Topics
سوال:
ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کی
تمام تر تعلیمات کی تکمیل کے باوجود انسان نے اختلاف و انتشار و بیزاری، خونریزی
اور ہلاکت انگیزی مکمل طور پر ختم نہیں کی۔ اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟
جواب:
غورو فکر سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کی بنیادی وجہ انسان کا صرف اور صرف اپنی
عقل ہی کو سب کچھ سمجھ لینا ہے۔ بلاشبہ عقل اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے لیکن لوگ
یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ اگر انتہا عقل ہی انسان کے لئے کافی تھی تو پھر پیغمبروں
کے بھیجنے اور وحی کی رہنمائی عطا فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟
تمام
مادی اشیاء کی طرح عقل کی بھی محدودیت ہے۔ وہ وہیں تک ان کی رہنمائی کر سکتی ہے
جہاں تک اس کی حد ہے۔ مادہ Matterو رائے مادہ Anti
Matterکی
لامحدودیت کو کیسے پا سکتا ہے؟ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اس عقل نے انسان کو
فکر و عمل کی انتہائی بلندیوں پر پہنچایا وہیں اسے درماندگی اور پریشانیوں کے گہرے
گڑھوں میں بھی دھکیلا ہے۔ آج نوع انسان ہلاکت و خونریزی اور خوف و انتشار کے عذاب
میں مبتلا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے اور انسان جب تک عقل کو ہدایت الٰہی کے
تابع نہیں کرے گا اس کے مسائل یونہی لاینحل رہیں گے۔
اللہ
کے نیک اور برگزیدہ بندے ہر دور میں ہدایت الٰہی کی روشنی پھیلاتے رہے مگر نوع
انسانی کے بیشتر افراد کو ان کی فکر کے اسی تضاد نے حقیقت تک نہ پہنچنے دیا۔ مشہور
محقق اور نامور مصنف ڈاکٹر سید حسن نصر نے اپنی مشہور کتاب ’’Three
Muslim Stages’’ میں شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ شیخ
ابن عربی کا زمانہ چھٹی سے ساتویں ہجری کا ہے۔ اس زمانے میں ابن رشد کا طوطی بولتا
تھا۔ جنہوں نے ارسطو کی تعلیمات کا ترجمہ کیا تھا اور وہ شیخ اکبر کے والد کے
بہترین دوست تھے۔
ابن
رشد نے شیخ ابن عربی کا بہت تذکرہ سنا تو ان کے والد کے ذریعے شیخ سے ملاقات کے
خواہاں ہوئے۔ چنانچہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے ابن رشد سے اپنی ملاقات کا
احوال یوں بیان کیا ہے:
جب
میں مکان میں داخل ہوا تو اس فلسفی مرد نے مجھ سے بہت محسنیت اور گرمجوشی کا اظہار
کیا پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’
ہاں ‘‘ میں نے جواب میں کہا ’’ ہاں ‘‘ چنانچہ وہ بہت خوش ہوئے اور یہ سمجھے کہ میں
ان کی بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں مگر اب میں ان کی خوشی کی عادت سے آگاہ ہو چکا
تھا چنانچہ ساتھ ہی میں نے ‘‘نہیں’’ بھی کہہ دیا۔ ابن رشد کے چہرے کا رنگ متغیر ہو
گیا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ سوچ رہے تھے اس کے بارے میں انہیں شک پڑ
گیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا ’’تم نے اشراق و الہام کے توسط سے کون سا حل
معلوم کیا ہے؟’’ میں نے جواب دیا۔ ’’ہاں اور ناں’’ ہاں اور ناں کے مابین نفوس اپنے
مادے سے فرار ہوتے ہیں اور گردنیں اپنے بدنوں سے جدا ہو جاتی ہیں۔ ابن رشد یہ سب
سن کر زرد پڑ گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ کانپ رہے ہیں ان کے منہ سے یہ کلمات بندگی
نکلے’’لا حول ولا قوۃ ‘‘اس لئے کہ جس امر کی جانب میں نے اشارہ کیا تھا وہ
اسے سمجھ گئے تھے۔ اس کی تھوڑی دیر بعد ہماری ملاقات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد میں
کسی اور موقع پر ان سے دوبارہ ملاقات کا خواہاں ہوا، عنایت ایزدی کے باعث وہ عالم
مخفی میں میرے سامنے آ گئے اور اس انداز میں کہ میرے اور ان کے درمیان روشنی کا
ایک پردہ حائل تھا اور میں اس پردے میں انہیں دیکھ رہا تھا مگر وہ مجھے نہیں دیکھ
سکتے تھے۔ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ میں وہاں ہوں۔
درحقیقت
وہ غور و تامل میں یوں مستغرق تھے کہ میرے بارے میں آگاہ ہو ہی نہ سکے۔ پھر میں نے
اپنے آپ سے کہا ’’ان کا تفکر و تامل انہیں وہاں نہیں لے جا سکتا جہاں میں ہوں
‘‘بعد ازاں ان سے میری ملاقات نہ ہو سکی۔
ابن
رشد مراکش میں انتقال کر گئے ان کا جسد خاکی قرطبہ میں منتقل کر دیا گیا جہاں ان
کا مقبرہ واقع ہے۔ ان کا تابوت باربرداری کے جانور کے ایک پہلو میں لدوایا گیا
تھا۔ دوسرے پہلو میں ان کی تصانیف لادی گئیں تھیں تا کہ توازن برقرار رہے۔ ابن
عربی نے اس موقع پر کہا ’’میں اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو خود سے کہتا ہوں ایک
جانب شیخ دوسری جانب تصانیف، ہائے! میں کس قدر خواہاں ہوں کہ پتہ چلے کہ اس کی
امیدیں بر آئیں یا نہیں۔’’
موجودہ
دور کے عظیم سائنسدان قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو دہراتے
ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ انسانی ذات یا’’ انا‘‘ہے جو رب سے جدا نہیں ہو سکتی
اور یہی معرفت الٰہیہ کا پہلا قدم تو وہ معرفت الٰہیہ سے محروم ہے۔ دوسری جگہ
فرمایا ’’ انا‘‘ کے صفت الٰہیہ میں جذب ہونے کی کئی منزلیں ہیں اور پہلی منزل
ایمان لانا ہے اور اس ایمان کے بارے میں قرآن پاک نے اپنی ابتدائی آیت میں شرائط
بندی کر دی کہ ’’اس عظیم المرتبہ کتاب میں کوئی شک نہیں ہے اور اس میں اللہ سے
ڈرنے والوں یعنی ان لوگوں کے لئے جو برائی سے بچنا اور نیکی کے راستے پر چلنا
چاہتے ہیں، جن کے دلوں میں اس راستے پر چلنے کا رجحان Aptitudeہے۔
صرف
ان کے لئے اس میں ہدایت ہے۔ اور پھر وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو غیب پر ایمان لاتے
ہیں غیب پر یقین رکھتے ہیں۔ اب اس حوالہ کے بعد قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ
’’قانون یہ ہے کہ غیب کی دنیا سے متعارف ہونے کے لئے غیب کی دنیا پر یقین رکھنا
ضروری و لازمی ہے۔’’
اب
اس کی روشنی میں تمام بات صاف ہو جاتی ہے کہ وہ تمام لوگ جو صرف اور صرف عقل کی
موشگافیوں پر یقین رکھتے ہیں اور اسی کے ذریعے اس حیات و کائنات کو سمجھنا اور اس
کی گتھیوں کو سلجھانا چاہتے ہیں وہ کس قدر نادانی میں مبتلا ہیں اور کیوں اس حیات
و کائنات کی صداقتوں تک نہیں پہنچ سکتے!
ابن
رشد اور شیخ اکبر محی الدین عربی کا اس سے پہلے بیان کردہ واقعہ اس کی بہترین مثال
ہے۔ عقل صرف ہاں کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ زندگی کی حقیقت نفی اور اثبات میں مضمر
ہے۔
قلندر
بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں کہ کائنات کی ساخت میں نسمہ(نظر نہ آنے والی روشنی) ہر
چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اس کی ساخت میں موجود چھوٹے سے چھوٹے کم ترین جز کی
بنیاد دو قسموں پر ہے۔ ایک منفی اور ایک مثبت اور ان ہی دو صلاحیتوں کے توازن کا
نام نسمہ ہے۔ گویا نسمہ حرکت کی ان بنیادی شعاعوں کا نام ہے جو کسی بھی وجود کی
ابتداء کرتی ہیں اور حرکت اس جگہ ان لکیروں کو کہا گیا ہے جو ہمارے اطراف خلاء میں
اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ نہ ان میں کوئی فاصلہ ہے اورنہ وہ ایک دوسرے میں پیوست
ہیں اور یہی وہ لکیریں ہیں جو تمام مادی اجسام کی بناوٹ میں اصل (Base)
کا کام دیتی ہیں۔
روحانی
سائنسدان قلندر بابا اولیاءؒ نے کائنات کی اصل کے بارے میں تمام رموز کو کھول کر
عامتہ الناس کے لئے عام کر دیا۔ اب اس میں دو نکتے بہت اہم ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ
اس سے پہلے روحانی علوم کا حصول عامتہ الناس کے لئے قریب قریب ناممکن تھا۔
دوسرے
جو چند طالبان حق اس راہ میں قدم رکھتے تھے ان کو اتنی طویل صبر آزما مشقتوں سے
گزرنا پڑتا تھا کہ ان میں سے بہت کم کو ہی گوہر مقصود ہاتھ آتا تھا۔ بزرگان کرام
خود بھی ان علوم کی عام اشاعت سے حد درجہ احتیاط کرتے تھے۔ اس بات سے اس دور کے
جبر کا بھی ایک عام اندازہ ہوتا ہے کیونکہ مطلق العنان بادشاہتیں اور سلطنتیں قائم
تھیں جبکہ عام مسلمان گروہوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ان کے اذہان محدود اور
فرسودہ رسوم و روایات کے اس درجہ پابند ہو چکے تھے کہ نئے انداز سے کوئی بات کرنا
فساد برپا کرنا ہو جاتا تھا۔
موجودہ
دور میں قلندر بابا اولیاءؒ کی نگاہ حقیقت بین و زمانہ شناس نے آنے والے دور کی
جھلک دیکھی تو انہوں نے ان تعلیمات کو ان کی تمام تر حقیقتوں اور سچائیوں کے ساتھ
عام کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کی عارفانہ نگاہ نے یہ دیکھ لیا تھا کہ مادی ترقی کے
اس عروج کے بعد جو ماحول پیدا ہوا اس میں انسان روحانی سچائیوں اور اپنے خالق کی
تلاش میں ضرور سرگرداں ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے اس امر کو ضروری سمجھا کہ انسان کے
ایمان کی پیاس کی تشنگی کے لئے حقیقت اور سچائی پر مبنی رموز کو واضح انداز میں
بیان کر کے آنے والوں کے لئے محفوظ کر دیا جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی کتاب ‘‘لوح
و قلم’’ میں ایک جگہ انہوں نے اس کا ذکر بھی کر دیا۔
’’
مستقبل کے خوفناک تصادم چاہے معاشی ہوں یا نظریاتی، نوع انسانی کو مجبور کر دیں گے
کہ وہ بڑی سی بڑی قیمت لگا کر اپنی بقاء تلاش کرے اور بقاء کے ذرائع قرآنی نظام
توحید کے سوا کسی نظام حکمت میں نہیں مل سکتے۔‘‘
آج
کے حالات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی بات کس قدر سچ ثابت ہو رہی ہے۔ اب آیئے ٹائم
اینڈ اسپیس کے قانون کی طرف۔ یہ بات تو واضح ہو گئی کہ تمام اجسام نسمہ کی حرکات
کا مجموعہ ہیں اور ان کی لکیریں ہی تمام مادی اجسام میں آپس کے رابطے کا کام دیتی
ہیں۔ یہ لکیریں کیا ہیں؟ یہ مفرد اور حرکت کا مجموعہ ہیں۔ نسمہ کی یہ حرکت جب مفرد
وضع پر رہتی ہے تو یہ اکہری پر مشتمل ہوتی ہے اور ان حرکات کے مجموعہ میں جتنے بھی
نقش و نگار بنتے ہیں وہ جنات یا جنات کی دنیا ہیں اور جب یہی حرکات تانے اور بانے
کی طرح ایک دوسرے کی مخالفت میں حرکت کرتی ہیں تو ان سے جو نقش و نگار بنتے ہیں
اسے انسان یا انسان کی دنیا کہا جاتا ہے۔ اب اس کے بھی دو درجہ ہیں جب تک یہ حرکات
غیر محسوس درجہ میں رہتی ہیں تمثل کہلاتی ہیں اور نظر نہیں آتیں اور جب یہ حرکات
محسوس دائرے میں آ جاتی ہیں تو یہ جسم کی شکل اختیار کر لیتی ہیں جو مادیت یا
مشاہدے کے زمرے میں آ جاتی ہیں۔ پہلے مرتبے کا نام عالم ارواح ہے اور دوسرے مرتبہ
کا عالم مثال۔
نیابت:
اللہ
تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی صلاحیتوں کو اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوئے علم الاسماء کی
روشنی میں سمجھنا اور اس کے مطابق دنیا و کائنات کے امور کو سر انجام دینا نیابت
کہلاتا ہے۔ انسان جب نیابت کے اس درجہ کا ادراک کر لیتا ہے تو اس پر یہ منکشف ہو
جاتا ہے کہ اس حیات و کائنات میں کوئی ایسی چیز بھی ایسی نہیں جس کی بنیاد اللہ
تعالیٰ کے نور پر قائم نہ ہو یعنی تمام کائنات میں جو کچھ بھی ہے اس کا وجود اللہ
تعالیٰ کی ذات سے (Feed) ہو رہا ہے اور جب یہ تجلی اس پر سے ہٹ جاتی
ہے تو وہ فنا ہو جاتا ہے اور باقی رہ ہی نہیں سکتا!
اب
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ہر چیز پر اللہ تعالیٰ کی تجلی اپنی پوری آن بان کے
ساتھ جلوہ فگن ہے تو پھر یہ بگاڑ، یہ انتشار، یہ شر، یہ فساد کہاں سے آتا ہے؟ کیسے
پیدا ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام حیات و کائنات میں ہر چیز کسی نہ کسی
قانون کے ماتحت کام کر رہی ہے۔ ہر کام کے لئے ایک ضابطہ مقرر ہے جب وہ اس ضابطہ سے
ہٹتا ہے کسی خرابی یا عدم توجہی کی وجہ سے اس میں خلل واقع ہوتا ہے تو اس روشنی
میں جو کائنات کے محدود سے محدود ترین ذرے تک میں گردش کر رہی ہے۔ اس کی رفتار اور
(Frequencies)
میں خلل واقع ہوتا ہے اور اس خلل کی وجہ سے ناخوشگوار نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً
بجلی کی منفی اور مثبت برقی رو جب تک اصول اور ضابطے کی رو سے بہتی رہتی ہے، مفید
اور کارآمد نتائج پیدا کرتی ہے اور جب کسی وجہ سے اس میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو
وہی قہر بن جاتی ہے جس کو عرف عام میں ‘‘شارٹ سرکٹ’’ کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ یہی
معاملہ جب اشخاص کی طرف واقع ہوتا ہے تو اس کی وجہ ناگہانی آفت، قسمت، تقدیر کہہ
کر سوچنے کی راہ بند کر لی جاتی ہے۔ حالانکہ لوح محفوظ کے قانون کے مطابق تجلی جو
ہمیشہ خیر ہی خیر ہوتی ہے اس کی طرف Feedکرنے لپکتی ہے مگر
جب شخص مذکور اپنے جسم کے محدود ترین خول میں تعفن یا کثافت پیدا کرتا ہے تو پھر
یہی تجلی اس سے بے رخی اختیار کر کے ان قوتوں کی طرف چلی جاتی ہے جو خیر کی
پاکیزگی اور نفس مطمئنہ کی حلاوت سے معمول ہوتے ہیں اور اس طرح انہیں شاد کام کرتی
ہے اور خیر کا یہ (Circle) جاری و ساری رہتا ہے۔ قرآن میں سورہ مطففین
میں اور حدیث میں بیان کردہ دنوں کا زنگ یہی تعفن اور کثافت ہے۔
اب
سوال یہ ہے کہ ہم کون سا وہ کام کریں کہ ہمارے اندر وہ کثافت و تعفن پیدا نہ ہو جو
خیر کی تجلی کو ہم سے دور کر دیتا ہے اور ہم محروم و مایوس و منتشر رہ جاتے ہیں۔
اس کا واحد طریقہ جیسا کہ اس سے پہلے شروع میں بیان کیا گیا، اپنے اندر یقین و
ایمان کا پیدا کرنا ہے۔ یہ یقین کا (Pattern) ہی ہے جو ہماری ذات میں جتنا مستحکم ہو گا
اتنا ہی ہم اللہ کی معرفت سے اور حیات و کائنات کی اصل سے واقف ہو سکتے ہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ یقین یہ ایمان کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ اگر یہ ہماری عقل
سے وجود میں آتا ہے تو یہ نہایت ہی ناپائیدار بنیاد پر ہے۔ یہ وہ عمارت ہے جو کسی
بھی وقت گر سکتی ہے۔ ہاں اگر یہ ایمان ہمارے نفس ہماری ‘‘انا’’ یا روح کی گہرائی
سے وجود میں آتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک پائیدار بنیاد ہے۔ اب یہاں سے
ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ روح کیا ہے؟
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’
روح‘‘ ایک ’’امرربی ہے۔ ‘‘
یعنی
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے براہ راست ہمیں عطا کی گئی ہے اور یہی وہ پائیدار چیز ہے
جو واپس اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائی جائے گی۔
جب
ہم اس پر مزید تفکر کرتے ہیں اور اپنے ایمان کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی عبودیت و
حقانیت پر استوار کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ وہ گراں بہا عطیہ ہے جس میں
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات بحد بشریت ہمیں عطا کی ہیں اور یہی وہ تحفہ ہے جس نے
ہمارا رشتہ تمام کائنات سے جوڑ رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہم پر یہ شعوری طور پر
واضح ہوتا ہے کہ ہمارا یہ جسم دراصل ایک عارضی لباس ہے جسے ایک وقت خاص تک ہمیں
پہنے رہنا اور اس کے بعد ہماری اصل یعنی روح کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے۔
جہاں اپنے اوپر گزرے ہوئے احوال کا حساب کتاب پیش کرتا ہے۔
اب
یہیں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ تخلیق آدم کا مقصد کیا تھا؟ ہمیں اس پر غور کرنے کی
ضرورت ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک حدیث قدسی ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ
’’
میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں۔‘‘
اور
اس نے اس حسین و جمیل اور محیر العقل کائنات کو بکمال محبت تخلیق فرمایا چنانچہ ہم
دیکھتے ہیں کہ اس کی تمام صفات میں رحمت اور قدرت غالب ہے۔ چاہے وہ خالقیت کی صفت
ہو یا رزاقیت کی۔ ان تمام میں رحمت ہی رحمت ہے اور کمال یہ ہے کہ وہ خود بے نیاز
ہے، مقدم ہے، اول ہے، آخر ہے، باطن ہے، ظاہر ہے، غرض وہ کیا نہیں ہے؟ کون سی خوبی
ہے جو اس میں نہیں ہے، کون سی بڑائی ہے جو اس میں نہیں سمائی ہے مگر انسان نے اس
انسان نے جس کے لئے نعمتوں کا کوئی حساب نہیں، کبھی سوچا کہ یہ سب کچھ کس کے لئے
ہے؟ صرف ہمارے لئے کیونکہ اس کی رحمت اس کی ہر صفت پر غالب ہے مگر ہم ہیں کہ ہمیں
ہمارے آئینہ خانے ہی سے فرصت نہیں؟ خود ہی بنتے ہیں، خود ہی سنورتے ہیں اور خود ہی
ان آئینوں کو توڑ دیتے ہیں جو ہماری اصل شکل ہمارے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔
کائنات
کی اصل تعمیر ہے اس میں تخریب چل نہیں سکتی۔ ہماری بھلائی اسی میں ہے کہ ہم اس
کائنات کی کہنہ سے واقف ہو کر اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ادا کریں۔ قلندر
بابا اولیاءؒ ان پاک طنیت بزرگوں میں سے تھے جنہیں عقل و شعور کی آگاہی حاصل تھی۔
ہمارا
فرض ہے کہ ہم اپنی بقاء کے لئے ان تعلیمات کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اپنے علم و عمل
کے ذریعے ساری دنیا میں پھیلائیں۔ آج مادیت کے مارے ہوئے ذہنوں کو جتنی ضرورت ان
تعلیمات کی ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ قدرت اپنا کام کر کے رہتی ہے اگر ہم نے یہ
کام نہ کیا تو کوئی دوسری قوم اٹھے گی اور یہ کارنامہ ان کے سر رہے گا۔ انسان کا
مستقبل توحید الٰہی کے نور میں پوشیدہ ہے جس دل میں ایمان کا کوئی بھی ذرہ پوشیدہ
ہے وہ اس نور سے منور ہو جائے تو ایک عالم روشن ہو جائے اور یہ حیات و کائنات اپنے
خالق کے نور سے حیات نو کے گلزار کھلا دے گی۔ قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات پر
جتنے غور و فکر کی آج ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔
انسانیت
کے در پر ایک مرد قلندر کی صدا اس کی حیات نو کی دلیل ہے۔ اے گوش حق تشنوں! اس صدا
کو اپنے ذہن و دل میں جذب کر لو کہ یہی وقت کی ندا ہے اور اسی میں آپ کی بقاء ہے۔
اگر
ہم بہ نظر غائر دیکھیں تو طرز فکر ہی کائنات کا حسن بھی ہے اور کائنات کی بدصورتی
بھی ہے۔ حسن ان معنوں میں کہ طرز فکر اگر مثبت ہے تو کائنات کا ذرہ ذرہ روشن کرنوں
کی طرح ہمارے رگ و پے میں سما کر ہمارے اعمال و کردار کو ایسے سانچوں میں ڈھال
دیتا ہے جن سے محبت، خلوص و ایثار اور انسان دوستی پروان چڑھنے لگتی ہے۔ اور اگر
طرز فکر منفی ہے تو معاملات اس کے بالکل برعکس نمودار ہونے لگتے ہیں۔
دراصل
یہ پوری کائنات ایک ایسا عکس خانہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں بھی عکس پڑ رہا ہے، پلٹ
کر یہ وہی عکس ہمیں دکھا رہی ہے۔
اگر
ہم اس کے ارد گرد پھول ہی پھول بکھیر دیتے ہیں تو اس کے آئینے ہمیں پھول ہی دکھاتے
ہیں اور اگر ہم اس کے سامنے کانٹوں اور خس و خاشاک کا ڈھیر لگا دیں تو ہماری
نگاہیں کومل اور خوش رنگ پھول ہرگز نہ دیکھ سکیں گی۔ ہمیں کانٹے ہی نظر آئیں گے جن
کی چبھن تک ہم اپنے دلوں میں محسوس کریں گے۔
اگر
ہم ذرا گہرائی میں جا کر غور کریں تو ہمارے سامنے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان
کے ہر عمل کی عکس بندی ہو رہی ہے۔ اور جن معاملات سے انسان نبرد آزما ہو رہا ہے وہ
تمام کے تمام اس عکس بندی کی تصویری شکلیں ہیں۔ نتائج مثبت انداز میں بھی آ رہے
ہیں اور منفی انداز میں بھی آ رہے ہیں۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ نتائج کی یہ دو
صورتیں کیوں ہیں؟ صرف مثبت یا صرف منفی نتائج ہی کیوں ہیں برآمد ہوتے ہیں؟ قدرت کا
یہ قانون ہے کہ سورج کی شعاعوں سے تپش ہی پیدا ہوتی ہے اور چاند کی کرنیں فضا میں
ٹھنڈی لہریں بکھیرتی ہیں۔ ٹھیک یہی حال انسان کی طرز فکر کا ہے اگر خیالات میں
پاکیزگی، محبت کی ہمہ گیری، انسانی قدروں میں موجود ہو گی۔ جھوٹ، بے ایمانی، فریب
اور غصے سے نفرت ہو گی، اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمت افراد معاشرہ کا شعار ہو گا
تو یہ تمام کا تمام انداز فکر مثبت لہریں بکھیرنا شروع کر دیتا ہے اور فضا دھنک
رنگوں سے معمور ہو جاتی ہے اور خود انسان چونکہ ان ہی فضاؤں کا باسی ہے لہٰذا اس
کے اپنے دامن میں بھی دھنک رنگوں کی بہار بسیرا کر لیتی ہے۔ اور غم و آلام اس کے
پاس بھٹکنے بھی نہیں پاتے۔
منفی
طرز فکر شیطانی وسوسوں اور کثافت سے لبریز ہوتی ہے۔ جس طرح آتش فشاں پھٹ کر گرم
لاوا انڈیلنے لگتا ہے اور آس پاس کی سرسبز و شاداب وادیوں کو جلا کر خاکستر کر
دیتا ہے اسی طرح منفی طرز فکر کا حامل انسان اپنے اندر ایکبتی جلا لیتا ہے۔ جس میں
وہ خود بھی جلتا رہتا ہے اور اپنے ماحول کو بھی اسی کی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ غصہ،
مکر و فریب، بے ایمانی، ہوس زر، ظلم و ستم، منافقت اور اسی قسم کی تمام برائیاں
منفی طرز فکر کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ منفی طرز فکر ہی تو تھی جس نے ہیروشیما اور
ناگا ساکی پر ایٹم بم برسائے اور لاکھوں انسان آن واحد میں لقمہ اجل بن گئے اور آج
بھی اسی منفی طرز فکر کا حامل انسان اس کوشش میں سرگرداں ہے کہ ایسے مہلک ہتھیار
بنائے جائیں جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کی جانیں لے سکیں۔
یہ
کیسی بے حسی ہے کہ آدمی، آدمی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ شعوری سطح اس قدر گر چکی ہے کہ
اللہ رب العزت نے جسے اپنا نائب اور خلیفہ بنا کر اس زمین پر بھیجا وہ اپنے منصب
کے تمام اختیارات بھلا بیٹھا اور اپنی ہی قبر خود اپنے ہی ہاتھوں کھودنے لگا، جس
شاخ پہ بیٹھنا ہے اسے ہی کاٹ ڈالتا ہے اور خود ہی قعرمزلت میں دھنستا چلا جا رہا
ہے۔ اللہ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے کے بجائے پرپیچ گلیوں میں بھٹکتا پھر
رہا ہے۔
انسانوں
سے تو اللہ کی محبت کا یہ حال ہے کہ جب بھی نوع انسانی اپنے منفی ارادوں کی تکمیل
میں تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچی اسی دم اللہ پاک نے ہدایت کے لئے کوئی
پیغمبر بھیجا اور تمام پیغمبروں کی تعلیمات یہی رہیں کہ انسان صرف اور صرف مثبت
طرز فکر کو ہی اپنائے اور ان ہی پر عمل پیرا ہو کر اللہ کی سرخروئی حاصل کرے تا کہ
مصائب و آلام اور جملہ پریشانیوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے۔ پیغمبروں کی آمد کا
سلسلہ حضور نبی کریم احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ ﷺ کی تشریف آوری پر ختم ہوا۔ آپﷺ کی آمد تمام عالمین
کے لئے باعث رحمت قرار پائی۔ آپﷺ پر قرآن
پاک کا نزول ہوا۔ قرآن پاک جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور علم کا ایک ایسا سمندر ہے
کہ جس سے تفکر کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔ یہ کتاب مبین اپنے ظاہر و باطن کی وسعت میں
گوناں گوں آسمانی نعمتوں کی ایک بھرپور کائنات ہے۔ جو انوار خداوندی سے منور
درخشاں اور سماوی علم و حکمت سے بھرپور ہے۔ جس میں رب جلیل و کریم نے اپنی رحمت بے
پایاں سے سب کچھ عطا کر دیا ہے۔
مثبت
طرز فکر کو اپنے اندر متحرک کرنے کے لئے ہمیں اپنی نفسانی خواہشات کے بے لگام
گھوڑے کو سدھانا پڑے گا۔ کیونکہ دنیائے ظاہر میں ایک بار توڑا ہوا بت پھر کبھی
اپنے آپ درست، سالم اور بحال ہو کر بت نہیں بن سکتا۔ مگر آدمی کے اندر نفس یا خود
نمائی کا صنم (بت) ایسا ہے کہ اسے بار بار توڑ کر ریزہ ریزہ کرنے کی ضرورت پڑتی
ہے۔ اس لئے کہ وہ ہر بار از خود زندہ ہو جانے والا جادوگر ہے۔ حقیقت میں ہم قرآن
پاک کی روح سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ قرآن پاک کا فہم و ادراک ہم سے چھن گیا ہے۔ اور
اس محرومی نے ہمیں اپنی اصل سے جدا کر دیا ہے۔ لوگ رفتہ رفتہ اپنی اصلیت و حقیقت
سے دور ہو گئے۔ باالفاظ دیگر وہ بیماری ہے جن کے علاج کے لئے قرآن پاک کا نزول ہوا
تھا کہ ہر شخص اپنی اصل کی طرف لوٹ کر بحقیقت عکس آدم ہو جائے۔ مگر یہ اسی صورت
میں ممکن ہے کہ ہم قرآن کی روح کو سمجھ لیں اور سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں۔
قرآن پاک کو صرف ثواب کی خاطر نہ پڑھا جائے بلکہ اللہ پاک کے فرمان پر غور و فکر
کیا جائے۔ گہرائی میں جا کر انہیں سمجھنے کی سعی کی جائے۔ اس طرح شعور کی سکت
بڑھتی جائے گی اور پھر ذہن میں قرآن پاک کی روح کے اسرار و رموز کی تجلیات جگمگا
اٹھیں گی۔ اور دلوں میں یہ صدائے بازگشت سنائی دینے لگے گی کہ قرآن پاک اول تا آخر
مثبت طرز فکر اور مثبت طرز عمل کی ہی دعوت دے رہا ہے اور تمام منفی اعمال سے بچنے
کی تلقین کر رہا ہے۔
امام
سلسلہ عظیمیہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات کا محور یہی ہے کہ ذہن انسانی
میں اللہ کی مرکزیت قائم ہو جائے اور اللہ اور بندے کے درمیان رشتے کی جو مستحکم
ڈور ہے، اس ڈور کے جھول کو ختم کیا جائے۔ کسی بھی طریقے سے ذہن انسانی کو اللہ سے
ہم رشتہ کر دیا جائے۔ کیوں کہ دنیاوی اسباب میں اتنی زیادہ کشش ہے کہ وہ ہر آن
انسان کو اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے۔ افکار کی تقسیم در تقسیم اور خیالات کی یلغار
نے انسان کو ریزہ ریزہ بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ اس بکھرے ہوئے انسان کی یکجائی سے اس
کا تشخص اجاگر ہو کر سامنے آ سکتا ہے۔ اس یکجائی کے لئے ہمیں اللہ کی مرکزیت کی
طرف رجوع ہونا پڑے گا۔ یعنی انبیاء کی طرز فکر کو اپنانا پڑے گا کہ کسی بھی شئے سے
انسان کا تعلق براہ راست نہیں ہے بلکہ اللہ کے توسط سے ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی
طرز فکر یہ تھی کہ کسی بھی چیز کی طرف ان کا خیال جانے سے پہلے ان کے ذہنوں میں
اللہ کا خیال آتا تھا۔ حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے ذہنی مرکزیت کے قیام کے سلسلے
میں بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ نماز کا قیام اللہ سے ربط کا بہترین ذریعہ ہے۔
بشرطیکہ خلوص نیت سے نماز قائم کی جائے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے