Topics
’’بیٹے!
اللہ پاک کی نظر کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے۔ روح کی آنکھ اللہ کی نظر کا
واسطہ ہے۔ روح کی آنکھ ازل سے ابد تک دیکھتی ہے ۔ روح تین دائروں پر مشتمل ہے۔ یہ
تینوں دائرے روح کی تینوں ہستیاں ہیں۔ جو اپنی ذات میں علیحدہ علیحدہ مکمل صورت میں
ہیں۔ روح کا پہلا دائرہ ذات کی تجلی کا ہے۔ اس دائرے کو اللہ کا نور یا بینائی کا
نور کہا جاتا ہے۔ باقی دو دائرے روح کا نفس ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ
’’اول
آخر ظاہر باطن میں ہی میں ہوں۔‘‘
پس
باطن یعنی غیب میں اللہ کی تجلیات و انوار ہیں۔ اور ظاہر میں ان انوارات اور تجلیات
کی روشنیاں ہیں۔ ظاہر اور باطن کے درمیان برزخ یا پردہ ہے۔ جو ظاہر کو باطن سے جدا
کرتا ہے۔ برزخ باطن کو ظاہر کرنے کا واسطہ ہے۔ جب روح کی نظر اور فکر اپنے نفس سے
گزر جاتی ہے تو ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں روح کی نظر کی ڈائمینشن ختم ہو جاتی
ہے۔ نظر سے ڈائی مینشن کا ختم ہو جانا خود اپنی ذات کی فنائیت ہے۔ اس کی مثال یوں
ہے کہ جیسے آپ ریت کا محل بناتے ہیں۔ اب اسے توڑ دیتے ہیں اور توڑنے کے بعد کہتے
ہیں کہ محل فنا ہو گیا۔ مگر فنا ہونے سے پہلے بھی ریت تھی اور فنا ہونے کے بعد بھی
ریت ہے تو محل کیا ہے۔ محل ریت کے مختلف ڈائی مینشن ہیں۔ جنہوں نے عمل کی صورت بنا
لی۔ یہ ڈائی مینشن ختم ہو گئے تو عمل بھی فنا ہو گیا۔ محل کے فنا ہونے پر اصل ذات
سامنے آئی۔ اب محل کا تذکرہ نہیں بلکہ صرف ریت کا تذکرہ ہے۔ پس جب انسان کی نظر
اور ذہن کے ڈائی مینشن ختم ہو جاتے ہیں گوشت پوست سے ہٹ کر اصل انسان سامنے
آتاہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی اسی روحانی صلاحیت کی قسم کھائی ہے۔
میں نے شیخ احمد سے کہا کہ:
’’سرکار
اس کا مطلب تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کائنات کی تمام صورتیں روح کی فکر کا نتیجہ
ہیں۔ کیونکہ جب روح کی اپنی ذات کی نفی ہو گئی ہے تو ساری کائنات کی نفی ہو گئی
ہے۔‘‘
کہنے
لگے۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ روح امر ربی ہے اور اللہ کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی
شے کا ارادہ کر لیتا ہے تو کہتا ہے کہ ہو جا، وہ ہو جاتی ہے۔ پس کائنات کی تمام
صورتیں اللہ تعالیٰ کے امر یعنی روح کے دماغ و نظر کے خاکے ہیں۔ اس کی تشریح یوں ہو
گی کہ روح کی نظر یا آنکھ اللہ تعالیٰ کی تجلی کو بے شمار زاویوں سے دیکھتی ہے۔
ہر زاویہ نگاہ کائنات کا ایک ڈائی مینشن ہے۔ جو مادی دنیا میں کائنات کی اشکال میں
ظاہر ہو جاتے ہیں۔ روح کی نگاہ جب اپنی روشنی میں دیکھتی ہے تو وہ کائنات کی اشکال
دیکھتی ہے مگر جب اللہ کی امر کی تجلی میں دیکھتی ہے تو صرف ذات کی تجلی سامنے آتی
ہے۔ یہ نظر کے دیکھنے کے دو رخ ہیں۔ ایک مظاہر میں دیکھنا اور دوسرا علم میں دیکھنا۔
مظاہر میں دیکھنا کائنات میں موجودات کو دیکھنا ہے۔ علم میں ان موجودات میں کام
کرنے والی اور ان کو حرکت میں رکھنے والی روشنیوں کو دیکھنا ہے۔ علم میں دیکھنا
اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز اور حکمتوں کو پہچاننا ہے اور یہی اسرار و مظاہر قدرت
کی بنیاد ہیں۔ شیخ احمد نے فرمایا اب تم ذہنی طور پر اس مقام پر پہنچ چکے ہو کہ ان
اسرار و انوار سے واقفیت حاصل کر سکو۔ اب تم پر اللہ تعالیٰ کے اسرار و رموز کھلتے
جائیں گے۔ اب تم قرآن کی آیت میں غور و فکر کیا کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں
تمہیں معلوم ہو سکیں۔ پھر فرمایا۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
’’میری
نشانیوں کو مت جھٹلائو۔‘‘
اس
کا مطلب ہے۔ میرے ذہن میں فوراً ہی بات یہ آئی……میں نے کہا کہ تمام مظاہر کائنات
اللہ پاک کی نشانیاں ہیں۔ اللہ کی آیات اللہ کا علم ہے اور اللہ کی نشانیاں اس کے
علم کی ظاہری صورت ہے۔ فرمایا۔ بس اب اسی فکر و ذہن کے ساتھ قرآن پڑھو۔ تا کہ
اللہ کی نشانیاں تم پر ظاہر ہو جائیں۔ میں نے انتہائی شوق سے شیخ احمد کے قدم
چومے۔ اس لمحے میرے قلب و نگاہ میں ایک بجلی سی کوندی۔ میرے منہ سے بے اختیار
نکلا۔’’حضور آپ میرے اللہ کی نشانی ہیں۔‘‘
دن
بدن مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میں ایک گہرا سمندر ہوں۔ جس کی لہریں سطح
پر بالکل پر سکون ہیں۔ مگر سطح کے نیچے سمندر کی قوت ہزاروں طغیانیوں کو اپنے اندر
سمیٹے ہوئے ہے۔ میں وہ سمندر ہوں جس کا ایک قطرہ سارے عالم کو سیراب کر دے گا۔ میں
وہ سورج ہوں جس کی ایک شعاع سارے عالمین کو روشن کر دے گی۔ میں وہ درد ہوں جس کی ایک
آہ سارے اہل دل کو کرب میں مبتلا کر دے گی۔ میں وہ آگ ہوں جس کی ایک چنگاری باطل
کے تمام خرمن جلا کے خاک کر دے گی۔
یہ
کیسی آگ ہے جس میں میرا تن من جل رہا ہے۔ میرا ہر سانس تیری ہوئیت کا اقرار ہے۔ میری
ہر دھڑکن تیری احدیت کا اعلان ہے۔ میری ہر حرکت تیری محبوبیت کا انکشاف ہے۔ اب تیرے
سوا مجھے کون قبول کرے گا۔ پہاڑ زمین آسمان میرے متحمل نہیں ہیں۔ میں تیری امانت
ہوں۔ میرے دل کے قریب میں ایک سرگوشی سنائی دی۔’’اے میرے بندے تو میری امانت ہے۔ تیری
حفاظت میرے سوا اور کون کر سکتا ہے۔‘‘ بڑھتے طوفان میں سکون کی لہریں پیدا ہو گئیں۔
دھوپ میں جلتی زمین پر ابر باراں کی گوہر فشائی ہو گئی۔ آج مجھ پر یہ بھید کھلا
کہ اللہ پاک نے اپنی امانت کا عشق میرے اندر رکھا۔ آدمؑ کے سوا کوئی اس امانت کو
اٹھانے کا متحمل نہیں ہو گا۔ اپنی امانت کے بوجھ کو اٹھانے کے لئے اللہ پاک نے
آدمؑ کو علم عطا فرمایا۔ اسی علم کی قوت سے آدم مخلوق پر حکمرانی کرتا ہے۔ میرے
دل میں خود بخود اسرار کھلتے رہے۔ ذہن میں اللہ پاک کی قربت کے سوا کوئی خیال نہیں
آتا۔ حالانکہ ہر کام معمول کے مطابق کرتا مگر ہر وقت یوں لگتا کہ جیسے اللہ ہر
وقت میرے اپنے اندر موجود ہو۔ میرے اپنے اندر سے اس کا جلوہ نور دکھائی دیتا تھا
اس وقت میری یہ حالت تھی کہ جس حالت کے لئے اللہ پاک اپنے کلام میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ:
’’میں
تمہارے نفسوں میں ہوں کیا تم نہیں دیکھتے۔‘‘
یہی
صلوٰۃ دائمی ہے کہ جس میں نظر اپنے نفس سے ہٹ کر اللہ پاک پر قائم ہو جائے۔ ایسی
حالت میں بندے کا سونا جاگنا، چلنا پھرنا، سب عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ نریما نے
انہی دنوں دو تین بار مجھے بتایا کہ جب آپ گہری نیند میں ہوتے ہیں تو سانس کے
ساتھ آپ کے سینے سے اللہ اللہ کی آواز بڑی صاف سنائی دیتی ہے۔ حالانکہ مجھ کو اس
کی خبر نہیں تھی۔ مگر ایک بار ایسا ہوا کہ خود اپنی ہی اللہ اللہ کی آواز سے میری
آنکھ کھل گئی۔ میں سوچنے لگا انسان اپنی ذات میں بڑی دلچسپی شخصیت ہے اور اس کے
ساتھ ساتھ پر اسرار بھی۔ روحانی علوم کیسے دلچسپ ہیں۔ جس میں ہر روز نت نئے
انکشافات ہوتے ہیں۔ اور آدمی کے اندر کے تجسس کو روحانی علوم سے کس قدر تسکین ملتی
ہے۔ اس کی جستجو اور تلاش کو نیا راستہ مل جاتا ہے۔ مجھے اللہ میاں پر بہت پیار آیا
کہ انہوں نے اپنے بندوں کے لئے کیسے سامان مہیا کئے ہیں۔ اس کے ساتھ اس بات کا دکھ
ہوا کہ اپنی فطرت کے خلاف لوگ محدودیت یعنی مادیت سے ہی جی لگا بیٹھتے ہیں۔ مرنے
کے بعد مادی دنیا ختم ہو جائے گی پھر اپنی فطرت میں بسی ہوئی قوت تجسس کو کس عالم
میں لے جائیں گے۔ جب اسے تلاش کی زمین نہیں ملے گی تو وہ کہاں خزانے ڈھونڈنے جائے
گی۔
دل
جب محبوب کے ساتھ لگ جاتا ہے تو سب کچھ محبوب ہی ہو جاتا ہے۔ ان دنوں کمپنی میں
سالانہ اکائونٹ کی چیکنگ ہو رہی تھی۔ سارادفتر مصروف تھا۔ میں بھی سارا سارا دن
کمپیوٹر پر کام کر کے تھک گیا تھا۔ رات کے آٹھ بجے چھٹی ملی۔ دماغ تھک گیا تھا۔
گھر آ کر کھانا کھا کر صوفے پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے بڑا آرام
ملا اور یہ آرام سکون میں بدل گیا بند آنکھوں کے سامنے ایک فلیش لائٹ چمکی۔ اس
کے ساتھ ہی خیال کا رخ بدل گیا۔ مجھے اپنے رب کی قربت محسوس ہوئی کچھ دیر بعد اس
احساس نے سچ مچ میرے شعور کو اپنے اندر سمیٹ لیا اور میں گہری نیند میں چلا گیا۔
جاگنے
پر دل میں خیال آیا کہ سالک کا دل اور ذہن جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا
ہے تو وہ ہر شئے میں ذات حق کو ظاہر اور مخلوق کو باطن میں دیکھتا ہے۔ وہ جان لیتا
ہے کہ تمام جمیع خلائق حق کا آئینہ ہے۔ اللہ پاک نے الست بربکم کہہ کر خلق کے آئینوں
کو اپنی ذات کا نقش کر دیا۔ آئینے میں حق کا نقش مخفی تھا۔ مگر جب ظہور میں آتا
ہے تو وہی تو ظہور میں آئے گا۔ جو عکس آئینہ میں ہے۔ میں پہچان گیا۔ میری روح
آئینہ حق ہے۔ وہ اپنے آئینے میں حق کا ظہور دیکھ رہی ہے۔ جب روح کی نگاہ کا
انہماک آئینہ کے عکس میں حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے عکس کی شعاعیں جس شئے پر پڑتی ہیں
روح کی نظر اس شئے میں نور کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ جیسے سورج کی شعاعیں جب زمین پر
نزول کرتی ہیں تو ہر شئے دھوپ کا اثر قبول کر لیتی ہے۔ اللہ کی ذات تو نور ہے۔ وہ
نور جو ازل نے تمہاری روح میں دیکھا تھا۔ اور دل نے اس کا اقرار کیا تھا۔ وہ نور
اپنی ذات میں کامل ہے۔ یعنی ازل سے ابد تک نور کے ہر ادراک میں اس کا عکس کامل
موجود ہے۔ یہ اور بات ہے عقل عکس کو دیکھنے سے اندھی ہو۔ دل نے عقل سے کہا مگر تم
اس بات کا اقرار تو کر ہی رہے ہو کہ وہ عکس تمہارے آئینے میں موجود ہے۔ عقل بولی
میں اندھی ضرور ہوں مگر ایمان کی حرارت کو محسوس کر سکتی ہوں۔ دھوپ میں آنکھ بند
کر کے لیٹنے والے کو دھوپ دکھائی تو نہیں دیتی مگر وہ محسوس ضرور کر لیتا ہے۔
میں
نے دل سے پوچھا اے دل تو کون ہے۔ دل نے کہا آئینہ ہوں۔ عقل سے پوچھا تو کون ہے۔
وہ بولی میں آئینہ کا ادراک ہوں۔ آئینے میں عکس کی روشنی جہاں جہاں پھیلتی ہے۔ میں
اسے جان لیتی ہوں ۔ مگر تم کو معلوم ہے کہ دل کے آئینے کے اندر عکس کی ہر روشنی
کا ایک کامل عکس ہے۔ جس پہچان گیا کہ میرے شعور کا رابطہ اور فراست سے ہو گیا ہے۔ یہ
نور فراست کی فکر ہے۔ اب میں نے اس نوری عقل سے سوال کیا، ادراک کیا ہے؟ وہ بولی
لمحہ کُن ہے۔ وہ وقت ہے جس وقت دل کے آئینے نے حق کے عکس کو دیکھا۔ دل کے آئینے
میں بس وہی ایک عکس تو ہے۔ آئینہ وہی دیکھ رہا ہے جو اندر موجود ہے۔ لمحہ کُن کی
ہر یونٹ ادراک ہے اور ہر یونٹ خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی کیوں نہ ہو آئینے کا ایک
عکس ہے۔ ذات ایک ہے۔ عکس بے شما رہیں۔ یہ صفات کی صورت میں جلوہ گر ہیں جیسے کیمرہ
ایک شئے کی تصویر لیتا ہے وہ ایک ہی شخص کی بیس تصویریں لے لیتا ہے۔ ہر تصویر
مختلف لگتی ہے مگر ذات ایک ہی ہے ادراک لمحہ کن کی یونٹ ہے اسے جتنا پھیلائیں گے
اس کے اندر کے عکس سامنے آتے جائیں گے۔ میں سوچنے لگا کہ آئینے کو وسعت کیوں نہ
دے دی جائے کہ نظر کا ہر عکس ایک ذات کی مختلف تصویریں یا فوٹو بن جائیں۔ حقیقت کو
جاننے کے بعد میرا دل گہرائی میں ڈوبنے لگا۔ دل اب ہر لمحہ زندگی کا ادراک طلب
کرنے لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے میں وہ پیاسا ہوں جس کے لب تک پانی لا کر
لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے انکشاف پر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ میں روئوں یا
ہنسوں۔ میرا تو رواں رواں دکھتی رگ ہے جس میں ہجر و فراق کا درد بسا ہے۔ یہ چند
لمحے میرے درد کا مداوا کیسے ہو سکتے ہیں۔ میں تو ازل سے ابد تک محبوب کو آئینہ
دل میں دیکھ رہا ہوں ہر نظر کے ساتھ تقاضۂ وصال بھڑک اٹھتا ہے۔ خواہش عمر بھر کا
سفر کرتی ہے۔ تب کہیں جا کر اس کی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ مگر یہ وصال عمر کب ہے۔
یہ تو عمر کا ایک لمحہ ہے۔ پھر وہی پردہ ہے۔ پھر وہی حجاب ہے۔ پھر وہی تشنگی۔ اے
حقیقت منتظر! میرا جی چاہتا ہے کہ میں تیری آغوش رحمت میں اس طرح سو جائوں کہ پھر
کوئی مجھے نہ جگائے۔ روح پیاسی ہے، تن پیاسا ہے، من پیاسا ہے،میں کیا ہوں بس کا
سۂ گدا۔ کشکول میں تیری جو مرضی ڈال دے۔ کشکول کو اپنی رضا سے کیا کام ۔
ان
دنوں مجھ پر عجیب کیفیات طاری رہتیں جیسے میں خود اپنی ذات میں گم ہوں جیسے حقیقت
میں میری ذات دنیا میں نہیں بلکہ عالم لطیف میں بستی ہے اور میں اس عالم لطیف سے
دنیا کے جسم کو چلتے پھرتے دیکھتا رہتا ہوں۔ دنیا کی ہر حرکت خالی خالی لگنے لگی۔
جیسے لباس بغیر جسم کے۔ مگر دنیا سے بیزاری کا احساس مجھے کبھی نہیں ہوا اس کے
برعکس میں اس بات سے خوش تھا کہ دنیا کے تمام فرائض اور مشاغل کی تکمیل کے ساتھ
ساتھ دنیا سے میرا ذہن ہٹ بھی گیا ہے۔
اب
میرا ذہن ہر وقت روحانی علوم میں چلتا رہتا۔ نظر جس شئے پر ٹھہر جاتی دل اس کی غیر
معمولی تاویلات پیش کرتا۔ ہر نئی بات پر نئے انکشاف پر میری جبیں اپنے رب کے سامنے
جھک جاتی اور مرشد پاک کی توقیر و عزت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس کے ساتھ ہی دادی
اماں بھی خیالوں میں دبے پائوں چلی آتیں میں سوچتا۔ بچپن کی تربیت سب سے زیادہ
ضروری ہے۔ میری آنکھوں کے سامنے مادی دنیا آباد ہے اور آنکھوں کے سامنے پردۂ
تخیل کی دنیا۔ آج دونوں عالم روشن ہیں۔ پس پردۂ تخیل کا عالم وسیع دکھائی دیتا
ہے۔ مادی دنیا اس عالم کی تمثیل ہے میرا روحانی شعور اس عالم تمثیل کی ہر من بھاتی
شئے کو عالم تخیل کی زینت بنائے جاتا ہے اور جو جو شئے پسند نہیں ہے اسے چن چن کر
الگ رکھتا جاتا ہے۔ میرا عالم تخیل میری جنت ہے۔ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی جنت کی
تعمیر میں لگا ہوں۔ میری جنگ کا رنگین دریا میری دادی اماں ہیں۔ جن کے وجود سے جنت
میں رنگینی ہے۔ دادی اماں میری جنت کی رنگین کہانی ہیں۔ ابدی جنت کی ایک ناختم
ہونے والی کہانی۔ نریما میری جنت کا حسین نغمہ ہے۔ اس کی بازگشت جنت کے باغوں کی
ہر شاخ سے سنائی دیتی ہے۔ پھولوں سے لدی ہوئی شاخوں پر خوش الحان پرندے ہمارے عشق
کی راگنیاں سناتے ہیں جس کی دھن پر جنت کا ذرہ ذرہ مستی میں جھوم اٹھتا ہے اور
مرشد کریم وہ ذات محبوب ہے جو میرے سارے عالم تخیل پر محیط ہے۔ جو دل کا نور ہے۔
مرشد کریم کی ذات گویا نور کا ایک دریا ہے۔ میری ذات اس دریا کا ایک موتی ہے۔ اس
موتی کے جگر میں ایک داستان ہے۔ کبھی نہ ختم ہونے والی داستان۔ دریا کی ہر لہر پر
ابھر ابھر کر وہ موتی اپنی داستان سنا رہا ہے۔ قطرے سے گہر بننے کی کہانی۔ ایک
انمٹ کہانی۔ اس کا ہر حرف خود گوہر ہے۔
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء