Topics

عشق


                حد سے نہ گزر جانا شوقِ دل دیوانہ

                د ل شیشے کا شیشہ ہے پیمانے کا پیمانہ

                اس راستے پر بندہ اللہ تعالی کے عشق کے انوار میں ڈبو دیا جاتا ہے۔ بھلا عشقِ حقیقی کے دریا میں غوطہ لگانے کے بعد دنیا کی بے ثباتی کسے متاثر کر سکتی ہے۔ عشقِ الٰہی اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے۔ جو تجلی کے حواس ہیں۔روحانی راستے پر جب سالک مرشد کی رہنمائی میں اللہ تعالیٰ کی جانب قدم بڑھاتا ہے تو مرشد کی ذات کی تجلی اس کے بشریٰ حواس پر غالب آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مرشد کے لئے اپنے دل میں محبت محسوس کرتا ہے۔ میرا تو یہ عالم تھا کہ اندر باہر جہاں بھی نظر پرتی تھی۔شیخ کی صورت دکھائی دیتی تھی۔ میری انا شیخ کی انا کے سمندر میں ڈوب چکی تھی۔ میرے قلب کی آنکھ ہر وقت دیکھتی کہ میرا پورا وجود شیخ کے وجود میں سمایا ہوا ہے۔ اور آہستہ آہستہ شیخ کے وجود کے اندر میرا وجود بڑھ رہا ہے۔جس طرح ماں کے رحم میں بچہ نشو و نما پاتا ہے۔ جس طرح ایک کمسن بچے کے لئے اس کی ماں کی حیثیت پوری خدائی سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ اسی طرح میرے لئے بھی شیخ کی ہستی ساری خدائی سے کم نہ تھی۔ ان کے قریب بیٹھنے، ان کے پائوں چومنے اور ان سے گلے لگ کر مجھے ایسا سکون ملتا تھا۔

                اب گھر میں اکثر روحانیت کی باتیں ہوتیں۔ کبھی گھر والے کسی روحانی نکتے پر استفسار کرتے۔ تو ذہن میں ایسے ایسے دلائل آتے کہ میں خود حیران رہ جاتا کہ اس سے پہلے یہ بات کہاں تھی۔ پاپا تو بہت خوش تھے۔ ممی بھی اب مطمئن تھیں۔ اکثر کہا کرتیں میرا بیٹا ماشاء اللہ بہت جنیئس ہے۔ میں پہلے بھی خاصا خوش باش آدمی تھا اب تو میری روح بھی ہر وقت مسکراتی محسوس ہوتی۔ بس میری ایک ہی دکھتی رگ تھی ، نریما۔ اب بھی میرا ذہن اس کے پرایا ہو جانے کو کسی طرح قبول کرنے پر تیار نہ تھا۔ مگر اب میرا ذہن پورا پورا روحانی طرزِ فکر پر چلنے لگا تھا۔ جس کی وجہ سے میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ ان دنوں سیماں پھوپھی کی جانب سے نریما کی شادی کا کارڈ آیا۔ شادی اگلے ماہ ہونے والی تھی۔ ابھی پورے چار ہفتے تین دن تھے۔ میرے زخم پھر ہرے ہو گئے۔ پتہ نہیں کیوں دل یہ کہہ رہا تھا محبت تو ایک ہی ہستی سے ہوتی ہے۔ محبوب تو ایک ہی ہوتا ہے۔ نریما کی نگاہوں میں تمہارے لئے محبوبیت کا پیام تھا۔ تمہاری بے رُخی نے اسے ماں باپ کے آگے سر جھکانے پر مجبور کر دیا۔ ایک بار پتہ تو کر و کیا وہ اس رشتے سے خوش ہے۔ دو دن تک یہی خیال ذہن میں پیوست رہا۔ تیسرے دن میں نے فیصلہ کر لیا کہ نریما کو شادی کی مبارکباد دینے کے بہانے اس سے بات کروں۔ رات کو میں نے اسے فون کیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دعاتھی کہ نریما ہی فون اُٹھائے۔ اللہ بہت مہربان ہے دوسری جانب سے نریما کی آواز سن کر اطمینان ہوا۔ دراصل مجھے اس بات کی شرمندگی تھی کہ جب میں نے پہلے اس سلسلے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی تو اب جبکہ شادی کے سارے انتظامات ہوچکے ہیں کوئی شوشہ چھوڑنا اچھا نہیں ہے۔ اس سے خاندان میں ناچاقی ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میرے گھر والے یا نریما کے گھر والوں کو پتہ لگے۔ پہلے میںنریما سے براہِ راست بات کرنا چاہتا تھا۔ اگر وہ تیار ہو تو پھر خاندان کا اتنا مسئلہ نہیں تھا۔ میں نے اسے شادی کی مبارکباد دی۔ اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔

                پھر میں نے پوچھا تم خوش تو ہو نا۔ اس نے فوراً جواب دیا آپ کو میری خوشی سے کیا سروکار۔ میں نے کہا ۔ہے جبھی تو پوچھ رہا ہوں۔ وہ بولی جبھی تو انکار کر دیا تھا۔ میں نے کہا میں نے انکار تو نہیں کیا تھا۔ صرف کچھ عرصہ انتظار کرنے کو کہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ تم میرا انتظار کرو گی۔ وہ بولی مگر میں تو یہی سمجھی تھی کہ تم نے انکار کر دیا ہے۔ امی نے مجھے کچھ ایسا ہی تاثر دیا تھا۔ میں نے کہا۔ اصل میں مجھ سے ہی غلطی ہو گئی۔ میں نے شادی کے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ اسی خوش فہمی میں رہا کہ میری جنت مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ یہ سن کر شاید وہ رو پڑی۔ تھوڑی دیر تک سکوت رہا پھر اچھا خدا حافظ کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔

                 میری آنکھوں سے نیند اُڑ گئی۔ میں سوچنے لگا۔ ابھی تو ایک مہینہ باقی ہے۔ شادی روک دینی چاہیئے۔ ساری رات انہی تدبیروں میں گزر گئی۔ صبح صبح میں نے سوچ لیا کہ دفتر جاتے وقت ذرا پہلے نکلوں گا اور حضور سے سارا معاملہ بتا کر مشورہ لوں گا۔ مجھے اطمینان ہوا۔ آدھا گھنٹہ میں نیند آگئی۔ صبح نہا دھو کر ذرا فریش ہو کر مرشد کریم کے پاس گیا۔ وہ اس بے وقت مجھے دیکھ کر حیران ہوئے  اور فوراً اندر بٹھایا۔ سلمان بیٹے خیریت تو ہے۔ میں نے رات کا سارا واقعہ من و عن سنا دیا  اور ان کے گھٹنوں میں سر چھپا کر بے چارگی سے کہا۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آتا ہے کیا کروں۔ وہ مسکرائے میرے سر اور پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور فرمانے لگے۔ بس چپ چاپ بیٹھے تماشہ دیکھتے رہو۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاء اللہ ۔ مجھے بڑی ڈھارس بندھی۔ میں دفتر آگیا۔

                شام کو گھر پہنچا تو راحیلہ سامنے ہی کھڑی تھی۔ ایک دم بول پڑی ۔ ارے کچھ سنا ہے مجنوں صاحب آپ نے، آپ کی لیلیٰ نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ میرا دل زور سے دھڑک اُٹھا۔ بے ساختگی میں میں نے اس کے بال پکڑ لئے۔ شریر کہیں کی سچ سچ بتا کیا ہوا۔ اس نے بڑے ڈرامیٹک انداز میں سنایاکہ پھوپھی سیماں کا فون آپ کے پاپا کو آیا تھا۔ کہنے لگیں ہائے بھائی جان اس لڑکی کی تو مت ماری گئی ہے۔کارڈ بٹ گئے، ہال بک ہو گیا۔ اب کہتی ہے ۔ میں نے یہ شادی نہیں کرنی ہے۔ میری شادی ہو گی تو سلمان سے ہوگی۔ میرے تو پائوں سے زمین گم ہے۔ کیا کروں کیا نہ کروں۔ میں نے جلدی سے کہا۔ پھر پاپا نے کیا جواب دیا۔ کہنے لگی۔ انکل بولے تم فکر نہ کرو۔ میں تمہاری بھابھی سے مشورہ کر کے جواب دیتا ہوں۔ اتنے میںآواز سن کر ممی پاپا بھی آگئے۔ کہنے لگے ۔ معلوم ہوتا ہے یہ سارا ہنگامہ تمہارا برپا کیا ہوا ہے۔ میں نے خوشی سے ہنستے ہوئے کہا پاپا مجھے تو کچھ پتہ ہی نہیں۔ میں تو ابھی آیا ہوں ممی بولیں جبھی تو ہنس رہے ہو۔ پاپا بولے۔ بھئی! باجی بہت پریشان ہیں۔ تم بچوں کی باتیں انہیں تو سمجھ میں آتی نہیں ہم سب کھانے کی میز پر بیٹھ گئے۔ طے یہ پایا کہ شادی کی جو تیاری ہے۔ شادی اُسی تاریخ پر ہو۔ مگر جیسا کہ بچے چاہتے ہیں نریما اور سلمان کی ہو جائے۔ اب رہ گیا مسئلہ نریما کے منگیتر کا تو پاپا اور چاچا دونوں ان لوگوں سے بات کر کے انھیں سمجھا دیں ۔ تو ایسا لگ رہا تھا جیسا میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ بار بار خیال آتا پیرو مرشد کی دعا قبول ہو گئی۔

                شام کو کام سے سیدھا میں شیخ کے پاس پہنچا انھیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان کا شکریہ ادا کیا۔مزید دعا جاری رکھنے کی گزارش کی تا کہ ھالات معمول پر آ جائیں اور گھر آ گیا۔ پاپا اور چاچا دو دن  بعد واپس آ گئے کہنے لگے وہ لوگ نہایت ہی معقول نکلے۔ سب سے پہلے ہم نے لڑکے کو گھر بلا کر اس سے ساری سچویشن پر بات کر لی۔ وہ کہنے لگا ۔ میں زبردستی کی شادی کا قائل نہیں ہوں۔ مذہب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر امی اور ڈیڈی کو اس بات کا بہت صدمہ ہو گا۔ بہتر یہ ہے کہ میں خود اس معاملے کو ان تک پہنچائوں ۔ بیچ میں میں بڑوںکو نہ لائوں۔ بہرحال اس نے کسی طرح اس معاملے کو اپنے والدین کے سامنے پیش کر دیا اور خود ان کی طرف سے پیغام آگیا کہ یہ شادی روک دی جائے۔ میرا خیال فوراً شیخ کی طرف گیا اور میں سوچنے لگا کہ مرشد کا ارادہ مرید کے معاملات میں کس طرح کام کرتا ہے۔ مرید کو مرشد کی ذات سے کتنا تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ مجھے یقین ہو گیا۔ شیخ احمد اس رشتے سے بہت خوش ہیں۔ اب گھر میںپھر سے ایک بار شادی کی گہما گہمی شروع ہو گئی۔ گھر کی ساری خواتین حرکت میں آگئیں۔ ادھر اس رشتے سے سارے خاندان والے بھی خوش ہو گئے۔ کیونکہ نریما کے لئے خاندان میں بس ایک میں ہی اس کی عمر کا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی شادی غیروں میں ہو رہی تھی۔ لوگ زیادہ تر اپنے خاندان میں رشتے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہرحال مجھے اس بات کی سب سے زیادہ کوشی تھی کہ نریما کے دل میں بھی وہی جگہ ہے جو میرے دل میں اس کی ہے۔


 


Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء