Topics

دنیا آخرت کی کھیتی

سوال: سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ‘‘دنیا آخرت کی کھیتی ہے’’۔ ازراہ کرم فرمان کی تشریح کر دیں۔

جواب: سوچ کی دو طرزیں ہیں۔

۱۔ زندہ رہنے کے لئے ماحول سے متاثر ہو کر ہم خود کو وسائل میں قید کر لیتے ہیں۔ آسائش و آرام اور روٹی کپڑے کے علاوہ دوسری کوئی شئے ہمارے لئے اہمیت نہیں رکھتی اور یہ عمل ہماری زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔

۲۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ مادی دنیا میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا ہے۔

دنیا میں عزت و جاہ کا خوشنما لباس زیب تن کرنے کے لئے ہم دولت جمع کرتے ہیں۔ اس دولت کی تشہیر کے لئے عالی شان محلات کھڑے کرتے ہیں۔ گھروں کو اس طرح سجاتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جائیں، قرض لے کر بڑی بڑی کاریں خریدتے ہیں۔

دولت سے عزت و توقیر کا حصول خود فریبی ہے۔ ایسی خود فریبی جس سے کوئی ایک فرد بھی انکار نہیں کر سکتا۔ فراعین مصر کے مقبرے شداد و نمرود کے محلات اور قارون کے زمین میں دفن خزانے ہمیں بتا رہے ہیں کہ دولت نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے اور ہر زمانے میں دولت کی حقیقت کو ہمارے اوپر آشکارا کرتی رہتی ہے۔ بڑے بڑے شہنشاہوں کا ماضی ہمارے لئے آئینہ ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ شان و شوکت اور شاہی دبدبہ کے حامل بادشاہوں کو مادر وطن میں قبر بھی نصیب نہیں ہوئی۔ سب واقف ہیں کہ سونے چاندی کے ذخیروں اور جواہرات نے امیر ترین آدمیوں کے ساتھ وفا نہیں کی۔

مٹی نہ صرف یہ کہ خود کو پہچانتی ہے۔ بلکہ ایک ایک ذرہ کو اپنی کوکھ سے وابستہ رکھتی ہے۔ مٹی کو اگر ایک فرد مان لیا جائے تو مٹی سے بنی ہوئی ہر چیز مٹی کے اعضاء ہیں۔ تانبا، لوہا، آکسیجن، نائٹروجن، ہائیڈروجن، ہیلیئم، کاربن، یورینئم، چاندی، سونا وغیرہ مٹی کے وہ اعضاء ہیں جن پر مٹی کا تشخص قائم ہے۔ آدمی کا جسم بھی مٹی سے بنا ہوا ہے۔ لیکن آدمی چونکہ اللہ تعالیٰ کی امانت کا امین ہے، اس لئے مٹی آدمی کو دوسرے اعضاء کے مقابلے میں اپنا قلب سمجھتی ہے اور جب قلب متاثر ہو جاتا ہے تو جسم ناکارہ بن جاتا ہے۔ مفلوج اور ناکارہ جسم زمین پر بوجھ ہے۔

یہ بات کون نہیں جانتا کہ آدمی چاہے تو پچاس کمروں کا مکان بنا لے لیکن سوئے گا وہ ایک ہی چارپائی کی جگہ۔ چاہے تو ہوس زر میں سونے چاندی (مٹی کے ذرات) سے خزانے بھر لے لیکن پیٹ دو روٹی سے بھر جاتا ہے۔ ماحول کو مصنوعی روشنیوں اور خوشبوؤں سے کتنا ہی معطر کر لیا جائے، آدمی کے اندر کی سڑاند کا نعم البدل نہیں ہوتا۔

زمین کی فطرت ہے کہ وہ اپنی اولاد کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہے اور صاف ستھرا رکھتی ہے اور جب اولاد تعفن سے نہیں نکلنا چاہتی تو وہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتی ہے اور اس ادبار کی وجہ سے آدمی گھناؤنا اور ناسور زدہ ہو جاتا ہے۔ بلاشبہ کسی بندے کے لئے اس سے بڑا اور درد ناک عذاب کوئی نہیں۔

‘‘اور وہ لوگ جو سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اللہ کے لئے خرچ نہیں کرتے، ان کے لئے عذاب الیم کی بشارت ہے۔’’

 (القرآن)

صدیوں سے زمین پر ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی شہادت فراہم کرتی ہیں کہ زندگی کے ادوار، زمانہ کے نشیب و فراز اور سائنسی ایجادات زمین کے سینہ میں محفوظ ہیں۔ زمین یہ بھی جانتی ہے کہ کتنی تہذیبوں نے اس کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور پھر یہ تہذیبیں میں دوز ہو کر صفحہ ہستی سے غائب ہو گئیں۔

خلا کے پار آسمان کی وسعتوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو مایوسیوں، ناکامیوں اور ذہنی افلاس کے علاوہ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ زمین کے باسیوں کا اپنی ذات سے فرار اور منفی طرز عمل دیکھ کر نیلے پربت پر جھلمل کرتے ستاروں کی شمع امید کی لُو مدھم پڑ گئی ہے۔ وہ انسان جو اشرف المخلوقات ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ ذہنی اعتبار سے حیوانات سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔ فی الوقت جو سکون بلی اور بکری کو حاصل ہے اس کا عشر عشیر بھی انسان کو میسر نہیں ہے۔

تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والی ہستی خود مختار خالق نے اس دھرتی کو ایک قطعہ زراعت بنا کر آدمی کے حوالے کیا ہے کہ وہ اس کے سینہ پر سر رکھ کر میٹھی نیند سو سکے۔ اس ہی لئے اس کی تخلیق کا ظاہری جسم مٹی سے بنایا گیا اور اس کے استعمال کی ہر چیز مٹی سے بنائی گئی ہے۔ زمین کو قدرت نے اتنا سخت نہیں بنا دیا کہ آدم زاد اس پر چل نہ سکے، اتنا نرم نہیں بنایا کہ آدم زاد کے پیر زمین میں دھنس جائیں۔ اسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ زمین پر تصرف کر سکے اور زمین کے جسم میں دوڑنے والے خون Raysسے جس طرح چاہے استفادہ کرے۔ لاکھوں کروڑوں سال پہلے کے آدم کی طرح آج بھی آدم زاد زمین کے سینہ پر کھیتی باڑی کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اس کھیتی کا ہر جزو بھی آدم کی طرح مٹی ہے۔ جو کچھ بوتا ہے اس کا بیج بھی مٹی ہے۔ پودا بھی مٹی کی بدلی ہوئی ایک شکل ہے۔ درخت بھی مٹی کے اجزاء سے مرکب ہے اور یہ پرشکوہ عمارت بھی مٹی ہے۔ بڑی بڑی ایجادات کا مصالحہ Raw Materialبھی مٹی ہے۔ آدمی جس طرح سے سبز درخت اور ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اُگاتا ہے۔ اسی طرح بلند و بالا عمارتیں۔ دیو ہیکل جہاز اور دیگر اشیاء بھی اس ہی کی تخلیق ہیں۔

آدمی مٹی ہوتا ہے اور مٹی سے ہی نتائج حاصل کرتا ہے۔ بوائی اور کٹائی کا یہ عمل متواتر اور مسلسل جاری ہے کیونکہ آدمی زمین پر ایک فعال رکن ہے اور قدرت نے اسے ارادے کا اختیار دیا ہے۔ عمل اور رد عمل، حرکت اور نتائج کے اس قانون کو نبی مکرم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

 ‘‘دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔’’

موجودہ پُر آشوب دور میں قول و فعل میں تضاد کا عالم یہ ہے کہ ہر آدمی جانتا اور کہتا ہے زمین پر وقفہ زندگی محدود ہے لیکن اس کا عمل اس کے روزمرہ مشاہدہ کے خلاف ہے۔ وہ پوری زندگی ان خطوط پر گزارتا ہے جو قانون فطرت کے خلاف ہے تخریب کا نام اس نے ترقی رکھ دیا ہے۔ دانشور انسان فلاح و بہود کے طلسمی نام پر مستقبل کی ناخوش گواریوں کو جنم دیتا ہے۔ روشن نگاہی کا دعویٰ کر کے جو کچھ کرتا ہے وہ بدترین درجہ کی کوتاہ اندیشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

سبحان اللہ کی خوب منظر نگاری ہے۔

ایٹم بم کو ترقی کا نام دے کر انسان کی اعلیٰ صلاحیتوں کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا فلاح و بہود کے دعویٰ داروں نے ایک ایٹم بم کو لاکھوں قیمتی جانوں پر فضیلت بخش دی ہے۔ انسان قدرت کی دی ہوئی صلاحیتوں کا امین ہے۔ لیکن اس نے ان صلاحیتوں کو حرص و ہوس، خود غرضی، انا پرستی اور خود نمائی جیسے جذبات کی تسکین کے لئے اپنی ذات تک محدود کر دیا ہے۔ لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا کہ فانی دنیا کے اعمال بھی فانی ہیں۔ اگر اعمال میں تعمیر ہے تو اعمال یہاں اور آخرت میں جزا ہیں اور اگر اعمال میں تخریب ہے تو اس دنیا اور آخرت کی دنیا میں سزا ہے۔ جب وہ دنیا میں تخریب ہوتا ہے تو تخریب ہی کاٹتا ہے۔

****


Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے