوس میں بھی روحانی صلاحیتوں کا چرچا
ہونے لگا اور بہت سے لوگوں نے ان علوم کو جاننے کی خواہش ظاہر کی اسی دوران ایک
محفل میں شیخ احمد نے مجھے پھولوں کے ہار پہنا کر اور خوشبو لگا کر سب کے سامنے
باقاعدہ طور پر میرے خلافت و نیابت کا اعلان کیا۔
اسی
رات میں نے دادی اماں کو خواب میں دیکھا وہ ایک بہت بڑی تقریب میں شامل ہیں اور
بادشاہوں اور لارڈ کی طرح بہت ہی عظیم الشان دسترخوان لگا ہے۔ میزیں انواع و اقسام
کے کھانوں سے پُر ہیں۔ دادی اماں کا چہرہ گلنار ہو رہا ہے۔ وہ ہنس ہنس کر سب لوگوں
سے باتیں کر رہی ہیں۔ میں وہاں جاتا ہوں مجھے دیکھتے ہی دادی اماں خوشی سے چلا پڑیں۔
ارے سلمان بیٹے آئو! آج ہم تمہاری خوشی میں دعوت کھا رہے ہیں۔ سب لوگوں نے شیشے
کے بلوریں گلاس شربت سے بھرے اور ایک دوسرے کے گلاسوں سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے وش(Wish)
کیا۔ دادی اماں نے اپنے ہاتھ سے مٹھائی میرے منہ میں ڈالی۔ ان کی خوشی کا کوئی
ٹھکانہ نہ تھا خواب سے جاگا تو خیال آیا کہ دادی اماں بچپن کی طرح آج بھی میرے
شب و روز سے اسی طرح کنسرن(Concern) ہیں جس طرح پہلے تھیں۔ اس وقت مجھے تین چار سال پہلے کی واردات یاد
آ گئی جس میں میں نے یہ تمام سین دیکھ لئے تھے اور یہ دیکھا تھا کہ حضور پاک صلی
اللہ علیہ و سلم کے دربار میں شیخ احمد نے مجھے پیش کیا اور آپ نے مجھے خلافت سے
نوازا۔ میں نے سوچا واردات میں کشف و الہام میں جو کچھ نظر دیکھتی ہے وہ غیب کی
خبریں ہیں جس میں زمان و مکان کی روشنی کا عالم ہے۔ اس روشنی کے عالم سے واقعات
مادی عالم تک پہنچتے ہیں تب شعور ان سے واقف ہوتا ہے۔ روشنی کے عالم میں اور مادی
عالم کے ٹائم میں فرق ہے۔ عالم روشنی میں وقت کی رفتار تیز ہے اور مادی عالم میں
بہت آہستہ۔ یہی وجہ ہے کہ روحانیت کے راستے پر آدمی اللہ کے امر کی حرکت کا
مشاہدہ کر لیتا ہے۔ اس کے علم سے واقف ہو جاتا ہے۔ مگر یہ علم اس کے احساس و شعور
میں داخل ہوتے ہوتے عرصہ لگ جاتا ہے۔ جیسے اللہ پاک نے فرمایا ہم نے ایک مبارک رات
میں قرآن کو نازل فرمایا۔ یہ برکت والی رات لاشعور کا وہ لمحہ ہے جب شعور کو اس
بات کی اطلاع ملی اور شعور نے جان لیا کہ قرآن نازل کیا گیا ہے۔ قرآن کی تعلیمات
کیا ہیں ان کے مفّضل علوم شعور پر کھلتے کھلتے تیس برس لگ گئے جو حضور پاک صلی
اللہ علیہ و سلم کا وحی کا زمانہ ہے۔
ایک
دن نریمانے خوشخبری سنائی راحیلہ امید سے ہے۔ ابھی تو شروع ہے اللہ خیریت سے نیک و
تندرست اولاد دے۔ دو تین ہفتے بعد ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں چارپائی
پر لیٹا ہوا ہوں۔ اتنے میں خیال آتا ہے کہ راحیلہ کا بچہ کہاں ہے۔ میں اسے
ڈھونڈنے کے لئے اٹھ کر بیٹھ جاتا ہوں۔ پہلے چارپائی پر دیکھتا ہوں نہیں ہوتا، پھر
اٹھ کر کمرے کا ہر کونہ دیکھتا ہوں وہ نہیں ملتا۔ اب میں پریشان ہو جاتا ہوں اور
اسے آوازیں دینے لگتا ہوں۔ شہزادے تم کہاں ہو۔ تھوڑی دیر آوازیں دینے اور ادھر
ادھر ڈھونڈنے کے بعد بچے کی باریک سی آواز آتی ہے۔ جیسے کہیں دور سے آ رہی ہے
وہ کہتا ہے میرا نام شہزادہ ہے۔ میں پلنگ کے نیچے چھپا ہوں مجھے پلنگ کے نیچے
ڈھونڈیں۔ میں گھبرا جاتا ہوں کہ ذرا سا بچہ پلنگ کے نیچے کیسے گر گیا چوٹ نہ آئی
ہو۔ میں گھبرا کے چارپائی کے نیچے دیکھتا ہوں تو وہ ایک طرف کو پڑا ہوا ہے میں اسے
وہاں سے نکالتا ہوں اس وقت آنکھ کھلی تو الہامی کیفیت طاری ہو گئی۔ جس میں بتایا
گیا کہ راحیلہ کے کیس میں ماں یا بچے کی جان کو خطرہ ہے۔ بہت سی احتیاطیں بتائیں۔
کچھ صدقہ کرنے کو کہا گیا۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر بڑا پریشان سا ہوا دعائیں مانگیں
کہ اللہ پاک سب کچھ خیریت رکھے۔ نریما کو بتایا نریما نے چچی کو ساری بات بتائی چچی
بھی ذرا فکر مند ہو گئیں۔ مشکل یہ تھی کہ راحیلہ کا میاں ان باتوں پر کچھ زیادہ یقین
نہیں رکھتا تھا مگر راحیلہ کی ساس روحانیت پر یقین رکھتی تھی۔ ویسے بھی جب جان کی
بات آتی ہے تو آدمی احتیاط کرتا ہی ہے۔ اس نے صدقہ دے دیا میں یہی دعا کرتا کہ
راحیلہ اور بچہ دونوں ٹھیک ٹھاک ہیں۔
چھٹے
مہینے پھر اسی قسم کے خطرے کا خواب دیکھا بڑی دعا کی کہ اگر جان کا خطرہ ہے تو راحیلہ
کی زندگی بچا لینا۔ اس کو بعد میں اور بچہ ہو جائے گا۔ ویسے بظاہر اس کی صحت بالکل
ٹھیک ٹھاک تھی۔ ویسے بھی اس کا میاں اچھا بڑا بزنس مین تھا۔ گھر میں کسی چیز کی کمی
نہ تھی۔ اب دوسری مرتبہ جب میں نے ایسا خواب دیکھا تو میں نے کسی کو نہیں بتایا کہ
خواہ مخواہ پریشان ہوں گے۔ بس نریما سے کہہ دیا کہ راحیلہ کی طرف دھیان رکھنا۔ اس
سے اس کی صحت کے متعلق پتہ کرتی رہنا۔ راحیلہ کا نواں مہینہ شروع ہو گیا تھا۔ چچی
نے اسے کہا تھا کہ ڈلیوری ڈیٹ سے دن پندہ دن پہلے گھر آ جانا ویسے بھی وہ ہر ہفتے
ملنے آتی تھی۔ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ جس کی وجہ سے سب مطمئن تھے۔ بکرے کا صدقہ دے
کر اور بھی اطمینان ہو گیا تھا۔
اتنے
میں ایک رات کو چار بجے کے قریب فون آیا۔ اس کا میاں فون پر تھا راحیلہ کی اچانک
طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اسپتال لے گئے ہیں۔ اس وقت چچی اور امی دونوں کو ساتھ لے
کر میں اسپتال پہنچا ہم باہر بیٹھے رہے۔ راحیلہ کو خاص کمرے میں لے جایا گیا تھا
وہاں صرف اس کا شوہر اس کے پاس تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ بھی باہر آ گیا۔ اس نے
بتایا کہ راحیلہ کے پیٹ میں بچہ فوت ہو چکا ہے۔ اسے ڈلیوری کے لئے لے گئے ہیں۔ کیس کافی خراب تھا۔ آٹھ پونڈ وزن کا لڑکا
بالکل ٹھیک ٹھاک لگتا تھا مگر نہ جانے کیسے فوت ہو گیا۔ راحیلہ کی طبیعت بہت خراب
رہی مگر پھر اللہ پاک نے اس کی جان بچا لی۔ دو (۲) دن تک بڑی پریشانی رہی۔ اسپتال سے ہم راحیلہ کو اپنے گھر لے آئے۔ بچے کا
پیٹ میں فوت ہو جانا ایک معما ہو گیا۔ نہ ڈاکٹروں کو کچھ خرابی نظر آئی نہ راحیلہ
کی کوئی بد احتیاطی یا کسی قسم کا کوئی حادثہ ایسا ہوا کہ جس سے بچے پر اثر پڑا ہو
بالآخر سب ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ قدرت کو یہی منظور تھا اور اس نے پہلے ہی اس
بات کی اطلاع دے دی تھی۔
اب
میں نے گھر والوں سے دوسری مرتبہ کے خواب کا ذکر بھی کر دیا کہ آپ لوگوں کی پریشانی
کی وجہ سے میں نے نہیں بتایا تھا۔ چچی کہنے لگیں۔ سلمان جب خواب میں ایک حادثے کا
علم ہو گیا تو کیا یہ حادثہ روکا نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا کہ خواب یا کشف میں جو
بات دیکھی جاتی ہے وہ دراصل ٹائم کے اندر دیکھی جاتی ہے یعنی روشنی میں جیسے پروجیکٹر
سے چلنے والی روشنی کے اندر فلم کی تمام تصاویر ہوتی ہیں۔ یہی روشنی جب اسکرین پر
ٹھہرتی ہے تو تصاویر کو آنکھ دیکھ لیتی ہے۔ ٹائم یا روشنی کے اندر جو کچھ دکھائی
دیتا ہے وہ ایک قدم نیچے اتر کر مظہر بن جاتا ہے۔ یعنی اسکرین پر ڈسپلے ہو جاتا
ہے۔ یہ روکا نہیں جا سکتا۔ البتہ اس کی حرکت میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ اس کی مثال
یوں ہے کہ آپ اوپر دیکھتے ہیں کہ آپ کے سر کے اوپر ایک گیند آ رہی ہے۔ گیند کو
تو آپ روک نہیں سکتے وہ ہر صورت میں آپ کے پاس آئے گی ہی البتہ آپ خود کو
بچائو کے لئے اس کی زد سے دور ہو جائیں گے تا کہ چوٹ سے محفوظ رہیں۔ اگر آپ نے گیند
کو نہیں دیکھا تو وہ آپ پر آ گرے گی اور چوٹ لگ جائے گی۔ اس طرح حرکت کی لہروں میں
تبدیلی آنے سے حفاظت ہو سکتی ہے۔ خواب یا کشف میں اطلاع کے ساتھ ساتھ حادثے سے
محفوظ رہنے کا کوئی علاج بھی آدمی دیکھ لیتا ہے۔ اس علاج کا مطلب بھی حرکت کی
لہروں میں تبدیلی ہے۔ جیسے راحیلہ کے لئے بکرے کی قربانی کا عمل تھا۔ ارادے کے
ساتھ عمل کی یا حرکت کی لہریں رونما ہونے والے واقعے کی اسپیڈ میں تبدیلی کر دیتی
ہیں وہ اس طرح کہ مادی حواس کی رفتار جتنی زیادہ سست ہوتی ہے اتنا ہی شعور پر
دبائو پڑتا ہے اور خیال کی روشنی مادی حواس کے دائروں میں آ کر رک جاتی ہے۔ حرکت
کا رک جانا یا سست پڑ جانا خرابی ہے۔ جب ارادے کے ساتھ وہ خاص عمل کیا جاتا ہے تو
اس کی حرکت کی لہریں حواس کے دائروں میں داخل ہو کر روشنی کے بہائو کو نارمل کر دیتی
ہیں۔
میں
نے چچی سے کہا۔ چچی اللہ پاک کا شکر کیجئے کہ راحیلہ کی جان بچ گئی۔ وہ ٹھیک ٹھاک
ہے یہ صدقے کی برکت ہے۔ اللہ پاک تو اس طرح عملی تجربوں سے اپنے بندوں کو اپنے
علوم سکھاتا ہے۔ چچی کہنے لگیں سلمان تم تو واقعی بڑی عقلمندی کی باتیں کرتے ہو۔
اللہ نے تمہیں حکمت بخشی ہے۔ ایک کام تو تم کو کرنا ہی ہو گا۔ میں نے کہا کیا کام
چچی۔ کہنے لگیں پچھلے ہفتے میری ایک بڑی اچھی دوست کی بیٹی کی بیماری کا مجھے پتہ
چلا ہے میری سہیلی نے بتایا کہ اس کی بیٹی چھ ماہ سے بیمار ہے۔ اس بیماری میں اس
کا کالج بھی چھوٹ گیا ہے۔ ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کا پتہ نہیں چل رہا۔ اصل میں اس
کا گھر بہت دور ہے پہلے وہ قریب رہتی تھی تو میں ہر دوسرے ہفتے اس کے پاس چلی جاتی
تھی۔ وہ بھی آ جاتی تھی۔ اب گزشتہ سال سے انہوں نے ملیر کالونی میں اپنا گھر بنا
لیا ہے۔ جب سے بس میں ہی ایک بار اس کے گھر گئی ہوں وہ بھی نہیں آئی۔ اب اس کی بیٹی
کی بیماری کی خبر سن کر فکر ہو رہی ہے۔ راحیلہ کی وجہ سے جا نہ سکی۔ اب اس کو دیکھنے
جائوں گی کسی وقت ۔میں نے کہاآپ اسے کل ہی دیکھ آئیں تا کہ صحیح صورتحال کا پتہ
لگ جائے۔
دوسرے
دن شام کو آفس سے گھر آیا تو چچی گھر پر نہیں تھیں۔ رات کو آئیں کہنے لگیں
سلمان اس کی بچی کی تو شکل ہی پہچانی نہیں جاتی۔ اس قدر خوبصورت اور تندرست ہوا
کرتی تھی۔ ماشاء اللہ انیس سال کی جوان لڑکی ہے۔ بس ہڈیاں اور چمڑا رہ گیا ہے۔
چہرے پر جھائیاں پڑ گئی ہیں۔ ریڑھ کی ہڈی گول ہو کر کبھ نکل آیا ہے۔ میری سہیلی
تو بہت روتی تھی کہ چھ ماہ میں یہ حال ہو گیا ہے۔ ایک سے ایک ڈاکٹر کو دکھا چکی
ہوں۔ ایکسرے کرا چکی ہوں۔ کچھ پتہ نہیں لگ رہا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں۔
سلمان تمہیں اس کو دیکھنا ہی ہو گا۔ شاید تمہیں کچھ پتہ لگ جائے۔ میں نے کہا ٹھیک
ہے چچی کل رات کو چلے چلیں گے۔ کھانا ذرا جلدی کھا کے نکل جائیں گے۔ پہلے میں دیکھ
لوں۔ اگر ضرورت پڑی تو شیخ احمد کو بھی دکھا لیں گے۔ دوسرے دن شام کو دفتر سے آتے
ہی ہم نے کھانا کھایا اور ملیر کے لئے روانہ ہو گئے۔ وہاں جا کر دیکھا تو واقعی اس
لڑکی کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ چچی نے بالکل صحیح نقشہ کھینچا تھا۔ اس کی ماں بچی
کی حالت دیکھ دیکھ کر خود زندہ درگور ہو رہی تھی۔ میں نے اسے دم وغیرہ کیا اور کچھ
روحانی علاج بتائے اور تسلی دے کر چلا آیا۔ دل میں سوچنے لگا کل ضرور شیخ احمد سے
اس لڑکی کا تذکرہ کروں گا۔ رات نیند آنے تک اس لڑکی کی تصویر آنکھوں میں پھرتی
رہی۔ دعا کرتا رہا اس کی ماں کا سوگوار چہرہ بھی بار بار سامنے آ جاتا۔ میں نے
سوتے وقت بڑے صدق دل سے دعا مانگی۔ رات کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ چچی کے ساتھ اس
کے گھر گیا ہوں اور لڑکی کی ماں سے کہتا ہوں کہ مجھے خواب کے ذریعے اشارہ ہوا ہے
کہ آپ اپنی بیٹی کے لئے یہ عمل کریں۔ یہ عمل منگل اور ہفتے والے دن کرنا ہے۔
صبح
اٹھ کر میں نے چچی سے کہا کہ میں نے خواب میں کچھ عمل دیکھا ہے۔ آج شام کو ان کے
گھر جا کر بتا آئیں گے۔ ہم شام کو ان کے گھر گئے ان کی والدہ کو بتایا۔ دوسرے دن
ہفتے کا دن تھا۔ وہ کہنے لگیں۔ سلمان اگر تم آ جائو تو اپنے سامنے کرا دو۔ مجھ سے
کہیں غلطی نہ ہو جائے ہفتہ اتوار میری چھٹی بھی تھی۔ میں نے کہا خالہ میں آ جائوں
گا۔ آپ فکر نہیں کریں۔ میں گیارہ بجے ان کے گھر چچی کے ساتھ چلا گیا۔ وہ سارا عمل
خواب کا پورا کر دیا۔ تیسرے دن ان کا فون آیا کہ دوسرے دن ڈاکٹر نے اسپتال میں
خود ہی بلایا اور کہا کہ ان کی بیماری کا ہمیں پتہ چل گیا ہے۔ یہ دوا تین ماہ
استعمال کرنے سے ٹھیک ہو جائیں گی۔ تیسرے دن سے دوا شروع کی گئی۔
پندرہ
دن بعد ہم ان کے گھر گئے تو لڑکی کی شکل ہی بدلی ہوئی تھی۔ بہت تیزی سے رو بہ صحت
تھی۔ وہ سب بہت دعائیں دینے لگے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ شیخ احمد سے اس
واقعہ کا تذکرہ کیا۔ وہ فرمانے لگے۔ اللہ پاک نے ہر شے کو مقداروں میں بنایا ہے۔
ہر شے روشنی کی مخصوص اور معین مقداروں سے بنی ہے اور ہر شے کی حرکت بھی لہروں کی
مخصوص مقداریں ہیں۔ شے کے اندر جاری و ساری حرکت کی لہروں میں تبدیلی کرنے کے لئے
لہروں کی اس مخصوص فریکونسی کے اندر انسان کے ارادے کو متحرک کر دیتا ہے۔ پھر
ارادے کے ساتھ آدمی اس کی حرکت میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ وظائف اور تعویذ وغیرہ بھی
اسی بنیاد پر اثر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیت یا اسم روشنی و نور کی مخصوص فریکونسی
ہے۔ تعویذ کے اندر موجود روشنیوں کی مقداریں مریض کے اندر داخل ہو کر مرض کی حرکت
کی لہروں کو توڑ دیتی ہیں اور روشنیوں کے بہائو کو بحال کر دیتی ہیں۔ مرض حواس کے
دائرے میں روشنیوں کے جمود سے پیدا ہوتا ہے۔
پے
در پے دونوں واقعات دور بہت دور ماضی میں کھینچ کر لے گئے۔ ایک مرتبہ جب میں تقریباً
چھ سال کا تھا۔ اسکول سے آیا تو چہرہ لال سرخ ہو رہا تھا۔ ممی نے دیکھا۔ میری پیشانی
پر ہاتھ رکھا۔ کہنے لگیں ارے بیٹا آپ کو تو سخت بخار ہے۔ میں ویسے ہی نڈھال ہو
رہا تھا۔ جلدی سے مجھے لٹا دیا چادر اوڑھائی۔ اتنے میں دادی اماں کی آواز آئی۔
اے بہو کیا سلمان آ گیا۔ ممی بولیں۔ اماں سلمان کو تو بڑا تیز بخار ہو رہا ہے۔ یہ
سنتے ہی دادی اماں کمرے سے باہر آ گئیں۔ کیا…بخار ہو گیا۔ ارے صبح تو اچھا بھلا گیا
تھا کیسے ہو گیا۔ میرے پاس آئیں۔ پیشانی پر ہاتھ رکھا منہ میں کچھ پڑھ کر پھونکا
پھر بولیں میرے بچے کو نظر لگ گئی ہے۔ بہو جلدی سے جا کر پانچ عدد سرخ مرچیں لے
آ۔ ابھی نظر اتار دیتی ہوں۔ ہاں ایک چٹکی بھر نمک بھی لے آنا۔ کوئی کیا کرے میرا
بچہ ہے ہی ایسا سندر۔ نظر بھر کے دیکھ لیا ہو گا کسی نے۔ دادی اماں برابر بولے چلی
جا رہی تھیں۔ اتنے میں ممی مرچیں اور نمک لے آئیں۔ دادی اماں اسے اپنے ہاتھ میں
لے کر میرے سارے جسم پر پھیرنے لگیں اور کچھ پڑھتی بھی رہیں۔ اس کے بعد خود اٹھیں
اور جا کر چولہے میں جلا دیا۔ اللہ کا کرنا تو دیکھئے۔ ایک گھنٹے میں بعدمیںاٹھ کر
کھیل کود میں مصروف ہو گیا۔ بخار کے ذرا بھی آثار نہیں تھے۔ ماضی کا وہ لمحہ میرے
حافظہ کا ایک نقش بن گیا۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء