Topics
جواب: تمام تجربات، مشاہدات اور
محسوسات کا ماخذ ذہن ہے۔ خیالات ہمارے اختیار کے بغیر ذہن میں وارد ہوتے ہیں۔ کوئی
لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب ذہن میں کوئی خیال نہ ہو۔ بھوک پیاس کا تقاضہ سونے، جاگنے
کا عمل، خوشی غمی اور دیگر جذبات، اولاد کی خواہش، پریشان کن وسوسے، جسمانی امراض
اور نفسیاتی عوارض سب کے سب خیالات کے تابع ہیں۔
الہامی کتابیں بتاتی ہیں کہ خیالات
کا ایک منبع ہے۔ خیالات کی گہرائی میں موجود نقطہ ذات منبع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی
سورس سے لاشمار اطلاعات (خیالات) ہر لمحہ، ہر آن نشر ہوتی رہتی ہیں۔ شعور ان
طلاعات کو ریسیو کرتا ہے اور معنوں کا تعین کرتا ہے۔ اور یہی اطلاعات آدمی کا علم
و حافظہ بن جاتی ہیں۔
شعور کی مثال آئینہ ہے۔ روشنی آئینہ
کی سطح سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے لیکن اگر روشنی کی شعاعوں کے سامنے ٹرانسپیرنٹ
شیشہ رکھ دیا جائے تو روشنی اس میں سے گزر جاتی ہے اور انعکاس کا عمل واقع نہیں
ہوتا۔ شعور اپنے علم و دلچسپی کی بدولت مخصوص روشنیوں کو جذب کرتا ہے۔ جن روشنیوں
کو شعور جذب کرتا ہے وہ شعور کے پردے پر رُک جاتی ہیں، آدمی انہیں دیکھتا اور
محسوس کرتا ہے۔ جو روشنیاں شعور کے پردے میں سے گزر جاتی ہیں آدمی ان سے لاعلم
رہتا ہے۔
شعوری میکانزم کے پس پردہ ایک اور
ایجنسی موجود ہے۔ شعور اس ایجنسی کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ زندگی ہر دور میں اس
ایجنسی سے وابستہ رہتی ہے۔ لیکن آدمی اس پر غور نہیں کرتا۔ اس لئے غور نہیں کرتا
کہ زندگی ایک معمول کے تحت گزر رہی ہے۔ جذبات، خیالات اور تقاضوں کے زیر اثر ذہن
ایک حالت سے دوسری حالت اور ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں منتقل ہوتا رہتا ہے۔
خیالات کی یلغار سے انسان کو ان
مقامات کا ادراک نہیں ہوتا جو اس کی اصل ہیں۔
زندگی کے مراحل اور روزمرہ کے
معمولات پر غور کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ایک بامعنی زندگی گزارنے کے لئے جن
اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہیں کہیں سے فراہم ہوتے ہیں۔ مادی زندگی میں بے شمار
صلاحیتیں کام کرتی ہیں لیکن آدمی صرف پانچ حواس سے واقف ہے۔ بصارت، سماعت، گفتار،
شامہ اور لمس۔ ذہنی یکسوئی کے ساتھ منبع اطلاعات کی طرف متوجہ ہونے سے ایسی
اطلاعات اور صلاحیتوں کا مشاہدہ ہوتا ہے جو عام طور پرحواس کی گرفت میں نہیں آتیں۔
زندگی کے بہت سے تجربات اور واقعات مادی حواس کے علاوہ آدمی کے اندر موجود ایسے
ذرائع ادراک کا پتہ دیتے ہیں جن کو ماورائے ادراک حواس، چھٹی حس، وجدان، ضمیر،
اندرونی آواز، روحانی پرواز وگیرہ کا نام دیا جاتا ہے۔
علم روحانیت کے مطابق غیب میں
لامتناہی روشنیاں موجود ہیں۔ ان ہی روشنیوں میں کہکشانی نظام، سماوی مخلوق، خلاء
میں آبادیاں اور روحانی علوم و اسرار شامل ہیں۔ جب آدمی اپنے اندر متوجہ ہوتا ہے
تو شعور کے آئینہ پر باطنی اطلاعات تصویریں بننے لگتی ہیں اور غیبی نقوش شعور کی
گرفت میں آ جاتے ہیں۔ انسان جب توجہ اور دلچسپی کے ساتھ کسی ایک نقطہ پر غور کرتا
ہے تو غور و فکر اسے شعور کے پس پردہ لاشعور میں دھکیل دیتا ہے۔ اور شعوری میکانزم
کے پس پردہ ایجنسی (لاشعور) سے وہ کسی حد تک واقف ہو جاتا ہے۔
ہم جو کچھ دیکھتے ہیں یا محسوس کرتے
ہیں وہ ایسے عوامل کے دوش پر سفر کر رہا ہے جو بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔
لیکن ان کی موجودگی کے بغیر کوئی حرکت عمل میں نہیں آتی۔ موجودات کی ہر حرکت ایک
دوسرے سے مربوط ہے۔ اور ہر آنے والے لمحے کی تعمیر پہلے لمحے پر قائم ہے۔ جبلی طور
پر ہمارا حافظہ ہمیں کشش ثقل کا پابند رکھتا ہے۔ ہم وقت اور فاصلے کی پابندیوں میں
صرف لمحہ حاضر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ جن لمحات کا نام ماضی یا مستقبل رکھا جاتا ہے
وہ ثانیہ حاضر میں شعور کی اسکرین پر جلوہ گر نہیں ہوتے۔ کائنات اور کائنات کے
تمام اجزاء اور ان کے نقوش ایک ریکارڈ یا فلم کی شکل میں موجود ہیں۔ ہماری مادی
نگاہ اس ریکارڈ کا احاطہ نہیں کر سکتی لیکن ان نقوش کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں
ہے۔ رویا کی صلاحیت انسان کو مادی سطح سے ماوراء باتوں کی اطلاع فراہم کرتی ہے۔ یہ
صلاحٰت جب بر سعمل ہوتی ہے۔ ماضی، مستقبل ، دوری، نزدیکی بے معنی ہو جاتی ہے۔
انسان کے اندر جو صلاحیتیں کام کرتی
ہیں وہ تین دائروں میں مظہر بنتی ہیں۔ اس کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ آدمی کے
تین جسم ہیں۔ مادی جسم، روشنی کا بنا ہوا جسم اور نور سے بنا ہوا جسم۔ یہ تینوں
جسم بیک وقت متحرک رہتے ہیں۔ لیکن مادی جسم (شعور) صرف مادی حرکات کا علم رکھتا
ہے۔ روشنی اور نور کے جسم کی تحریکات کو شعور محسوس نہیں کرتا۔ روشنی کے جسم کی
رفتار مادی جسم سے ساٹھ ہزار گنا زیادہ ہے۔ نور کا جسم روشنی کے جسم سے ہزاروں گنا
تیز سفر کرتا ہے۔
روحانی استاد کی زیر نگرانی سالک کی
ذہنی استعداد میں بتدریج اضافہ ہوتا ہے اور سالک کا شعور اس قابل ہو جاتا ہے کہ
روشنی کی رفتار سے متحرک جسم کی تحریکات اس کے دائرہ ادراک میں آ جاتی ہیں۔ یہ بات
واضح کر دینی ضروری ہے کہ یہاں روشنی سے مراد وہ روشنی نہیں ہے جو ہمیں نظر آتی ہے
بلکہ یہ اس روشنی کا تذکرہ ہے جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی۔ اس طرح جب شعوری
کیفیات نورانی دنیا میں جذب ہو جاتی ہیں تو سالک نور کے جسم اور اس کی تحریکات سے
واقف ہو جاتا ہے۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے