Topics

غیب کا زون، مظاہر کا زون

اللہ تعالیٰ کے برگذیدہ پیغمبروں نے ہمیں بتایا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ تھا۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنانے کا ارادہ کیا تو اس کے ارادہ میں جو کچھ تھا اس نے حکم فرمایا کہ ہو جا۔۔۔۔۔۔اس حکم کی تعمیل میں پوری کائنات بن گئی۔۔۔۔۔۔کائنات میں اربوں کھربوں دنیائیں اور کروڑوں کہکشائیں موجود ہیں، کہکشانی نظاموں کا پورے کا پورا ریکارڈ لوح محفوظ میں محفوظ ہے۔

کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے جو خیالات ہمارے ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے ہیں۔ یہ خیالات روشنی کے ذریعہ ہم تک پہنچتے ہیں۔

انسان دو رخوں پر زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ایک ظاہر رخ ہے اور ایک اس کا باطن رخ ہے۔۔۔۔۔۔جب انسان ظاہری رخ میں ہوتا ہے تو وہ باطنی رخ سے دور ہو جاتا ہے اور جب اس کے اوپر باطنی رخ کی دنیا روشن ہوتی ہے تو ظاہر دنیا چھپ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔
ابھی تک انسان اس بات کو نہیں سمجھ سکا کہ انسان دراصل زمانی اور مکانی فاصلوں میں بے دست و پا ہے۔۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ کائنات زمانی مکانی فاصلوں کا نام ہے اور یہ فاصلے لہروں سے بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔لہریں ایک طرف نزول کرتی ہیں یعنی اوپر سے نیچے آتی ہیں اور دوسری طرف صعود کرتی ہیں یعنی نیچے سے اوپر جاتی ہیں۔ نزول سے مراد یہ ہے کہ باطن سے ظاہر میں آتی ہیں اور صعود سے مراد یہ ہے کہ ظاہر سے باطن کی طرف جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔انسان ہمہ وقت غیب سے ظاہر میں نزول کرتا ہے اور ظاہر سے غیب میں صعود کرتا ہے۔۔۔۔۔۔یعنی انسان بیک وقت غیب و ظہور کے دائرہ میں گردش کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔جب وہ غیب کے دائرہ میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کا شعور مغلوب ہو جاتا ہے، لاشعور غالب آ جاتا ہے اور جب وہ ظاہر میں داخل ہوتا ہے لاشعور پس پردہ چلا جاتا ہے اور شعور غالب آ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔

ہر انسان ظاہر اور باطن میں زندگی گزار رہا ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جب کن کہا تو یہ زون غیب کا زون ہے۔۔۔۔۔۔اور عالم ارواح سے سفر کر کے عالم ناسوت میں آنا عالم ظاہر کا زون ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا (پھر مرنے کا) ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک مدت اس کے یہاں اور مقرر ہے۔۔۔۔۔۔پھر بھی تم شک کرتے ہو‘‘۔(سورۃ انعام۔ آیت 2)

’’ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا پھر اس کو ایک مضبوط جگہ میں نطفہ بنا کر رکھا پھر نطفہ کا لوتھڑا بنایا۔ پھر لوتھڑے کی بوٹی بنائی۔ پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں۔ پھر ہڈی پر گوشت چڑھایا پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا۔ تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے‘‘۔(سورۃ المومنون۔ آیت 12-14)

اس دنیا میں جو بھی آتا ہے اور جو بھی یہاں سے چلا جاتا ہے اس کی زندگی کا دارومدار روح پر ہے۔ جب تک جسم میں روح رہتی ہے جسم زندہ رہتا ہے اور جب روح جسم کو چھوڑ دیتی ہے تو جسم مردہ ہو جاتا ہے۔ روح کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اور جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے ایک بشر بنانے والا ہوں، جب اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا‘‘۔(سورۃ الحجر۔ آیت 2-29)

اس کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بشر میں اپنی روح پھونکی ہے۔ اب ہم یوں کہیں گے کہ یہ ساری کائنات دراصل اللہ تعالیٰ کی پھونک کا کرشمہ ہے۔۔۔۔۔۔پھونک ہے تو جہان ہے۔۔۔۔۔۔پھونک ہے تو کائنات ہے اور پھونک ہے تو روح ہے۔۔۔۔۔۔روح ہے تو زندگی ہے!۔۔۔۔۔۔

ہر ذی روح کی زندگی کا دارومدار سانس پر ہے۔۔۔۔۔۔سانس کیلئے دو حرکتیں متعین ہیں۔۔۔۔۔۔سانس اندر جاتا ہے یا سانس باہر آتا ہے۔۔۔۔۔۔سانس کا اندرجانا یا سانس کا باہر نکلنا پھونک سے قریب تر ہے۔۔۔۔۔۔اور زندگی کے تمام حواس، زندگی کی تمام قدریں، زندگی کے تمام تقاضے سب سانس کے اوپر قائم ہیں۔۔۔۔۔۔

بزرگوں کا کہنا ہے۔۔۔۔۔۔دم ہے تو جہان ہے!۔۔۔۔۔۔

ہم جب گفتگو کرتے ہیں، گفتگو میں جو آواز باہر نکلتی ہے یا جو آواز کانوں سے ٹکرا کر اندر جاتی ہے وہ اپنا اظہار لفظوں کی شکل میں کرتی ہے۔۔۔۔۔۔الفاظ کرخت ہوتے ہیں یا لطیف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔الفاظ کرخت ہوں یا لطیف ہوں، دونوں حالت میں آواز کے ٹکراؤ سے انسان کے اندر جھنجھناہٹ پیدا ہوتی ہے، اس جھنجھناہٹ کا نام ہم ناگواری رکھتے ہیں یا اسے ہم خوش گوار کہتے ہیں۔ آواز کوے کی بھی ہے!۔۔۔۔۔۔آواز کوئل کی بھی ہے!۔۔۔۔۔۔

آواز کا اثر جس طرح انسانوں کو متاثر کرتا ہے اسی طرح کائنات کی دوسری مخلوقات بھی صوتی اثرات سے متاثر ہوتی ہیں۔
آیئے!۔۔۔۔۔۔تجربہ کریں۔۔۔۔۔۔

میرے عزیز دوستو!

حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی بات کا یقین حاصل کرنا ہو تو مشاہدہ کے ذریعہ حاصل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔فارسی کی مثال ہے:
شُنیدہ کے بود مانندِ دیدہ

یعنی سنی ہوئی چیز دیکھی ہوئی کی مانند نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔مشاہدہ میں تفکر بھی شامل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار تفکر کرنے کا حکم دیا ہے۔

*****

صاف شفاف شیشہ کے تین گلاس سفید چاندنی پر رکھیں۔۔۔۔۔۔چاندنی بچھانے میں دقت ہو تو سفید آرٹ پیپر   ۳۶*۳۰ انچ کے سائز کا زمین پر بچھا لیں۔۔۔۔۔۔اس کے اوپر تینوں گلاس چھ چھ انچ کے فاصلہ پر رکھ دیں۔۔۔۔۔۔تینوں گلاس میں پانی پکا کر ٹھنڈا کر کے بھر دیں۔۔۔۔۔۔لیکن پورا گلاس پانی سے نہ بھریں گلاس کا اوپری ایک تہائی حصہ خالی رہنے دیں۔۔۔۔۔۔پہلے گلاس کی طرف منہ کر کے پانی کو بُرا کہیں۔۔۔۔۔۔جتنی برائی ہو سکتی ہے کریں۔۔۔۔۔۔

ایک یا دو منٹ توقف کے بعد (گھڑی پاس رکھ لیں) دوسرے گلاس کی طرف متوجہ ہوں اور پانی کے زیادہ سے زیادہ فوائد بیان کریں۔۔۔۔۔۔پھر دو منٹ کے بعد تیسرے گلاس کی طرف متوجہ ہوں!۔۔۔۔۔۔اور بسم اللہ کے ساتھ سورۂ اخلاص پڑھ کر پانی میں تین پھونکیں ماریں۔۔۔۔۔۔

اب آپ کا پریکٹیکل ہو گیا۔۔۔۔۔۔تینوں پانی کوعلیحدہ علیحدہ غور سے دیکھیں۔۔۔۔۔۔آپ کو فرق نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔
زیادہ وضاحت کے لئے محدب عدسہ
Magnified Glassسے دیکھیں۔۔۔۔۔۔




Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!