Topics

‘‘تلاوت اور توجہ’’

سوال: قرآن پاک کو پڑھنے کے ظاہری اور باطنی آداب کون کون سے ہیں؟

جواب: فاقرؤ ماتیسر من القرآن۔ ‘‘جتنا بآسانی قرآن پڑھ سکو اتنا پڑھ لیا کرو۔’’

مقصد تلاوت صرف یہ نہیں کہ زبان پر الفاظ قرآن جاری ہو جائیں بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ قرآن کی تعلیمات دل و دماغ میں محفوظ ہو جائیں اور اخلاقی اور روحانی افادیت اور علمی و عملی بصیرت کا باعث ہوں اور زندگی کو حق و صداقت کے سانچہ میں ڈھال دیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ تلاوت کلام پاک کے موقع پر ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھا جائے جو اس مقصد کے حصول میں معین ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ آداب کچھ ظاہر سے متعلق ہیں اور کچھ باطن سے۔ ظاہری آداب یہ ہیں کہ تلاوت کے وقت باوضو اور رو قبلہ ہو۔ ادب و احترام کے ساتھ قرآن مجید کو کھول کر سامنے رکھے اور تلاوت پہلے اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کہے اور آواز کو نہ زیادہ اونچا کرے اور نہ دھیما البتہ اگر نمود و ریا کا اندیشہ ہو تو پھر چپکے چپکے پڑھے مخارج حروف کا لحاظ رکھے۔

وقف کے محل پر وقف کرے ٹھہر ٹھہر کر اس کے جملے ادا کرے اور ممکن ہو تو خوش الحانی سے تلاوت کرے مگر آواز میں اتار چڑھاؤ اور غنا کی کیفیت نہ ہونے پائے اور ارشاد پیغمبر اکرمﷺ ہے:

‘‘قرآن کو عرب کے لحن اور لب و لہجہ میں پڑھو اور فاسقوں اور گنہگاروں کے طرز لحن میں نہ پڑھو۔’’

جب دوران تلاوت ایسی آیت پر نظر پڑے جو عذاب و وعید پر مشتمل ہو تو اللہ تعالیٰ کے غضب سے پناہ مانگے اور عالم آخرت کی کسی نعمت و آرام و آسائش کا ذکر آئے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے دامن پھیلائے دعا و استغفار کے سلسلہ میں کوئی آیت آئے تو دعا اور استغفار کرے۔ آیۃ سجدہ پڑھے تو فوراً سجدہ کرے اور تین دن سے کم عرصہ میں پورے قرآن کو ختم نہ کرے اور جب کوئی سورۃ ختم کرے تو یہ کہے

صَدَقَ اللّٰہُ العلّی الْعَظِیْم وَ بَلغُ رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمَ اَللّٰھُمَّ اَنْفَعْنَا بِہ وَبَارَکَ لَنَا فِیْہِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ العٰلمِیْن

اور جب پورے قرآن کو ختم کرے تو دعائے ختم القرآن پڑھے۔ یہ آداب وہ ہیں جن کا تعلق صرف ظاہر سے ہے اور وہ آداب جن کا تعلق ضمیر و وجدان اور باطن سے ہے، یہ ہیں۔

پہلے یہ کہ قرآن مجید کی عظمت و تقدیس کو نظر میں رکھے اور اس کا عام کتابوں کی طرح مطالعہ نہ کرے بلکہ اپنے ذہن میں یہ تصور قائم کرے کہ یہ کتاب جو اس وقت ایک مجموعہ کی صورت میں اس کی نگاہوں کے سامنے ہے ایک وقت لوح محفوظ کی زینت تھی جو جبرائیل امین کے ذریعے نبی اکرمﷺ کے قلب مبارک پر نازل ہوئی اور پھر ان کی زبان سے نکل کر فصحائے عالم کو گنگ کرتی ہوئی ہم تک پہنچی ہے۔ یہ عظمت و جلال کا تصور کرے کہ جو عرش و لوح زمین و آسمان چاند و سورج دریا پہاڑ غرض کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے اور ہر عظیم سے عظیم تر ہر عظمت سے اس کی عظمت بالا تر ہے اور جب اس کی عظمت سے متاثر ہو کر اس کی تلاوت کی جائے گی تو اس کے قصص و مثال اور حکم و نصائح پوری طرح دل و دماغ کو متاثر کریں گے۔ امام جعفر صادق کا ارشاد ہے:

‘‘جو شخص قرآن پاک کی تلاوت کرے اور اس کے دل میں انکساری اور رقت کے جذبات اور ضمیر میں حزن و خوف کی کیفیات پیدا نہ ہوں تو اس نے اللہ تعالیٰ کی عظمت و منزل کو نہیں سمجھا اور سراسر نقصان میں رہا۔’’

یہ تصور کرے کہ یہ خطاب اسی سے ہے لہٰذا اس سے اسی طرح اثر لے جس طرح کسی فرمانروا کے فرمان کو پڑھ کر اثر لیا جاتا ہے اور اس پر ہر ممکن طریقہ سے عمل کیا جاتا ہے تا کہ سلطانی قہر و غضب کی زد میں نہ آئے۔

چوتھے یہ کہ شیطانی وساوس و خطرات اور فاسد خیالات کو اپنے دل سے دور رکھے تا کہ توجہ اور حضور قلب حاصل ہو سکے کیونکہ توجہ و انہماک نہ ہو تو تلاوت کی افادیت کمزور و مضمحل ہو جاتی ہے۔

پانچویں یہ کہ تلاوت کے وقت قرآن مجید کے ہر گوشہ پر نظر رکھے اس کے مطالب و مقاصد کو سمجھے اور سمجھنے کے بعد انہیں ذہن نشین کرے تا کہ معافی معارف کا سرمایہ دل و دماغ میں فراہم ہوتا رہے اور فہم و تدبر کی راہیں کھلتی رہیں اور جب غور و فکر کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور طبیعت اس طرف متوجہ نہیں ہوتی تو صلاحیت مردہ اور دل زندگ آلود ہو جاتا ہے چنانچہ ارشاد الٰہی ہے
افلا یتدبرون القرآن ام علی قلوب اقفا لھا

قرآن میں کچھ بھی تو غور نہیں کرتے یا یہ کہ ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔

چھٹے یہ کہ صرف ظاہری معنی جاننے پر اکتفا کرے اس طرح کہ خالق کے معنی پیدا کرنے والے اور رازق کے معنی رزق دینے والے کے ہیں بلکہ جن آیتوں میں اس کے اسماء صفات اور مختلف افعال کا تذکرہ ہے ان میں غور و تدبر کرے کہ وہ خالق ہے تو اس کی خالقیت کی نوعیت کیا ہے اور کس طرح بغیر کسی مواد اور بغیر کسی نمونہ کے مختلف الانواع پیکر خلق کئے اور رازق ہے تو اس کی رزاقیت کا دائرہ کتنا وسیع ہے کہ سمندر کی تہہ میں رہنے والے فضا میں اڑانے والے پہاڑوں کی کھوؤں میں بسنے والے سب ہی کو رزق مل رہا ہے اور شکم مادر میں کروٹیں بدلنے والے اور مفلوج و بے دست و پا تک کو روزی حاصل ہو رہی ہے۔ جوں جوں انسان اس کی صفات میں غور و فکر کرے گا اس کا تصور و ادراک اپنی درماندگی کا اعتراف کرے گا۔ اور یہ اعتراف معرفت کی حدود سے قریب کر دے گا۔

ساتویں یہ کہ جو امور فہم قرآن سے مانع ہوتے ہیں ان کا قلع قمع کرے ان مواقع میں چند یہ ہیں۔

‘‘تقلید و تعصب۔ جب انسان کو رانہ تقلید و تعصب کا شکار ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں ایک مسلک کی جانبداری چاہے وہ کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور قرآن کو کھینچ تان کر اپنی رائے کے مطابق کرنے کی کوشش کرے گا اور قرآن کے واضح مفہوم کو نظر انداز کر کے خود ساختہ مطلب کو ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دے گا اور یہ کنج فکری اس کی طبیعت میں اس طرح رچ بس جائے گی کہ طبیعت ثانیہ بن جائے گی اور اب اسے ٹیڑھی بات بھی سیدھی دکھائی دے گی۔

فکری جمود۔ اس سے ذہن کی انجینی کیفیت ختم اور فکر و کاوش کی قوت معطل ہو جاتی ہے اور وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ بس جو مفسرین نے لکھ دیا ہے وہی صحیح ہے اور اس کے علاوہ اور کوئی تفسیر نہیں ہو سکتی اور وہ غور و خوض سے ہاتھ اٹھا کر انہی کے قول پر قائل ہو جاتا ہے۔

اصرار معاصی۔ یہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ گناہوں کے پیہم ارتکاب سے صفا نورانیت ختم ہو جاتی ہے اور دل پر تاریکی اور ظلمت کی ایسی تہیں چڑھ جاتی ہیں کہ حقائق و مصائب کی روشنی کا ان میں گزر نہیں ہو سکتا۔

سطحی انہماک۔ اس طرح کہ حروف اور ان کے مخارج وغیرہ کی تحقیق ہی پر اپنی توجہ کو منحصر کر دے اور جب توجہ انہی چیزوں کی طرف ہو گی تو معانی و مطالب کی طرف توجہ مبذول کرنے کا موقع نہ ملے گا۔ یہ لوگ سطح دریا کے دلکش مناظر میں اس طرح کھو جاتے ہیں کہ انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ اس کی تہہ میں کتنے خزانے مخفی ہیں کہ وہ موجووں سے کھیلیں اور لہروں سے ٹکرائیں اور اپنے دامن کو موتیوں سے بھریں۔

آٹھویں۔ یہ کہ قرآن نے حکم و مواعظ اور قصص و امثال پر غور کرے اور اس کے عبرت و نصیحت کے پہلوؤں کو دیکھے تو ان سے عبرت حاصل کرے اور ایسے امدار میں خطاب ہے جنہیں یہ تنبیہہ اور سرزنش کی جا رہی ہے ان میں ایک فرد وہ بھی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے توبہ و انابت کرے گناہوں سے مغفرت چاہے اور عمل کی توفیق مانگے تا کہ خداوند عالم اسے قرآن پر عمل کرنے والوں میں شمار کرے اور شفاعت قرآن اسے نصیب ہو۔ قرآن مجید پند و نصائح حکم و مواعظ عبر و امثال اور احکام شریعت کا سرچشمہ ہے اس لئے پڑھنا سننا اور اس میں غور و فکر کرنا ہماری زندگی کا معمول ہونا چاہئے۔

نویں۔ یہ کہ جب کسی ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں تہدید و سرزنش ہو تو اس پر خوف و ہراس چھا جائے اور جب ایسی تلاوت کرے جس میں رحمت و مغفرت اور نعیم جنت کا تذکرہ ہو تو اس کے اندر امید و رجاء اور مسرت و انبساط کی روح دوڑنے لگے۔

دسویں۔ یہ کہ تلاوت کے موقع پر یہ سمجھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہے۔ اگرچہ یہ اسے نہیں دیکھ سکتا مگر وہ اسے دیکھ رہا ہے اور گوش برآواز ہے۔ جب اس تصور کے قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر یہ تصور کرے کہ خداوند کریم اس قرآن کے ذریعہ اس سے مخاطب ہے اور اسے اچھائیوں کا حکم دے رہا ہے اور برائیوں سے روک رہا ہے۔ جب اس منزل تک پہنچ جائے تو پھر اسی کو اپنے تصورات و خیالات کا مرکز بنائے۔ اس حد تک کہ فکر و خیال میں اس کے علاوہ اور کوئی گنجائش نہ رہے، نہ اپنی ذات کی طرف نہ اپنے مال کی طرف اور نہ اہل و عیال کی طرف اور کلام کے پردہ میں متکلم سے لو لگائے کیونہ اس کا کلام اس کا آئینہ دار ہے۔ صادق آل محمد کا ارشاد ہے۔ خدا کی قسم قدرت اپنے کلام کے اندر اپنی مخلوقات کے لئے جلوہ گر ہے۔ لیکن وہ دیکھتے نہیں ہیں۔

گیارہویں۔ یہ کہ جب کسی آیت میں نیکوکاروں کا تذکرہ اور ان کی مدح اور توصیف ہو تو اپنے کو ان میں شمار نہ کرے اور نہ ان صفتوں کو اپنے پر منطبق کرنے کی کوشش کرے بلکہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ وہ مومنین کی صفات سے متصف ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اہل صدق و صفا میں سے قرار دے اور خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کرے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب دل اللہ تعالیٰ اور اس کے کلام کی عظمت سے متاثر ہو۔



Topics


Zaat Ka Irfan

خواجہ شمس الدین عظیمی

‘‘انتساب’’

اُس ذات

کے
نام
جو عرفان کے بعد

اللہ کو جانتی‘ پہچانتی

اور
دیکھتی ہے