Topics

‘‘عالم اعراف کی سیر’’

آیئے!

آج آپ کو اعراف میں لے چلتے ہیں۔

یہ ایک ایسی بات ہے یہاں آکر جو آباد ہو گیا پھر کبھی چشم پرنم نے کسی کو واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ عالم رنگ و بو کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ یہاں آ کر بسنے والے کسی شخص نے نقل مکانی کر کے یہ بتایا ہو کہ اس پر کیا گزرتی ہے اور وہ وہاں کس حال میں زندگی گزارتا ہے۔

آرام و استراحت اور غم و آلام کے اس ماحول سے ذرا دیر کے لئے الگ ہو کر دیکھئے۔

قبرستان:
یہاں نئی، پرانی، کتبوں اور ٹالوں سے مزین درخت کے پتوں میں سایہ فگن، سورج کی تپش اور تمازت میں جھلسی ہوئی، شکستہ اور کھلی ہوئی قبریں ہیں۔ ماحول میں اداسی گھلی ہوتی ہے۔ فضا خاموش اور ساکت ہے، ہر طرف سناٹا ہے، ہو کا ایک عالم ہے اس عالم آب و گل میں امیر، غریب، بادشاہ، غلام، ظالم، رحمدل، بوڑھے، جوان اور بچے سب موجود ہیں۔ مٹی کے ان ڈھیروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کو وجود دنیا کے لئے رحمت تھا اور ایسے بھی جن کا وجود دنیا کے لئے زحمت تھا اور ایسے بھی جن کے نام سے دنیا لرزہ براندام ہو جاتی تھی ایسے لوگ بھی مٹی کی آغوش میں سوئے ہوئے ہیں جن کی زندگی کا مقصد اور صرف اپنی ذات ہوتا ہے۔

یہاں دولت کے پجاری اور ایثار پیشہ سب ہی آباد ہیں۔

دیکھئے!
قبرستان کے ایک ویران گوشہ میں نقش و نگار سے مزین یہ کتنی خوبصورت قبر ہے۔

آیئے!
اس قبر کے اندر دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے؟

دوزانو بیٹھ کر آنکھیں بند کر لیجئے۔ منہ بند کر کے ناک کے دونوں سوراخوں (نتھنوں) سے گہرائی میں سانس لے کر سینہ میں روک لیجئے جب تک آسانی کے ساتھ برداشت کر سکیں سانس کو سینہ میں جمع رکھئے اور پھر منہ کھول کر آہستہ آہستہ اور بہت آہستہ سانس باہر نکال دیں۔ چند بار کے اس عمل سے دماغ کی وہ صلاحیت جو ٹائم اسپیس (Time Space) کی حدوں میں قید نہیں ہے متحرک ہو جاتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب ہم اپنے اندر سانس لیتے ہیں تو ہم صعودی کیفیت میں سفر کرتے ہیں اور جب سانس باہر نکالتے ہیں تو نزولی کیفیات (آب و گِل کے تاثرات) ہمارے اوپر مسلط ہو جاتی ہیں۔

بس ٹھیک ہے۔ غیب بینی کی صلاحیت حرکت میں آ گئی ہے یکسو ذہن کی پوری توجہ کے ساتھ روح کی آنکھ سے یہ دیکھئے کہ آپ قبر کے اندر موجود ہیں۔

اُف خدایا، کس قدر اندھیرا ہے سیاہ تاریک اور چمکدار۔ یہ تاریکی بادلوں کی طرح متحرک ہے۔ اب اس نے دائروں کی صورت اختیار کر لی ہے۔

تاریکی میں یہ روشنی کی کرن کیسی؟ تاریکی کی سیاہ چادر کو چاک کرتی ہوئی آ رہی ہے۔

اندھیرا اجالے میں تبدیل ہو گیا ہے۔

منظر کس قدر حسین ہے۔ ہر چہار سو مرکری روشنیاں چودھویں کے چاند کو شرما رہی ہیں۔

اس طرف دیکھئے! یہ دروازہ ہے۔

چلئے اس دروازہ سے اندر داخل ہوتے ہیں۔

یہاں تو پورا شہر آباد ہے۔

اس عظیم اور لاکھوں سال پرانے شہر میں فلک بوس عمارتیں، چھوٹے بڑے مکانات، پھونس سے بنی ہوئی جھونپڑیاں، دکانیں، بازار، میدان، ندی، نالے بھی ہیں۔ یہ شہر پتھر کے زمانے کے لوگوں کا مسکن ہے اور ترقی یافتہ دور کے لوگ بھی اس میں مکین ہیں۔
چور بازاری:

بازار میں ایک صاحب دکان لگائے بیٹھے ہیں۔ دوکان طرح طرح کے ڈبوں اور شیشے کے جار سے سجی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ڈبوں اور شیشہ کے جاروں میں سامان کچھ نہیں ہے۔

کتنا اداس اور پریشان ہے یہ شخص؟

پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟

کہا! میں اس بات سے غمگین ہوں کہ مجھے بیٹھے ہوئے پانچ سو سال گزر گئے ہیں اس طویل عرصہ میں میرے پاس ایک گاہک بھی نہیں آیا۔

میں دنیا میں ایک سرمایہ دار تھا، منافع خوری اور چور بازاری میرا کاروبار تھا۔

تین ہزار سال:

برابر کی دکان میں ایک اور آدمی بیٹھا ہوا تھا، بوڑھا آدمی ہے۔ بال الجھے ہوئے اور بالکل خشک چہرہ پر وحشت ہے۔ گھبراہٹ کا عالم ہے۔ سامنے کاغذ اور حساب کے رجسٹر پڑے ہیں۔ یہ ایک کشادہ اور قدرے صاف دکان تھی۔ یہ صاحب کاغذ پر رقموں کی میزان دے رہے ہیں۔ رقموں کا جوڑ کرتے ہیں تو اعداد بلند آواز سے گنتے ہیں۔

کہتے ہیں دو اور تین سات، سات اور دو دس، دس اور پانچ بیس، میزان کر کے دوبارہ ٹوٹل کرتے ہیں تا کہ اطمینان ہو جائے۔ اب اس طرح میزان کرتے ہیں تین اور چار سات، سات اور تین بارہ۔ مطلب یہ ہے کہ ہر مرتبہ جب میزان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں میزان صحیح نہیں ہے تو وحشت زدہ ہو کر بال نوچتے ہیں خود کو کوستے ہیں، بڑبڑاتے ہیں اور دیوار سے ٹکراتے ہیں اور پھر میزان دینے میں منہمک ہو جاتے ہیں۔

بڑے میاں کی خدمت میں عرض کیا۔ جناب یہ کیا ہو رہا ہے اور آپ کتنی مدت سے اس پریشانی میں گرفتار ہیں۔

بڑے میاں نے غور سے دیکھا اور کہا۔

‘‘میری حالت کیا ہے کچھ بتا نہیں سکتا، چاہتا ہوں کہ رقموں کی میزان صحیح ہو جائے مگر تین ہزار سال ہو گئے ہیں کم بخت یہ میزان صحیح ہونے میں نہیں آتی۔

‘‘میں زندگی میں لوگوں کے حسابات میں دانستہ ہیر پھیر کرتا تھا بدمعاملگی میرا شعار تھا۔’’

‘‘سو جس نے کی ذرہ بھر بھلائی وہ دیکھ لے گا اور جس نے کی ذرہ بھر برائی وہ دیکھ لے گا۔’’

 (قرآن)

اللہ کے ساتھ مکر:

علماء سے تعلق رکھنے والے ان صاحب سے ملئے!

داڑھی اتنی لمبی کہ جیسے جھڑ بیر کی جھاڑی۔ اتنی بڑی کہ اس میں پیر چھپے ہوئے ہیں۔ چلتے ہیں تو داڑھی اکٹھا کر کے اپنی کمر کے ارد گرد لپیٹ لیتے ہیں اور اس طرح جیسے پٹکا لپیٹ لیا جاتا ہے۔ چلتے وقت داڑھی کھل جاتی ہے اور اس میں الجھ کر زمین پر اوندھے منہ گر جاتے ہیں۔ اٹھتے تو ہیں داڑھی میں الجھ کر پھر منہ کے بل زمین پر گرتے ہیں۔ سوال کرنے پر بتایا۔

دنیا میں لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے میں نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ داڑھی رکھنا میرے لئے بہت بڑی نیکی بھی تھی۔ میں اس نیکی کے ذریعے بہت آسانی سے سیدھے اور نیک دل لوگوں سے اپنی مطلب براری کر لیتا تھا۔
‘‘لوگ اللہ کے ساتھ مکر کرتے ہیں اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔’’

 (قرآن)

فرشتے:
وہ دیکھئے!

دور بستی سے باہر ایک صاحب زور زور سے آواز لگا رہے ہیں۔ اے لوگو! آؤ، میں تمہیں اللہ کی بات سناتا ہوں۔ اے لوگو! آؤ، اور سنو اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے۔ کوئی بھی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ البتہ فرشتوں کی ایک ٹولی ادھر آ نکلتی ہے۔ فرشتے کہتے ہیں۔

ہاں! سناؤ، اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیں؟

ناصح کہتا ہے۔

میں بہت دیر سے پیاسا ہوں پہلے مجھے پانی پلاؤ۔ پھر بتاؤں گا اللہ تعالیٰ کیا ارشاد کرتا ہے۔ فرشتے کھولتے ہوئے پانی کا پیالہ منہ کو لگا دیتے ہیں ہونٹ جل کر لٹک جاتے ہیں اور سیاہ ہو جاتے ہیں اور جب یہ شخص پانی پینے سے انکار کرتا ہے تو فرشتے یہی ابلتا ہوا پانی اس کے منہ پر انڈیل دیتے ہیں۔ ہنستے اور قہقہے لگاتے ہوئے بلند آواز سے کہتے ہیں مردود کہتا تھا آؤ اللہ کی بات سنو۔ دنیا میں بھی اللہ کے نام کو بطور کاروبار استعمال کرتا تھا اور یہاں بھی یہی کر رہا ہے۔ جھلسے اور جلے ہوئے منہ سے ایسی وحشت ناک آوازیں اور چیخیں نکل رہی ہیں کہ انسان کو سننے کی تاب نہیں۔ چلئے دور اور بہت دور بھاگ چلیں۔

میری آیتوں کا کاروبار نہ کرو۔

(قرآن)

لگائی بجھائی:

اس عظیم الشان شہر میں یہ ایک تنگ و تاریک گلی ہے۔ گلی کے اختتام پر کھیت اور جنگل ہیں۔ یہاں ایک مکان بنا ہوا ہے۔ مکان کیا ہے بس چار دیواری ہے۔ اس مکان پر کسی ابر نما چیز کی جالی دار چھت پڑی ہوئی ہے اس لئے دھوپ اور بارش سے بچاؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس مکان میں صرف عورتیں ہی عورتیں ہیں۔ چھت اتنی نیچی ہے کہ آدمی کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ماحول میں گھٹن اور اضطراب ہے۔ ایک صاحبہ ٹانگیں پھیلائے بیٹھی ہیں عجیب اور بڑی ہی عجیب بات یہ ہے کہ ٹانگوں کے اوپر کا حصہ معمول کے مطابق اور ٹانگیں کم از کم دس دس فٹ لمبی ہیں اس ہیئت کذائی میں دیکھ کر ان صاحبہ سے پوچھا۔ یہ کیا معمہ ہے؟

عورت مذکور نے جواب دیا۔

میں دنیائے فانی میں جب کسی کے گھر جاتی تھی تو اس گھر کی سن گن لے کر دوسرے گھر میں جا کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتی تھی۔ یہ وہی عادت ہے جس کو دنیا والے لگائی بجھائی سے موسوم کرتے ہیں۔

اب حال یہ ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوں۔ ٹانگوں میں انگارے بھرے ہوئے ہیں۔

ہائے! میں جل رہی ہوں اور کوئی نہیں جو مجھ پر ترس کھائے۔

چغل خور جنت میں نہیں جائے گا۔

(حدیث)

غیبت:

چہرہ پر خوف اور ڈر نمایاں، یہ شخص چھپتے چھپاتے دبے پاؤں، ہاتھ میں چھری لئے کہاں جا رہا ہے؟

او! اس نے سامنے کھڑے ہوئے ایک آدمی کی پشت میں چھری گھونپ دی اور بہتے ہوئے خون کو کتے کی طرح زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔ تازہ تازہ اور گاڑھا خون پیتے ہی قے آ گئی۔ خون کی قے۔

جسم سے گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ کر کھایا تھا چہرہ پر حزن و ملال آ گیا۔

نحیف و نزار زندگی سے بیزار کراہتے ہوئے اس مردار خور آدمی نے کہا۔

کاش! عالم فانی میں یہ بات میری سمجھ میں آ جاتی کہ غیبت کا یہ انجام ہوتا ہے۔

‘‘جو شخص دنیا میں غیبت کرے گا وہ مردار کھائے گا اور ناک بھوں چڑھا کر غل مچائے گا۔’’

(حدیث)

پیٹ میں انگارے:

شکل و صورت سے انسان، ڈیل ڈول کے اعتبار سے دیو۔ قد تقریباً بیس فٹ۔ جسم بے انتہا چوڑا قد کی طوالت اور جسم کی چوڑائی کی وجہ سے کسی کمرہ یا گھر میں رہنا ممکن نہیں ہے۔ بس ایک کام ہے کہ اضطرابی کیفیت میں یہ صاحب مکانوں کی چھتوں پر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر گھوم رہے ہیں۔ بیٹھ نہیں سکتے، لیٹ بھی نہیں سکتے۔ ایک جگہ قیام کرنا بھی ان کے بس کی بات نہیں۔

ضطراری کیفیت میں اس چھت سے اس چھت پر اور اس چھت سے اس چھت پر چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ کبھی روتے ہیں۔ کبھی بے قرار ہو کر پیر پٹختے ہیں۔

پوچھا! یہ کیا تماشہ ہے؟ اس قدر غمگین اور پریشان ہونے کی آخر کیا وجہ ہے۔ الحفیظ و الامان، یہ کس عمل کی پاداش ہے؟

جواب دیا۔

میں نے دنیا کی چند روزہ زندگی میں یتیموں کا حق غصب کر کے بلڈنگیں بنائی تھیں۔ یہ وہی بلڈنگیں اور عمارتیں ہیں آج جن کے دروازے میرے اوپر بند ہیں۔ لذیذ اور مرغن کھانوں نے میرے جسم میں ہوا اور آگ بھر دی ہے۔ ہوا نے میرے جسم کو اتنا بڑا، اتنا بُرا کر دیا کہ میرے لئے گھر میں رہنے کا تصور بھی عذاب بن گیا ہے۔ آہ آہ! یہ آگ مجھے جلا رہی ہے، میں جل رہا ہوں، بھاگنا چاہتا ہوں مگر فرار کی ساری راہیں مسدود ہو گئی ہیں۔

‘‘جو لوگ یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں انگارے بھرتے ہیں۔’’

(القرآن)

بادشاہ اور ملکہ:

اچھا! آپ مغل خاندان کی عظیم ملکہ نور جہاں ہیں؟

آپ کو کیا تکلیف ہے۔ چہرے پر پژمردگی جھنجھلاہٹ، بے قراری اور غیض و غضب کے آثار اتنے زیادہ نمایاں کیوں ہیں؟

میں نہیں جانتی کہ آپ کون صاحب ہیں۔ مرنے کے بعد سے آج تک کسی نے میری خبر نہیں لی۔ میں اپنی کنیزوں کو آواز دیتی ہوں تو وہ میرے اوپر ہنستی ہیں۔ دو گھڑی کے لئے بھی کوئی میرا ہمدم نہیں ہے۔ تنہائی اور مسلسل نظر انداز کر دینے والے عوامل نے میری زندگی کو زہریلا کر دیا ہے۔ میں آخر ملکہ ہوں۔ لوگ میرے اوپر ہنستے کیوں ہیں۔ میرا حکم کیوں نہیں مانتے۔ مجھ سے دور کیوں بھاگتے ہیں۔

برمزار ماغریباں نے چراغ نے گلے

نے پر پروانہ سوزونے صدائے بلبلے

دوزخ:
چلتے چلتے ان صاحبہ سے ملتے چلیں۔

بہن! یہ آپ اوپر بار بار کیا دیکھتی ہیں؟

میں کیا دیکھتی ہوں؟ میں جس عالم میں ہوں یہاں سب لوگ ایسے ہیں، جن پر جنت کے دروازے بند ہیں۔ اس عالم سے اوپر وہ لوگ ہیں جو جنت کے نظارے کرتے ہیں۔ میں اس غم میں گھل رہی ہوں کہ میں جنت کا نظارہ کرنے والوں میں کیوں نہیں ہوں۔

جب بھی یہ خیال ذہن میں ابھرتا ہے مجھے ایک ہی جواب ملتا ہے کہ میں نے اپنے خاوند کے ہمدردانہ سلوک کی ہمیشہ ناشکری کی ہے۔
فرمایا۔ رسول اللہﷺ نے میں نے مردوں کی نسبت، عورتوں کو دوزخ میں زیادہ دیکھا ہے۔ ایسی عورتیں اپنے خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ خاوند کتنا ہی اچھا سلوک کرے وہ یہی کہتی ہیں کہ ہمارے ساتھ کچھ نہیں کیا گیا۔

اعراف کیا ہے؟

اس بے آب و گل عظیم آبادی میں گروہ در گروہ رہتے ہیں۔ فریبی، دھوکہ باز، قاتل چور، حاسد وغیرہ وغیرہ۔ ایک طرز فکر کے لوگ ایک جگہ رہتے ہیں۔ یہ اعراف ‘‘سجین’’ کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق مرنے کے بعد نوع انسان اور جنات کے دو طبقے (زون) ہیں۔ ایک اعلیٰ اور دوسرا اسفل۔ اعلیٰ اور اسفل کی قرآن پاک میں اس طرح وضاحت کی گئی ہے۔

وما ادراک ما علیین و اما ادراک ما سجین کتاب المرقوم

آپ کیا سمجھے علیین کیا ہے اور آپ کیا سمجھے سجین کیا ہے۔ یہ ایک لکھی ہوئی کتاب (ریکارڈ فلم) ہے۔ انسان دنیا میں جو کچھ کرتا ہے وہ سب کا سب فلم کی صورت میں ریکارڈ ہو جاتا ہے۔

****


 

 

Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے