Topics

سیاہ نقطہ


                اگلے دن مراقبہ میں سیاہ نقطے کے اندر داخل ہوتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے میرے دل کے اندر سیاہ نقطہ وہ مقام ہے ۔ جس مقام پر اللہ تعالی کی تجلی نزول کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کُن کہنے سے تجلی کی روشنی اپنی آخری حد تک پھیلی۔ یہ آخری حد میرے دل کا مقا م ہے۔ اس مقام پر تجلی کی روشنی نے اپنا مظاہرہ کیا۔ تجلی اپنی روشنیوں کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر کر رہی ہے۔ چنانچہ مخلوق کی ظاہری شکل و صورت اللہ تعالیٰ کے حکم کی صورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی سیاہ نقطے کو جس صورت میں ظاہر ہونے کا حکم دیا۔ سیاہ نقطہ  اسی صورت میںظاہر ہو گیا ۔ یعنی سیاہ نقطہ شے کا تخلیقی فارمولا ہے اور سیاہ نقطے کے اندر اس شے کی مکمل صفات اور روشنیاں موجود ہیں۔ جیسے سیب کا بیج اور اس بیج کے اندر پورا درخت بند ہے۔جب بیج اپنے اندر بند درخت کا مظاہرہ کرتا ہے تو آہستہ آہستہ درخت بیج کے اندرسے باہر آتا جاتا ہے۔ جب بیج کے اندر موجود تما م روشنیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ تو درخت بھی ختم ہو جاتا ہے۔ درخت کا ختم ہونا روشنی کی زمین پر حرکت کا ختم ہونا ہے۔خود روشنی کا ختم ہونا نہیں ہے۔ کیونکہ بیج کے اندر کی روشنی درخت کی روح ہے اور روح اللہ کا امر ہے۔ اللہ کی ذات حی قیوم ہے پس اللہ کی ذات کا ہر جز حی قیوم ہے اللہ کا امر بھی حی قیوم ہے۔ وہ اپنے مقام سے ذہن کی جانب نزول کرتا ہے۔ اللہ کے ارادے کے مطابق اپنا ڈسپلے کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کے ارادے میں لوٹ جاتا ہے۔

                میرے ذہن میں آیا ۔ یہ سیاہ نقطہ میری اصل ذات ہے۔ جس کے اندر وہ تمام روشنیاں اور رنگ موجود ہیں۔ جن کا مظاہرہ میری ذات سے ہو رہا ہے اور آئندہ ہونے والا ہے۔ اب ذہن میں آیا۔میری ذات کیا ہے۔ میری ذات تو کچھ بھی نہیں ہے سب کچھ تجلی ہے ۔ تجلی اللہ کی ذات کا عکس ہے جو اللہ کے حکم پر مرکوز دل تک پہنچتی ہے اور اس مرکز سے اپنا ڈسپلے کرتی ہے۔ سارا ڈسپلے تو تجلی کی روشنی کا ڈسپلے ہے۔ پھر میری ذات کا تذکرہ درمیان میں کہاں سے آگیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری ذات محض ایک مفروضہ ہستی ہے۔ سلمان کیا ۔ سلمان بس ایک فرضی نام ہے۔ جو تجلی کی روشنی نے اپنے مظاہراتی جسم کو دے دیا ہے۔ جب تک یہ مظاہراتی جسم موجود ہے سلمان نام بھی موجود ہے۔ جب یہ جسم بکھر گیا تو سلمان کی ذات بھی ختم ہو گئی۔میرے اِندر ایک شور مچ گیا۔ جیسے میرے وجود کا ذرہ ذرہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے۔ لاالہ بہت دیر تک یہ تکرار میرے اندر ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ میرے یقین میں یہ بات آ گئی کہ نفی اللہ کی نہیں ہے۔ بلکہ نفی تو میری ذات کی ہے۔لا کی ہستی تو میرا اپنا وجود ہے۔ جو محض ایک مفروضہ نام ہے اصل سلمان کیا ہے۔ تجلی کی وہ روشنی ہی تو ہے جو اس مرکز دل کے مقام پر آ کر اپنا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اگر سلمان کا نام درمیان سے نکال دیا جائے تو بس اللہ ہی رہ جاتا ہے کہ اللہ کے حکم سے اللہ کی تجلی اپنا مظاہرہ کر رہی ہے۔ دنیا میں آ کر تجلی کی آنکھ اپنے مظاہرے کو دیکھتی ہے۔ اصل ذات کو نہیں دیکھتی۔ اصل ذات تو اللہ کی تجلی ہے۔ تجلی ذات کی انا کا ایک رُخ ذاتِ باری تعالیٰ سے وابستہ ہے۔ جب انا کا فاصلہ ذات سے دور ہو جاتا ہے تو تجلی اپنی کنہُ حقیقت کو بھولتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ نزول کی انتہائی حد پر جب یہ انا اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے تو اپنی انا کو قائم رکھنے کے لئے اپنا انفرادی وجود تسلیم کر لیتی ہے۔ حالانکہ انا کی انفرادیت بھی اصل ذات کی عطا کردہ پہچان ہے۔ مگر اصل ذات سے دوری انا کے رابطے کو توڑ دیتی ہے۔ جس کی وجہ سے انا کا تمام مظاہرہ انفرادی حدود میں ہوتا ہے اور یہاں سے تمام خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔ انسان کی تمام برائیاں اصل ذات سے لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ مراقبہ ختم ہوا۔ میں نے نہایت ہی عاجزی کے ساتھ دعا مانگی۔ اے میرے رب اپنی کنہُ سے میرے رابطے کو بحال کر دے اور مجھے اصل ذات کی شناخت کے علوم عطا فرما۔ بلاشبہ اصل ذات تیرے سوا  اور کوئی نہیں ہے۔

                 دوسرے دن شیخ احمد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے سوال کیا۔ ذات کی انا زمین تک آتے آتے اپنی حقیقت سے کیسے منحرف ہو جاتی ہے۔ فرمایا ذات کی انا تجلی ذات کی روشنی ہے۔ جیسے سورج اور سورج کی روشنی یعنی دھوپ۔ تجلی ذات کو ہم سورج کہیں تو تجلی ذات کی شعاعیں گویا دھوپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کُن کہنے سے تجلی ذات کی شعاعیں کائنات کے خلاء میں بکھری ہیں۔ اللہ تعالیٰ شعاع کو سماء کہتے ہیں اور جہاں شعاع آ کر ٹکراتی ہے۔ اس اسکرین یا بساط کو ارض یا زمین کہا گیا ہے۔ جس بھی ارض یا اسکرین سے شعاع ٹکراتی ہے اس اسکرین پر شعاع یعنی روشنی کے جذب ہونے کا (perception)عمل شروع ہو جاتا ہے۔ یہی عمل تخلیق کہلاتا ہے۔ تجلی ذات کے نقطے سے شعاع جب مادی زمین کی جانب نزول کرتی ہے تو بہت سے اسکرین (ارض)  سے گزرتی ہوئی آتی ہے۔ ہر شعاع فارمولا یا روح ہے۔ روح جس بھی ارض پر آکر ٹھہرتی ہے۔ وہاں اپنا ایک جسم بنا لیتی ہے اور اپنی روشنیوں کا ڈسپلے کرتی ہے۔ روح یا شعاع جس بھی ارض سے ٹکراتی ہے اس ارض کے ذرات روح کی روشنیوں کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ جیسے مٹی میں پانی ڈالا جائے تو مٹی کے ذرات پانی کو جذب کر لیتے ہیں۔ روح کا ظاہری جسم اس ارض کے ذرات ہیں۔ جن میں روح کی روشنیاں جذب ہیں اور باطن یعنی اصل روح ذرات کے اندر جذب شدہ روشنی ہے۔ اس طرح اللہ کا امر کائنات میں کام کرتا ہے۔ انسان کی روح یا امرِ ربی کی شعاع جب اپنی ذات یعنی تجلی ذات کے نقطے سے نزول کرتی ہے تو اس نزولی حالت میں اس کا گزرجنت سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جنت میں آدم  و حوا نے نافرمانی کا ارتکاب کیا اور اس کی پاداش میں دنیا میں بھیج دیئے گئے۔ پس ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے خواہ وہ مرد ہو یاعورت ان سے جنت میں کوئی نہ کوئی غلطی ایسی سرزد ہو جاتی ہے۔ جس کی سزا میں وہ دنیا میں بھیج دیئے جاتے ہیں ۔ غلطی کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے جو رابطہ ذات باری تعالیٰ سے روح کا تھا۔ وہ رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے روح اپنی ذاتی انا کو برقرار رکھنے کے لئے انفرادی انا کی تخلیق کرتی ہے۔ یہی ذیلی انا انسان یا آدم ہے۔

                اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ احسن الخالقین ہے۔ یعنی خالقین میں سب سے اچھا تخلیق کرنے والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا بھی اور خالقین ہیں۔ پس ان ذیلی خالقین میں ایک نام روح کا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علوم  و صلاحیتوں کے ذریعے اپنا جسم تخلیق کرتی ہے اور پھر دنیا میں اس جسم کے ساتھ رہ کر وہ رابطہ بحال کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔ جو رابطہ دنیا میں آنے سے ٹوٹ گیا تھا۔ اس رابطے کو قرآن میں صلواۃکہا ہے اور جن اصولوں پر صلواۃ قائم کی جاتی ہے وہ اصول عبادت کہلاتے ہیں۔ چونکہ صلواۃ یا رابطہ اللہ تعالیٰ کی ہستی سے ہے جو لا محدود ہے پس قائم الصلواۃ کے اصول  یا عبادت کے طریقے بھی لامحدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو قائم الصلواۃ کے مختلف اصول بتائے۔ یہی اصول شریعت کہلاتے ہیں۔ دنیا میں آنے کے بعد چونکہ روح یا امرِ ربی کا رابطہ خالق کی ذات سے ٹوٹ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہنہ حقیقت یا اصل ذات سے منحرف ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد میں نے پیرو مرشد سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کریں کہ میں اپنی حقیقت سے رابطہ بحال کر لوں اور کبھی بھی اس حقیقت سے انحراف کرنے کا خیال دل میں نہ لائوں ۔ شیخ احمد نے مجھے دم کیا اور بہت محبت کے ساتھ مجھے رخصت کیا۔ مجھے محسوس ہوا ۔ دن بدن پیر و مرشد سے زیادہ محبت کر رہا ہوں۔ لیکن نہیں ان کی چاہت میری محبت سے زیادہ ہے۔ اس خیال نے مجھے ایک سرور میں ڈبو دیا۔ جہاں خوشی، سکون اور تحفظ تھا۔

                 میرے مراقبے جاری تھے۔ کبھی کبھی درود و شہود کی کیفیات ایسی ہو جاتیں کہ شیخ کی ہستی میں مجھے ساری کائنات دکھائی دیتی۔ ایسی حالت میں میرا جی چاہتا میں زیادہ سے زیادہ شیخ کے قریب رہوں۔ ان کے اشارے پر بجلی کی طرح کام کروں۔ جتنی دیر محفل میں ہوتا میری نظریں شیخ کی صورت سے ہٹنا بھول جاتیں۔ ان دنوں شیخ کے التفات بھی مجھ پر زیادہ تھے۔



Andar Ka Musafir

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔                لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔

                 اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔

                اور لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)

                                                                                                                                حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی

                                                ۹ اپریل ۱۹۹۷ ء