Topics
سوال:
اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لئے ہر شئے تخلیق فرمائی اور ہر شئے کو انسان کی
خدمت پر معمور کر دیا۔ انسان کو یہ فضیلت کیوں دی گئی۔ اللہ تعالیٰ انسان سے کیا
چاہتا ہے اور انسان اس آزمائش پر کس طرح پورا اتر سکتا ہے؟
جواب:
دنیا میں چھ ارب انسانوں کی آبادی ہے۔ کھربوں کی تعداد میں دوسری مخلوق آباد ہے۔
اسی طرح عالمین میں انسانی شمار سے باہر اور بھی دنیائیں آباد ہیں۔ ان دنیاؤں میں
بھی انسان، جنات اور فرشتے رہتے ہیں۔ انواع و اقسام کی مخلوقات جو ہم زمین پر
دیکھتے ہیں۔ ان دنیاؤں میں بھی موجود ہیں۔
اللہ
تعالیٰ نے یہ سارا نظام انسان کی خدمت گزاری کے لئے بنایا ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ
دنیا میں موجود ہر مخلوق، ہر شئے انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہے۔ انسان اعتراف
کرے یا نہ کرے۔ اس بات کو مانے یا نہ مانے لیکن جب کبھی انسان اس بات پر غور کرتا
ہے کہ یہ کائنات کیا ہے، زمین کیا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، کہکشانی نظام کیوں قائم
کئے گئے ہیں تو انر Innerسے دل و دماغ سے،
تفکر سے ایک جواب ملتا ہے کہ یہ پوری کائنات انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔
پانی کی خصوصیات اور اس کی خدمت گزاری ہمارے سامنے ہے۔ گیس، ہوا، سورج، چاند،
ستارے سبھی انسان کی خدمت میں مصروف ہیں۔ ہر وہ چیز جس کی انسان کو کسی بھی حالت
میں ضرورت ہے۔ زمین اپنے بطن سے پیدا کر رہی ہے اور تسلسل کے ساتھ قائم رکھے ہوئے
ہے۔ انسان جب اپنے بارے میں سوچتا ہے کہ میں زمین، چاند، سورج کے لئے کیا کرتا ہوں
اور خلاء کے اندر جو فضائیں ہیں ان کے لئے کیا کرتا ہوں۔ تو اس کو ایک ہی جواب
ملتا ہے کہ وہ کسی کے لئے کچھ نہیں کرتا بلکہ تمام چیزیں اس کی خدمت میں مصروف
ہیں۔
انسان
کے اندرونی سسٹم میں بھی یہی بات نظر آتی ہے کہ دل و دماغ اور پھیپھڑے اور تمام
اعضاء خدمت میں مصروف ہیں۔ جب کہ انسان یہ بھی نہیں جانتا کہ دل کی حرکت کیوں قائم
ہے۔ کس بنیاد پر قائم ہے۔ رگوں میں خون دوڑنا، ایک توازن کے ساتھ حرارت کا برقرار
رہنا، پیاس لگنا، پانی پینا، پانی کا سیراب کرنا۔ جسم کے اندر سے فاسد رطوبت اور
فاسد مادوں کا اخراج، بھوک لگنا، کھانا کھانے کے لئے وسائل کی موجودگی مسلسل وسائل
کا فراہم ہونا۔ جتنا زیادہ آپ گہرائی میں سوچیں گے اتنا ہی زیادہ آپ کے اوپر اللہ
تعالیٰ کا یہ فضل کھل کر سامنے آ جائے گا کہ سب کچھ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا
ہے۔ اور انسان اس کائنات کے لئے کچھ بھی نہیں کرتا۔
مثلاً
وہ زمین کے اوپر کھیتی باڑی کرتا ہے تو زمین کو وہ کچھ نہیں دے رہا ہے۔ اس کھیتی
باڑی سے اپنے لئے وسائل پیدا کر رہا ہے۔ اگر زمین کے اوپر آپ گندم کاشت کرتے ہیں
تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ گندم بونے سے زمین کو کوئی فائدہ پہنچا ہے۔ آپ زمین پر
کوئی درخت لگاتے ہیں۔ اس پر پھل لگتا ہے۔ تو کوئی ذی شعور آدمی یہ دعویٰ نہیں کرتا
کہ درخت پر پھل لگنے کا فائدہ زمین کو پہنچ رہا ہے۔
زمین
پر دودھ دینے والے جانور ہیں۔ کیا جانوروں کی نسل کشی میں زمین کا کوئی فائدہ ہے۔
دودھ بھی انسان پیتا ہے۔ گوشت بھی انسان کھاتا ہے۔
پرندوں
کے بارے میں غور کیجئے۔ پرندے پیدا ہوتے ہیں۔ انسان پرورش کرتا ہے، نہ پالتا ہے۔
قدرت پرندے پیدا کرتی ہے یہ بھی انسان کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پرندوں سے زمین کو جو
زینت ملتی ہے اس سے انسان ہی خوش ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح غور کریں ایک ہی بات سامنے
آتی ہے کہ یہ سب کچھ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ
نے انسان کے لئے وسائل تخلیق کئے ہیں۔ بلکہ ہر چیز کو اس کے لئے محکوم بنا دیا۔
وسخرلکم
ما فی السموات و ما فی الارضo
آسمانوں
میں جو کچھ ہے اور زمیں میں جو کچھ ہے ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔
آسمانوں
میں زمین میں جو کچھ ہے سب کا سب تمہارے تابع اور محکوم کر دیا گیا اور تمہاری
خدمت گزاری کے لئے ان کو پابند کر دیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ آخر انسان میں کیا خصوصیت ہے کہ
ساری کائنات انسان کے تابع کر دی گئی اور انسان کو دنیا کے تابع نہیں کیا۔ کوئی
انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں چاند، سورج اور زمین کے تابع ہوں۔ البتہ تجرباتی
اور مشاہداتی بات یہ ہے کہ زمین کے اوپر ہر موجود شئے انسان کے تابع ہے۔ اسی طرح
اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔ ایک آسمان نہیں سماوات میں جو کچھ ہے وہ سب انسان کے تابع
ہے۔ سماوات میں کیا ہے۔ فرشتے ہیں، جنات ہیں، جنت دوزخ ہے، عرش و کرسی ہے۔ ارشاد
باری تعالیٰ کے مطابق آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ بھی انسان کے تابع ہے۔ یہ سب فضیلت
انسان کو کیوں دی گئی۔ انسان نے ایسا کون سا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے کہ جس
کارنامے کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انعام و اکرام سے اسے نواز دیا ہے۔ اللہ
تعالیٰ نے انسان کے اوپر اتنا کرم کیا ہے آخر اس کی کیا وجہ ہے؟
اللہ
تعالیٰ انسان سے کیا چاہتا ہے؟ ساری کائنات کو انسان کے لئے مسخر کر دیا اور اس کو
انسان کی خدمت گزاری میں مصروف اور پابند کر دیا۔ اس کے پس پردہ کیا مقصد ہے۔ اللہ
رب العالمین انسان سے کیا چاہتا ہے؟۔۔۔اگر اللہ تعالیٰ انسان سے کچھ چاہتے ہیں تو
اس چاہنے کی بنیاد بھی انسان کے اندر ہے۔ وہ کیا ہے؟ آپ ذرا سا بھی غور کریں گے تو
یہ بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جائے گی کہ جب کوئی کسی پر انعام و اکرام کی بخشش
کرتا ہے۔ اس کا ایک مقصد ہوتا ہے وہ اس کو اپنا دوست بنانا چاہتا ہے اور اس سے
قربت حاصل کرنا چاہتا ہے۔
مثلاً
آپ کسی آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس کی
کفالت کرتے ہیں، کوئی آپ سے پوچھے کہ اس کی اتنی خدمت کیوں کر رہے ہو؟ آپ یہی کہیں
گے کہ یہ شخص مجھے اچھا لگتا ہے۔ کوئی آپ کو اچھا لگتا ہے تو آپ یہ بھی چاہتے ہیں
کہ وہ بندہ آپ سے قریب ہے۔
سیدھی
بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اللہ کا دوست بن کر رہے اور اس کو
اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہو۔ یہ سارے انعام و اکرام اس وجہ سے ہیں کہ انسان (جو
ناشکرا بھی ہے اور کفران نعمت بھی کرتا ہے، ظالم اور جاہل ہے)۔ اس کا ذہن کبھی تو
اس طرف جائے گا کہ جس اللہ نے پوری کائنات کو میرے لئے خادم بنا دیا ہے وہ کون ہے؟
وہ ہستی مطلق مجھ سے کیا چاہتی ہے۔ میرے اوپر اتنے انعامات و اکرام اس نے کیوں کئے
ہیں؟ جب اس ہستی کا ادراک آپ کے ذہن میں اتر جائے گا تو آپ کے اندر کا تفکر کام
کرنے لگے گا۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
ہم
نے اپنی امانت سماوات، زمین اور پہاڑوں کو پیش کی۔ سب نے انکار کر دیا اور انکار
کی بنیاد یہ بتائی کہ ہمارے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ ہم آپ کی امانت کو اپنے
ناتواں کندھوں پر اٹھا سکیں لیکن انسان نے اس امانت کو بغیر سوچے سمجھے اٹھا
لیا۔ إنه كان ظلوماً جهولاً بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے۔
امانت
سے مراد صلاحیت، سکت، ذہنی استعداد، روح کی طاقت، قوت پرواز، ایسی قوت پرواز کہ جب
انسان اس قوت پرواز سے واقف ہو جاتا ہے تو آسمانوں سے گزر کر عرش سے بھی اوپر نکل
جاتا ہے۔ اس نے بلا سوچے سمجھے وہ صلاحیت تو قبول کر لی لیکن کبھی سوچتا نہیں کہ
کائنات میں وہ اللہ تعالیٰ کی واحد مخلوق ہے جو اس کی امین ہے۔ مگر اس امین مخلوق
کی حالت یہ ہے کہ وہ فانی دنیا کی کیچڑ میں تو لت پت ہو سکتی ہے لیکن اس کا ذہن
کبھی اس امانت کی طرف نہیں جاتا۔ انسان سونا، چاندی، بیوی بچوں کو ہی سب کچھ
سمجھتا ہے جبکہ اس کی زندگی کی اصل وہ امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی
اور کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔ دوسری دنیاؤں میں بھی
انسان ہی امین ہے۔
اللہ
تعالیٰ انسان کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں اور اس دوستی کے لئے انہوں نے انسانوں
میں سے ہی ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں بھیجے ہیں تا کہ کوئی فرد واحد
یہ نہ کہہ سکے کہ انسان کے اندر تو یہ صلاحیت ہی نہیں کہ وہ اللہ کا دوست بن سکے۔
انسان کے اندر اگر یہ صلاحیت نہ ہوتی تو انسانی برادری میں ایک لاکھ چوبیس ہزار
پیغمبر پیدا نہ ہوتے۔ اللہ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ و سلم کو اتنی قربت عطا کی
جو کسی بھی مخلوق کو عطا نہیں ہوئی۔
انسان
کی فضیلت اس کا شرف اس بنیاد پر نہیں کہ اس کے اندر تھوڑی سی عقل زیادہ ہے۔ انسان
کا شرف یہ ہے کہ اس کے اندر ایسی صلاحیت موجود ہے کہ وہ زمین اور آسمانوں کے
کناروں سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کر سکتا ہے۔ انسانی گوشت پوست کی
حیثیت اسی وقت تک ہے جب اس کے اندر ‘‘روح’’ موجود ہے۔ روح کو نور کے علاوہ دوسرا
نام نہیں دیا جا سکتا۔ آدمی کی محدود طرز فکر دنیا کی محبت، حرص و لالچ، سونے
چاندی کے سکوں کے عشق نے اس نور کے اوپر غلاف ڈال دیا ہے۔ آدمی نے اپنے ارادہ اور
اختیار سے گہرے اندھیرے کی چادر اوڑھ لی ہے۔ کثافت سے خود کو بھر دیا ہے۔
آپ
کے پاس ایک پیالہ ہے اس کے اندر بہترین خوشبو ہے لیکن اس پیالے کے اوپر آپ اپنی
مرضی سے کیچڑ ڈال دیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس پیالے میں خوشبو نہیں ہے۔
خوشبو تو ہے لیکن آپ نے اس خوشبو کو خراب اور غلیظ کر دیا اس کے اوپر تعفن ڈال دیا
ہے۔
روحانی
استاد کا یہی کام ہے کہ جب اس کا شاگرد اس کے قریب آ جاتا ہے یا وہ اس کی اصلاح کا
ذمہ لے لیتا ہے تو پہلے ہی دن سے پیالے کو صاف کرنا شروع کر دیتا ہے۔ وہ پھر دھو
دیتا ہے، مرید پھر پیالے کو گندہ کر دیتا ہے۔ وہ پھر دھو دیتا ہے، مرید کے لئے
بھنگی بن جاتا ہے۔ اس کے تعفن کو دھوتا رہتا ہے۔ دلاسوں سے اس کو صاف ستھرا کرتا
ہے۔ جب تک مرید کے پیالہ میں خوشبو غالب نہیں آ جاتی۔ مرشد صفائی ستھرائی کا عمل
جاری رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مرید ذاتی اغراض کی وجہ سے مرشد سے خود دور ہو
جائے۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا کہ بعض حالات میں ایسا ہوتا ہے کہ پیر و مرشد اپنے
مرید کے اندر سے تعفن کو الگ کرتا ہے۔ صاف کرتا ہے بار بار صاف کرتا ہے، مرید پھر
گندہ ہو جاتا ہے۔ مرشد پھر صاف کرتا ہے۔ مرید پھر گندہ ہو جاتا ہے۔ ایسا بھی ہوا
کہ مرشد ساری زندگی ایک آدمی کی صفائی پر لگا رہا۔ مرید خود کو گندہ کرتا رہا اور
مرشد اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
ہمارے
ایک دوست تھے۔ میں نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے پوچھا ان کی ترقی کیوں نہیں
ہوتی۔ لاکھوں کی تعداد میں درود شریف پڑھا۔ لاکھوں کی تعداد میں یا حی یا قیوم کا
ورد کیا۔ سات وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں۔ نوافل پڑھتے ہیں۔ مرشد سے عقیدت رکھتے ہیں۔
ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ آخر ان کی ترقی میں کیا امر مانع ہے۔ حضور قلندر بابا
اولیاءؒ نے فرمایا کہ بندہ بہت اچھا ہے لیکن اس کے دل میں اولاد کی محبت بھر گئی
ہے۔ میں نے کہا۔ حضور اولاد کی محبت تو ایک فطری اور قدرتی عمل ہے۔ کہنے لگے اولاد
کی محبت بلاشبہ قدرتی عمل ہے۔ لیکن اولاد کی محبت اگر خدا کی محبت پر غالب آ جائے
تو اولاد فتنہ بن جاتی ہے۔ اولاد سے محبت اس لئے کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد دی ہے۔
کھلونا عطا کیا ہے۔ اولاد خوشی کا سامان ہے۔ اولاد اللہ کی نعمت ہے۔
یہی
صورتحال دنیا کے عام معاملات کی ہے۔ گھر ہے، کاروبار ہے۔ دولت ہے۔ بیوی ہے، شوہر
ہے، اولاد ہے۔ اگر اولاد سے محبت اس لئے کی جا رہی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا دیا
ہوا ایک انعام ہے۔ اگر شوہر سے محبت اس لئے کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے
رفیق سفر عطا کیا ہے۔ اگر بیوی سے اس لئے تعلق خاطر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمراز و
دم ساز دے دیا۔ تو یہ سب آپ کے لئے سکون و راحت ہیں۔ اور اگر آپ نے اولاد، شوہر،
بچے اور زو و جواہر کو زندگی کا مقصد بنا لیا تو ساری زندگی جہنم ہے۔
آج
یہ حال ہے کہ بیوی شوہر سے ڈرتی ہے۔ شوہر بیوی سے ڈرتا ہے۔ اولاد ماں باپ سے ڈرتی
ہے۔ ماں باپ اولاد سے ڈرتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قبر میں بیوی
شوہر ور اولاد ساتھ نہیں جاتی۔
اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے انسان کو خلاء سے بنایا ہے اور اس کی کھوپڑی کے اندر،
ناک، حلق، منہ، ہونٹ، ڈھانچہ اور دل میں خلاء ہے۔ پھیپھڑے تو سارا کا سارا ہی اس
سپرنگ کا نظام ہے سوراخ ہی سوراخ ہیں۔ گردوں میں خلاء، مثانوں میں خلاء نہیں ہوتا
تو اس کے اندر انرجیEnergyکیسے دوڑتی ہے۔ فریدیں، شریانیں نہ ہوتیں
تو خون کیسے دوڑتا۔ انسانی جسم Human Bodyمیں خلاء کے علاوہ
کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ پنڈلی کی ہڈی اس میں بھی خلاء ہے۔ پسلی میں بھی خلاء، آنکھ
کے اندر خلاء ہے۔
کوئی
چیز آپ ایسی نہیں بتا سکتے جس میں خلاء یا سوراخ نہ ہوں۔ زمین بھی خلاء ہے۔ اگر
زمین کے اندر خلاء نہ ہو تو ہل نہیں چل سکتا۔
بیج
ہی نہیں اگیں۔ درختوں کی نشوونما نہیں ہو گی۔
اس
خلاء کو کون چلا رہا ہے۔ یہ خلاء متحرک کیوں ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اس خلاء کو
روح نے اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ جب تک روح اس خلاء کے اندر رہتی ہے۔ یہ خلاء چلتا
پھرتا ہے۔ گھومتا، بولتا، ہنستا، روتا رہتا ہے۔ اور جب خلاء سے روح رشتہ منقطع کر
دیتی ہے تو خلاء ہنستا ہے نہ بولتا ہے۔ ایک بیکار شئے ہو جاتا ہے۔
حاصل
کلام یہ ہے کہ میرا چلنا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا اس لئے ہے کہ میرے اندر اللہ کی
روح یعنی اللہ کا نور کام کر رہا ہے۔ میری زندگی کا ضامن نور ہے۔ نور مجھے بھوک
پیاس لگا رہا ہے۔ نور میری پیاس بجھا رہا ہے۔ ہائے افسوس میں نے کبھی نور کی طرف
توجہ نہیں دی اور روٹی میرے لئے اتنی اہم بن گئی کہ میں اس کے لئے دین و دنیا بیچ
سکتا ہوں۔ خود کو بھی فروخت کر سکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے انعام و اکرام
انسان کے اوپر نازل کئے ہیں اور تسلسل کے ساتھ آج نازل ہو رہے ہیں۔ آنے والی کل
بھی نازل ہوتے رہیں گے اور گذشتہ کل بھی نازل ہو رہے تھے۔ آدم سے لے کر اب تک اور
جب تک قیامت آئے گی۔ انعام و اکرام کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا۔ یہ سب کیوں ہو رہا
ہے۔ اس لئے ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ انسان اپنی روح کی طرف متوجہ
ہو۔ جب انسان کا ذہن اپنی روح کی طرف متوجہ ہو گا تو خود بخود اللہ کی طرف متوجہ
ہو جائے گا اور اگر انسان اپنے اندر اور اپنی روح کے اندر متوجہ نہیں ہو گا تو
کبھی بھی اسے اللہ کی قربت نصیب نہیں ہو گی۔ روح اللہ کی جان ہے۔ جان سے جانا
پہچانا جاتا ہے۔
روحانیت
ہمارے اوپر دروازہ کھولتی ہے۔ کہ ہر آدمی اپنے باطنی وجود میں اللہ کا دوست ہے۔
جبکہ ظاہری وجود کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس پر ہر آن فنا وارد ہوتی رہتی ہے۔ ظاہر
وجود باطنی وجود کے تابع ہے باطنی وجود ہے تو ظاہری وجود ہے اگر باطنی وجود نہیں
ہے تو ظاہری وجود بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان یہ نہیں کہہ سکتے کہ باطنی وجود
ظاہری وجود کی وجہ سے ہے۔ یہ تجربے اور مشاہدے کے خلاف بات ہے اس لئے کہ جب باطنی
وجود ظاہری وجود سے اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات طرز فکر اور جس طرح انہوں نے سائنٹیفک طریقے
پر Logicکی
بنیاد پر روحانیت سے نوع انسانی کو آشنا کیا ہے اس کا مختصر مگر جامع لب لباب یہ
ہے کہ ہر انسان کا باطن روح اور روح اللہ کی دوست ہے۔ جب سے انسان نے اپنے باطن سے
نظریں چرائی ہیں اللہ کا دشمن بن گیا ہے۔ اور یہ دشمنی بے سکونی ہے۔ پریشانی اور
اضطراب ہے۔ اگر میں فی الواقع ‘‘میں’’ ہوں۔ نہ میں بول سکتا ہوں نہ میں سن سکتا
ہوں۔ نہ کوئی چیز پکڑ سکتا ہوں نہ کہیں جا سکتا ہوں اور نہ آ سکتا ہوں۔
یہ
کیسا ظلم ہے، یہ کیسا ستم ہے۔ یہ کس قسم کی ناشکری اور کفران نعمت ہے کہ ہر آدمی
کے اندر سکون کی نہریں بہہ رہی ہیں اور وہ ان نہروں کی طرف نہیں دیکھتا۔ جب بھی
دیکھتا ہے باہر دیکھتا ہے اور پریشانی کو زندگی کہتا ہے اور پریشانی سے بچنا بھی
چاہتا ہے۔ جب بھی آواز دیتا ہے۔ ذہنی خلفشار کو بلاتا ہے۔ انسان کا اصلی رخ یہ ہے
کہ وہ اللہ سے دور ہے۔ لیکن انسان نے ہمیشہ نقلی رخ کو اہمیت دی ہے۔ اپنے اصلی رخ
(روح) کو اس نے کبھی اہمیت نہیں دی۔
روحانی
علوم میں مراقبہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مراقبہ کا مطلب ہے کہ انسان ظاہری وجود سے
ذہن کو ہٹا کر اپنے باطنی وجود کو تلاش کرے۔ انسان ظاہر رخ دنیا کو فکشن اور عارضی
قرار دے کر مستقل اور قائم رہنے والی دنیا کی طرف توجہ دے جو کہ اس کے اندر موجود
ہے۔ ہمیں جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ دھوکا اور فریب ہے۔ اگر دنیا کی زندگی فریب نہیں
ہے تو مرنے کے بعد دنیا ہمارے کام کیوں نہیں آتی۔ اگر باہر کی دنیا سب کچھ ہے،
کھانا پینا ہی سب کچھ ہے تو ہم مرنے کے بعد کھانا کیوں نہیں کھاتے۔ پانی کیوں نہیں
پیتے۔ کیا ہمارا حلق ختم ہو جاتا ہے کیا ہمارا دماغ ختم ہو جاتا ہے۔ کیا جب ہم
مرتے ہیں تو ہمارے ہاتھ پیر ٹوٹ کر گر جاتے ہیں اور سڑ جاتے ہیں؟ ہر چیز موجود
ہوتی ہے۔ جسمانی اعضاء، ہاتھ پیر، آنکھیں، ناک موجود ہوتی ہے لیکن کون سی چیز
موجود ہے؟
باطنی
وجود نے عارضی اور فنا ہونے والے وجود سے رشتہ توڑ لیا ہے۔
جواب
دیجئے!
اصل
کون ہوا؟ ظاہری وجود یا باطنی وجود؟
خدارا!
باطنی وجود کی طرف بھی دیکھئے! جو آپ کی اصل زندگی ہے۔ لیکن آپ کی جان تو سونے
چاندی کے ڈھیر اوربیوی بچوں میں اٹکی ہوئی ہے۔
یہ
کیسی حماقت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اندر ہیں اور آپ کا ذہن کبھی اس طرف نہیں جاتا۔
مسلمان کہتے ہیں کہ ہم جب بھی دعائیں مانگتے ہیں، دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ کیا آپ
نے سوچا ہے کہ دعائیں قبول نہ ہونیکی کیا وجہ ہے؟
اللہ
تعالیٰ سے ہم کوئی ایسی چیز نہیں مانگتے جو اس کی قدرت سے باہر ہو۔ بات صرف اتنی
ہے کہ ہم عارضی جسم اور دنیا کو ہی اصلی سمجھتے ہیں، اپنے بندوں کے لئے خود اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ہے:
‘‘کہ
میں تو تمہارے اندر بیٹھا ہوں۔ تم مجھے دیکھتے کیوں نہیں۔’’
جب
سالک مراقبہ کرتا ہے اور گہرائیوں میں اتر جاتا ہے تو گہرائی میں اسے باطنی وجود
نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ جہاں تم ایک ہو وہاں میں دوسرا ہوں اور
جہاں تم دو ہو وہاں میں تیسرا ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
‘‘اللہ
ہر چیز پر محیط ہے۔’’
ہر
شئے بشمول انسان اللہ کے احاطہ میں ہیں۔ یہ ایک دائرہ ہے جس دائرے سے کوئی باہر
نہیں نکل سکتا۔
میں
تمہاری ابتداء ہوں، میں تمہاری انتہا ہوں، میں تمہارا ظاہر ہوں، تمہارا باطن ہوں۔
تمہاری رگ جان سے اربوں کھربوں گنا زیادہ تم سے قریب ہوں۔ پھر بھی کوئی انسان یہ
کہے کہ اللہ کو ہم دیکھ نہیں سکتے۔ یہ سراسر جہالت ہے۔
مراقبہ
ایک ایسا عمل ہے کہ اگر خلوص نیت اور مستقل مزاجی سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے
ارشاد کے مطابق کہ میں انسان کے اندر ہوں۔ سالک دیکھ لیتا ہے اس کی شان کریمی اور
اس کی پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں۔
میرے
دوستو! مجھے یہ بتائیں کہ جنت میں اللہ کے دوست رہیں گے یا دشمن؟
آپ
کا جواب یہ ہے کہ اللہ کے دشمن نہیں رہیں گے۔ اللہ کے دوست رہیں گے۔
اللہ
یہ کہتا ہے کہ
‘‘جس
بندے کے اندر غم اور خوف ہو گا وہ میرا دوست نہیں ہے۔’’
بتائیں
اگر ہمارے اندرغم اور خوف ہے تو ہماری پوزیشن کیا ہوئی؟ نہ ہمیں اللہ کی دوستی پر
یقین ہے۔ ہمیں دوست کی طرح اللہ کی صفات کا عرفان بھی نہیں ہے۔ غم اور خوف ہمارے
اوپر مسلط ہے۔ اللہ نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے:
‘‘میرے
دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔’’
یہ
بات بھی قابل غور و فکر ہے کہ جب کوئی اللہ سے ڈرتا ہے تو اللہ کا دوست کیسے ہو
گا۔ کیونکہ خود اللہ نے فرمایا ہے کہ میرے دوستوں کو خوف اور غم نہیں ہوتا۔
غم
اور خوف نکالنے کا طریقہ صرف ایک ہے کہ آپ اپنے اندر اللہ کی تلاش کر لیں۔ جب ایک
دفعہ آپ اللہ تعالیٰ کو دیکھ لیں گے اور اللہ آپ سے جس طرح چاہے تکلم فرما لیں گے
تو آپ کے اندر یقین پیدا ہو جائے گا کہ رزق دینے والا مجھے موت اور حیات میں الٹ
پلٹ کرنے والا میرا ہمدرد اور غم گسار ہے۔ میرا مالک اللہ ہے میں اللہ کا بندہ ہوں
اور اللہ سے میری دوستی ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے گا تو آپ کے یقین کے بعد آپ کے
اندر سے غم اور خوف نکل جائے گا۔ جب آپ اللہ کے دوست بن جائیں گے تو آپ کو جنت
قبول کر لے گی۔
میں
نے ایک دفعہ مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کی سنت
مشیئت اور عادت رحم ہے۔ قرآن میں اگر کہیں عذاب کا تذکرہ بھی ہے تو وہاں بھی اللہ
تعالیٰ نے یہ ضرور فرمایا ہے کہ اللہ رحم کرنے والا، معاف کرنے والا ہے۔ کوئی بھی
آیت جہاں عذاب کا تذکرہ آیا ہے وہاں اتنا رحیم و کریم اللہ ہم کمزور و ناتواں کو
دوزخ میں کیسے ڈالے گا؟
مرشد
کریم نے کہا کہ نہیں، اللہ تو دوزخ میں نہیں ڈالے گا۔ میں نے کہا، حضور جنت کا تو
کوئی تذکرہ ہی نہیں کرتا۔ سبھی دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ خواجہ
صاحب! بات یہ ہے کہ جس کے اندر جو چیز ہوتی ہے وہی باہر آتی ہے۔ اگر دوزخ اندر
بھڑک رہی ہے تو دوزخ ہی کی آوازیں نکلیں گی۔ اللہ نہیں دوزخ میں ڈالتا۔ اللہ کی
شان کریمی سے یہ بات بعید ہے کہ وہ مکھی مچھر سے بھی چھوٹے اور کمتر بندوں کو دوزخ
میں ڈالے گا۔ میں نے کہا۔ یا مرشد پھر کیا ہو گا۔ فرمایا۔ یوم حشر میں لوگ جمع ہوں
گے۔ ہر آدمی پریشان ہو گا۔ میدان حشر میں گروہی تقسیم ہو گی۔ مثلاً سیدنا حضور علیہ
الصلوٰۃ والسلام سے محبت رکھنے والے لوگ ادھر ہی جائیں گے جہاں حضورﷺ تشریف فرما ہوں گے۔
سیدھی
سی بات ہے آپ پہلی دفعہ لندن جائیں وہاں آپ کا کوئی عزیز دوست رشتہ دار ہے آپ اسی
کے پاس جائیں گے۔ اگر بیٹی ہے تو پہلے بیٹی کے پاس اور اگر دوست ہے تو پہلے اس کے
پاس جائیں گے۔ جتنا جس سے جو تعلق ہو گا اسی مناسبت سے آپ کے قدم بڑھیں گے۔
جتنے
پیغمبران اب تک تشریف لائے ہیں ان سب سے تعلق رکھنے والے گروہ در گروہ تقسیم ہو
جائیں گے۔ جتنے لوگ، خوفزدہ، مصیبت زدہ اور پریشان ہیں اور شیطان کے دوست ہیں وہ
شیطان صفت لوگوں کی طرف جائیں گے، روئیں گے، چیخیں گے، چلائیں گے۔ اللہ تعالیٰ
پوچھیں گے کیوں شور مچا رہے ہو، کیوں رو رہے ہو، کس بات کی عجازی انکساری ہے، کیا
چاہتے ہو۔ وہاں پیغمبر اور پیغمبروں کے وارث اولیاء اللہ، اللہ کے سامنے سجدے میں
گر جائیں گے پھر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے۔ یا اللہ یہ تیری مخلوق ہیں ان سے
غلطی ہو گئی۔ غلطی کے کفارے میں پریشان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا ہم نے ان
کے اوپر پیغمبر بھیج کر ان کے اوپر تمام حجت نہیں کر دیا تھا۔ کیا ہم نے یہ نہیں
بتا دیا تھا کہ کونسی بات ایسی ہے کہ جس سے یہ اللہ کی دوستی کے حلقے میں آ جائیں
گے اور کونسی بات ایسی ہے جس سے یہ اللہ کی دوستی کے حلقے سے نکل جائیں گے۔ انبیاء
کہیں گے یا اللہ آپ رحیم و کریم ہیں۔ یا اللہ آپ ستار العیوب ہیں ان سے غلطی ہو
گئی۔ آپ انہیں معاف کر دیں۔ یہ سن کر لوگ اور زیادہ رونے لگیں گے اور شور مچائیں
گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے چلے جاؤ تمہیں اس وقت اتنا سمجھایا تمہاری سمجھ میں
نہیں آیا۔
مرشد
کریم نے بڑی عجیب بات فرمائی کہ دوزخی از خود دوزخ کی طرف چلے جائیں گے۔ اور جنت
کے لوگ جنت کی طرف چلے جائیں گے۔ اللہ اکبر! اللہ کی صفت ہے۔ عیوب کی پردہ پوشی
کرنا۔ گناہوں کو معاف کرنا۔ اللہ دوزخ میں نہیں ڈالے گا۔
سیدنا
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ سے ہماری
نسبت ہے۔ یہ ہماری نسبت ہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے
محبوبﷺ کے محبوب تک پہنچا
دیا ہے اور اس محبوب بندے نے اپنی روحانی اولاد سے کوئی چیز چھپا کر نہیں رکھی۔ سب
عیاں کر دیا ہے۔ کہ فلاں فائل ہیں یہ اسرار فائل ہیں۔ فلاں فائل میں یہ رموز ہیں۔
فلاں مقام تک پہنچنے میں یہ عمل کرنا اور فلاں مقام تک پہنچنا اس وقت ممکن ہے جب
آدمی خود کی نفی کرے۔ کائنات جو کچھ ہے اس کے نقشے بنا کر سمجھایا ہے۔ ان سب
ہدایات کے ہوتے ہوئے بھی میرے دوستو، میرے بچو، میری روحانی اور جبلی اولاد۔ خدارا
اللہ کی قربت کو اس طرح محسوس کرنا جس طرح اللہ خود کہتا ہے۔ میں تمہاری رگ جان سے
زیادہ قریب ہوں۔ اپنے جد امجد، اپنے دادا کی طرز فکر کے مطابق اور ان کے بتائے
ہوئے راستہ پر مستقل مزاجی اور یقین کے ساتھ قدم ملا کر چلنا۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ
اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بیوی بچوں کو چھوڑ دیا جائے۔ کاروبار ختم کر دیا
جائے۔ آدمی جنگل میں جا کر جھونپڑی ڈال کر بیٹھ جائے۔ سلسلہ عالیہ عظیمیہ سالکان
طریقت کو اعتدال پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ نماز کے وقت پورے خشوع و خضوع سے
نماز قائم کرو۔
چوبیس
گھنٹے ذکر و افکار میں نہیں لگے رہو۔ چوبیس گھنٹے مراقبہ نہ کرتے رہو۔ رمضان میں
روزے رکھو۔ مراقبہ کے وقت مراقبہ کرو۔ کوئی سالک اپنے والدین، اولاد، اپنے دوست کا
حق پورا نہیں کرتا تو وہ حق تلفی کرتا ہے۔ اللہ دو گناہ معاف نہیں کرتے۔ ایک شرک
اور دوسرا حقوق العباد۔ اگر کوئی بندہ گھر بار چھوڑ کر جنگل میں چلا گیا ہے وہاں
اس نے جھونپڑی ڈال لی۔ بیوی بچوں اور والدین کے حقوق پورے نہیں کئے، اس نے حق تلفی
کی۔ جو شرک کے برابر گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بھرپور زندگی گزارو۔
شادی
کرو۔ بچوں کی تربیت اور ان کی سرپرستی اللہ کے لئے کرو۔ اچھا کھاؤ۔ اچھا پہنو۔
اچھے گھر میں رہو۔ لیکن اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھو کہ اچھا کھانا، اچھا پہننا،
اچھی بیوی، اچھی اولاد آپ کو اللہ نے دی ہے۔ مال و زر، اولاد، جائیداد آپ کی ذاتی
ملکیت نہیں ہے۔ اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں۔ اگر اولاد کے بارے میں آپ کا یہ تصور
قائم ہو جائے کہ اولاد میری ملکیت نہیں ہے اللہ کی ملکیت ہے تو وہ اولاد آپ کے لئے
نعمت ہے۔ اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اولاد میری ملکیت ہے، میرے بڑھاپے کا
سہارا بنے گی تو ایسی اولاد آپ کے لئے فتنہ ہے۔ آپ کے پاس پیسے ہیں تو وہ اللہ کے
دیئے ہوئے ہیں۔ خوب کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو۔
پڑوسیوں
کا خیال رکھو۔ بڑوں کا ادب کرو۔ چھوٹوں پر شفقت کا ہاتھ رکھو۔ جو کھا لیا جو کھلا
دیا اور جو اللہ کے نام دے دیا وہ آپ کا ہے۔ اور جو چھوڑ گئے وہ آپ کے کام نہیں
آئے گا۔
دنیا
دیکھی بات ہے کہ ماں باپ اولاد کے لئے جائیداد چھوڑتے ہیں اور اولاد مقدمہ بازی یا
لڑائی جھگڑے میں مبتلا ہو جاتی ہے جو اپنی عاقبت خراب کر کے اولاد کیلئے جائیداد
چھوڑتا ہے تو اولاد کے ساتھ دشمنی کرتا ہے۔ ہمارے ایک دوست خان صاحب تھے۔ جب ان کا
انتقال ہوا تو ان کی اولاد میں چار لڑکیاں اور ایک بھائی تھا۔ بیٹیاں اور داماد آ
گئے کہ پہلے حساب کرو پھر لاش اٹھے گی۔ ایسی ایک نہیں ہزاروں مثالیں آپ نے سنی ہوں
گی۔ اگر آپ اولاد کے لئے یہ سوچ رہے ہیں کہ میرے بعد ان کا کیا ہو گا تو اس کا
مطلب یہ ہوا کہ اللہ پر آپ کا یقین کمزور ہے۔ اللہ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ ہی
سنبھالتا ہے۔ اللہ نے جس طرح آپ کو سنبھالا ہے اسی طرح آپ کی اولاد کو بھی سنبھالے
گا۔
****
خواجہ شمس الدین عظیمی
‘‘انتساب’’
اُس ذات
کے
نام
جو عرفان کے بعد
اللہ کو جانتی‘ پہچانتی
اور
دیکھتی ہے