Topics
اس بڑے سے تین
منزلہ گھر میں رہنے والوں کی تعداد کچھ زیادہ نہ تھی۔ ایک دادی اماں تھیں ۔ جو
باوجود بڑھاپے کے نہایت ہی خوش مزاج اور صحت مند تھیں۔ دادی اماں کے دو فرزند تھے۔
جو تن و توش میں اچھے خاصے لمبے تڑنگے تھے ۔ صورت و شکل کے بھی ٹھیک ٹھاک تھے۔
جسامت کی وجہ سے خوب رعب دار لگتے تھے۔گندمی رنگ پر چھوٹی چھوٹی داڑھی اچھی لگتی
تھی۔ دور سے دیکھ کر کوئی بھی پہچان سکتا تھا کہ یہ آپس میں بھائی ہیں۔ ایک بیٹے
کا نام سید غضنفر علی تھا اور دوسرے کا نام غفور علی تھا۔ غضنفر علی بڑے تھے۔ ان
کے تین بچے تھے۔ ایک لڑکا اور دو لڑکیاں۔ لڑکی بڑی تھی۔ جس کا نام سمیرا تھا۔ اس
کے بعد لڑکا جس کا نام سلمان تھا اور سب سے چھوٹی بیٹی کا نام ثمینہ تھا۔ چھوٹے بیٹے
غفور علی کی صرف ایک بیٹی تھی۔ جو ثمینہ سے چار ماہ چھوٹی تھی۔اس کا نام راحیلہ
تھا۔ اس پوری بلڈنگ میں بس دادی اماں اور ان کے دو بیٹوں کی مختصر فیملی رہتی تھی۔
بڑی بہو فرزانہ نہایت ہی خوبصورت نازک اندام تھی۔ وہ جتنی خوبصورت تھی اتنی ہی خوب
سیرت بھی تھی۔ اکثر و بیشتر اس کے دلنواز قہقہے گھر کے سکوت کو توڑتے رہتے تھے۔
دادی اماں تو انہیں میری بلبل کہہ کر پکارا کرتی تھیں۔ چھوٹی بہو رخشندہ بھرے ہوئے
جسم کی پیاری شکل کی لڑکی تھی۔بس ذرا خاموش طبیعت تھی۔ مگر مزاج کی بہت رحم دل اور
خدمت گزار تھی۔ دادی اماں کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جو دونوں بھائیوں سے بڑی تھی۔ اس
کا نام سیماں تھا۔ وہ بیاہ کے دوسرے شہر چلی گئی تھی۔ اس کے دو بچے تھے۔ ایک لڑکا
جس کا نام وقاص تھا۔ چھوٹی بیٹی کا نام نریما تھا۔ داماد کا نام عتیق تھا۔ دادی
اماں اپنے بیٹوں کے ساتھ کراچی میں رہتی تھیں ۔ بیٹی داماد راولپنڈی میں رہتے تھے۔
سال میں دو مرتبہ بچوں کی تعطیلات کے دوران کراچی آ جاتے تھے۔ اس طرح سب کی زندگی
نہایت ہی سکون کے ساتھ گزر رہی تھی۔
میں
شروع سے ہی دادی اماں کا لاڈلہ رہا۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ میں تین لڑکیوں میں
واحد لڑکا تھا۔ ذرا آنکھ سے اوجھل ہو جائوں تو دادی اماں کی سلمان، سلمان… کی
پکار سے سارا گھر گونج اُٹھتا تھا۔ دادا کو تو میں نے دیکھا ہی نہیں تھا۔وہ میری پیدائش
سے نو برس پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔ مجھے تو پیدا ہوتے ہی دادی اماں نے جیسے گود لے
لیا تھا۔ ڈرائنگ روم میں ان کا ایک مخصوص صوفہ نما بیڈ تھا۔ جہاں وہ روزانہ شام کو
بیٹھ کر T.Vدیکھا کرتی تھیں۔ اس پر دو عدد گائو تکئے رکھے تھے۔ دادی اماں بڑی سی
چادر پہنے ہوتیں۔ مجھے اپنی چادر میں ڈھانپ لیتیں۔ امی کہا کرتی تھیں کہ تم چند مہینے
کے تھے کہ جب سے یہی سلسلہ چلا جا رہا تھا۔دادی اماں تمہیں اپنی گود میں لے کر شام
تک سے ہی اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتیں۔ T.V تو وہ کم دیکھتی تھیں بس اپنی
چادر میں چھپا کر تم سے کھیلا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ تمہارے قہقہے بلند ہو جاتے
اور پھر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کھیلنے کے بعد تم دادی اماں کی آغوش میں ان کی چادر کے
اندر سو جاتے۔ اب لاکھ سب لوگ دادی اماں سے کہتے کہ بچے کو نیچے سلا دیتے ہیںآپ
تھک جائیں گی مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا جب تھک جائوںگی بتا دوں گی اور دادی اماں
کئی کئی گھنٹے تمھیں گود میںلئے بیٹھی رہتیں۔ یہاں تک کہT.V پروگرام دیکھ کر سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں
جانے لگتے۔ تب وہ بڑی آہستگی سے کہ تمھاری آنکھ نہ کھل جائے گالوں پر پیار کرتیں
اور پھر میں تمھیں بیڈ روم میں سلا دیتی۔
اس
طرح تین سال گزر گئے۔ سمیرا ، ثمینہ اور راحیلہ تینوں امی اور چچی کو ہر وقت گھیرے
رہتیں۔ مگر میں دادی اماں سے ہر وقت چمٹا رہتا۔ وہ مجھے بہت پیار کرتی تھیں۔ اپنے
ہاتھوں سے کھلاتی پلاتیں۔ میں بھی دوڑ دوڑ کے ان کا کام کیا کرتا تھا۔ تین سال کی
عمر سے دادی اماں نے مجھے قاعدہ بھی شروع کرا دیا تھا۔ گاہے بگاہے گنتی بھی سکھاتی
رہتی تھیں ۔ کلمہ شریف تو میں نے دو سال کی عمر سے یاد کر لیا تھا۔ دادی اماں کی
بے پناہ محبت نے میرے اندر تابعداری کی صلاحیت بیدار کر دی۔ اس معصوم عمر میں ان کی
محبت میرے لئے سب سے بڑا سرمایہ تھی۔ بہنوں کے ساتھ کھیل کے دوران بھی میرا ذہن
دادی اماں کی طرف لگا رہتا۔ ان کی ذرا سی آہٹ پر اپنا کھیل چھوڑ کر ان کی جانب
دوڑ جاتا۔ ایک دن سبق کے دوران دادی اماں کہنے لگیں۔ سلمان بیٹے تم کو پتہ ہے اللہ
میاں بچوں سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ میں نے فوراً کہا. دادی اماں جتنی آپ مجھ سے
کرتی ہیں۔ وہ خاموش ہو کر ہنس پڑیں اور میرے گالوں پر پیار کرلیا۔ میں نے کہا
’’دادی اماں اللہ میاں بھی بچوں کے گالوں پر پیار کرتے ہیں اور بچوں کو گود میں
بٹھاتے ہیں اور مٹھائی بھی کھلاتے ہیں‘‘۔ وہ بولیں، ’’ہاں! اللہ میاں تو سب سے زیادہ
پیار کرتے ہیں۔ گود میں بٹھاتے ہیں اور مٹھائی بھی کھلاتے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا مگر
دادی اماں مجھے تو انہوں نے کبھی پیار نہیں کیا۔ نہ گود میں بٹھایا ۔ دادی اماں
بولیں ، بیٹے تم کو یاد نہیں ہے تم جب سو جاتے ہو تو روزانہ اللہ میاں تمھارے پاس
آتے ہیں اور پیار کر کے مٹھائی بھی دے جاتے ہیں ۔ میں نے کہا پھر چلے کیوں جاتے ہیں
۔ کہنے لگیں انہیں بہت زیادہ کام ہوتا ہے نا اس لئے۔ انہی کی دی ہوئی مٹھائی تو میں
تم کو دیتی ہوں۔ اتنے سارے بچوں کے پاس ان کو جانا ہوتا ہے نا اس لئے جلدی چلے
جاتے ہیں۔
دوسرے
دن میں نے سونے سے صاف انکار کر دیا کہ میں نے اللہ میاں کو دیکھنا ہے۔ میں مسلسل
سوال کئے جاتا مگر مجال ہے جو دادی اماں کی پیشانی پر بل بھی آیا ہو۔ وہ مسکرا
مسکرا کے جواب دیئے جاتیں۔ اسی دوران میرے سونے کا ٹائم بھی نکل گیا۔ مگر انہوں نے
ایک بار بھی میرے سونے پر اصرار نہ کیا۔ اب میری آنکھیں بوجھل ہونے لگیں میں نے
دادی اماں کی آغوش میں منہ چھپا لیا۔ دادی اماں مجھے نیند آرہی ہے۔ اللہ میاں کب
آئیں گے؟ دادی اماں تھپکتے ہوئے بولیں ،
کوئی بات نہیں ہے بیٹے تم سو جائو گے تو تمھارے خواب میں آئیں گے۔ اس وقت میری
عمر تقریباً چار سال کی تھی۔ مجھے دادی اماں ایک ایک بات پر پکا یقین تھا۔ اسی یقین
کے ساتھ میری پلکیں بوجھل ہو گئیں۔ دادی اماں نے مجھے اپنی آغوش میں اچھی طرح سمیٹ
لیا اور اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔ اس رات دادی اماں نے مجھے اپنے ساتھ سلا لیا۔
صبح
میں سو کر اُٹھا تو دادی اماں کے جسم کے گرم گرم لمس نے میرے اندر خوشیوں کے فوارے
بھر دیئے۔ میں نے خوشی خوشی ان کے سینے سے چمٹے ہوئے کہا۔ دادی اماں پتہ ہے رات
اللہ میاں آئے تھے۔ وہ بولیں ، اچھا۔ اللہ میاں کیسے تھے؟ میں نے خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا بالکل آپ جیسے
تھے۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چمٹایا اور خوب پیار کیا۔ پھر اپنی چادر میں مجھ کو
چھپا کر اپنے ہاتھ سے مٹھائی کھلائی ۔ سچ مچ دادی اماں وہ بالکل آپ جیسے تھے۔ وہ
میری نادان باتوں پر ذرا بھی خفا نہ ہوئیں۔ بلکہ پیار سے میرے بالوں میں انگلیاں
پھیرتی رہیں۔ میں نے کہا اگر بچوں کو کسی سے محبت نہ ہو تو کیا پھر اللہ میاں نظر
نہیں آتے؟وہ بولیں،بیٹے اللہ میاں کا تو نام ہی محبت ہے۔محبت ہی نہیں ہو گی تو
اللہ میاں بھی نظر نہیں آئیں گے۔
اب میرے ذہن میں یہ بات نقش ہو گئی کہ اللہ میاں
کو دیکھنے کے لئے محبت کرنا ضروری ہے۔ مگر سچ بات تو یہ ہے کہ ان دنوں مجھے دادی
اماں اللہ میاں سے بھی پیاری لگتی تھیں۔ وہ مجھے اپنے نرم و گداز جسم سے چمٹا کر
محبت کی گرمی سے بھر پور بوسے دیتیں۔ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتیں۔ مجھے میری دل
پسند کہانیاں سناتیں۔ اللہ میاں کو تو میں صرف دادی اماں کے توسط سے جانتا تھا۔ جس
طرح دادی اماں کہتیں کہ اللہ میاں ایسے ہیں ویسے ہیں۔ بس اسی طرح مجھے خواب میں
اللہ میاں دکھائی دے جاتے یا پھر تصور میں دادی اماں کی بیان کردہ صورت آ جاتی
بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان دنوں دادی اماں اللہ میاں کی جو بھی صفت بیان کرتیں وہ ساری
کی ساری مجھے دادی اماں میں نظر آ جاتی۔میرا ننھا سا ذہن اللہ میاں کو دادی کے
وجود میں دیکھا کرتا ۔ جیسے جیسے عقل و سمجھ بڑھتی گئی دادی کی محبت بھی بڑھتی گئی
اور دادی کے ساتھ ساتھ اللہ میاں سے بھی پیار بڑھتا رہا۔ کیونکہ دادی اماں اکثر و
بیشتر اللہ میاں کی بڑی پیاری پیاری کہانیاںسنایا کرتیں۔ ایک کہانی تو مجھے اتنی
پسند تھی کہ میں نے فرمائش کر کے اسے بچپن میں کئی مرتبہ سنا۔ وہ کہانی میرا دل اب بھی دہراتا رہتا ہے۔
وہ
بڑے پیار سے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے کہتیں۔
ایک بڑی سی حویلی تھی۔ خوب بڑی۔ میں جھٹ کہتا۔ ہمارے گھر جیسی ؟دادی اماں ۔ کہتیں
ہاں بالکل ہمارے گھر جیسی۔ اس میں ایک چاند سا لڑکا رہتا تھا۔ میں بے ساختہ کہہ
اُٹھتا میرے جیسا دادی اماں ؟ بالکل تمہارے جیسا بیٹے۔ اس کے ماں باپ اس بچے سے
بہت پیار کرتے تھے مگر سب سے زیادہ پیار بچے کی دادی اس بچے سے کرتی تھی۔ میں پھر
بول پڑتا جیسے آپ مجھ سے کرتی ہیں دادی اماں؟ بالکل اسی طرح بیٹے۔ پھر وہ گہرے
گہرے لہجے میں کہتیں ۔ پیار کا بھی ایک رنگ ہوتا ہے بیٹے۔میں کہتا پیار کا بھی رنگ
ہوتا ہے؟وہ کہتیں ، ہاں! پیار کا بھی رنگ ہوتا ہے۔ وہ لڑکا دادی اماں کے پیار کے
رنگ میں رنگ گیا۔ ایک دن اس لڑکے نے اپنی دادی سے پوچھا۔ دادی اماں آپ نے پیار کا
رنگ کہاں دیکھا؟ دادی اماں نے کہا۔ دور آسمان کے کنارے پر ایک دریا ہے۔ اس دریا میں
پیار کا رنگ بہتا ہے۔ یہ دریا اللہ میاں کی محبت کا دریا ہے۔ اس دریا میں جو بھی
نہا لیتا ہے۔ وہ رنگین ہو جاتا ہے۔ جیسے تمہاری امی دوپٹہ رنگتی ہیں نا۔ رنگین پانی
میں سفید دوپٹہ ڈال دو تو دوپٹہ پانی کے رنگ کا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ میاں کی
محبت کے دریا میں بھی جب کوئی نہا لیتا ہے تو وہ بھی رنگین ہو جاتا ہے۔
یہ
سن کر لڑکے کو شوق ہوا۔ وہ اپنی دادی سے ضد کرنے لگا کہ میں بھی دریا میں نہا ئوں
گا۔ آخر ایک دن اس کی دادی نے اس کی بات مان ہی لی۔ اس کو خوب نہلا دھلا کر اچھے
اچھے کپڑے پہنائے، کنگھی کی، پھر ہاتھ پکڑ کر کوٹھے پر سب سے اونچے کمرے میں لے گئی۔
یہ کمرہ دادی اماں کی عبادت گاہ تھا۔ یہاں وہ عبادت کرتی تھیں۔ کمرہ بالکل خالی
تھا اس کی دیواروں پر سفید چاندنی بچھی تھی اور ایک جانب خوبصورت پھولوں کا گلدستہ
رکھا تھا۔ دادی اماں نے کمرے میں پہنچ کر لڑکے سے کہا۔ فرش پر بیٹھ جائو، پھر خود
بھی بچے کے پاس بیٹھ گئیں۔ بچے سے کہا۔ اب ہم آسمان کے کنارے اللہ میاں کی محبت
کے دریا میں نہانے جا رہے ہیں۔ تم آنکھیں بند کر لو پھر خود بھی آنکھیں بند کر لیں
اور آہستہ آہستہ کہنے لگیں ہم دونوں چڑیا کی طرح ہلکے پھلکے ہیں۔ ہم چڑیا کی طرح
اڑ رہے ہیں۔ ہم زمین سے بہت دور آسمان کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ دیکھو محبت کا دریا
بہہ رہا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑو۔ اب ہم اس میں نہا رہے ہیں۔ ارے تم تو بالکل رنگین ہو
گئے۔ دادی اماں آپ بھی تو رنگ گئی ہیں۔ بند آنکھوں سے وہ لڑکا اس دریا کو دیکھتا۔ اس میں اپنی دادی کے ساتھ
نہاتا۔
سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی
سعیدہ خاتون عظیمی نے ’’ اندر کی دنیا کا مسافرــ‘‘ کتاب لکھ کر نوعِ انسانی کو یہ بتایا ہے کہ دنیا کی عمر کتنی ہی ہو۔بالآخر اس میں رہنے والے لوگ مرکھپ جائیں گے اور ایک دن یہ مسافر خانہ بھی ختم ہو جائے گا۔ اس مسافر خانے میں لوگ آتے رہتے ہیں اور کردار ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ جس روز مسافر کا کردار پورا ہو جائے گا۔ مسافر خانہ نیست و نابود ہو جائے گا۔ لیکن اللہ کے ارشاد کے مطابق پھر ایک دوسرے عالم میں ہو گا اور جو اس دنیا میں کیا تھا اس کی جزا و سزا بھگتنی ہو گی۔کتاب ’’ اندر کا مسافر‘‘ پڑھ کر ذہن میں لاشعوری دریچے کھلتے ہیں ۔ اس کتاب کے مطالعے سے مادی حواس کی درجہ بندی کا علم حاصل ہوتا ہے ۔ اندر باہر کی دنیا کا ادراک ہوتا ہے ۔ کوئی مسافر اپنی جگ مگ کرتی دنیا میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سعیدہ کو اَجرِ عظیم عطا فرمائے۔
اور
لوگوں کو ان کی اس کاوش سے فائدہ پہنچائے۔ (آمین)
حضرت
خواجہ شمس الدین عظیمی
۹ اپریل ۱۹۹۷ ء