Topics

استغنیٰ


ایک قدیم حکایت ہے۔۔۔۔۔۔چاند کی چودھویں تاریخ تھی، دودھیا چاندنی سے زمین کا گوشہ گوشہ روشن تھا۔۔۔۔۔۔ایک مسافر جو چاندنی رات میں محوِ سفر تھا۔ چاند کی تعریف کرتے ہوئے بولا ’’اے چاند! تم کتنے عظیم اور مہربان ہو۔ تمہاری روشنی سے رات کی تاریکیاں اُجالوں میں بدل گئی ہیں۔ تمہارا وجود بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان ہے۔ اب دیکھو، تمہاری روشنی میں میرا سفر کتنا آسان، دلفریب اور مسحور کن ہو گیا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔یہ کہتا ہوا وہ اپنے راستہ پر روانہ ہوا۔اسی وقت شہر کے کسی گھر میں ایک چور، چوری کی غرض سے داخل ہوا، چاند کی روشنی میں اسے پکڑے جانے کا خوف لاحق ہوا تو وہ اسی گھر کے ایک کونے میں دبک گیا اور چاند کو کوسنے لگا ’’تیرا وجود میرے لئے بدبختی کی علامت بن گیا ہے، تو نے میری آزادی اور میرے رزق میں رکاوٹ ڈال دی ہے۔ کاش کہ ایسا ہو کہ سیاہ بادل ہی تجھے ڈھانپ لیں۔۔۔۔۔۔مجھے تیرا چہرہ کبھی دلکش نہ لگا، اگر میرا بس چلے تو کبھی تیری صورت نہ دیکھوں!۔۔۔۔۔کاش تیرا وجود نہ ہوتا تو سیاہ اور تاریک راتوں میں میرا کام کتنا آسان ہو جاتا‘‘۔۔۔۔۔۔چاند نے مسافر اور چور دونوں کی باتیں سنیں اور آہستہ آہستہ کہنے لگا:

’’تم دونوں جو کچھ کہتے ہو، میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ میں تو محض ایک چاند ہوں، سورج سے روشنی حاصل کرتا ہوں، تعریف کرنی ہے تو سورج کی کرو اور اگر کوئ شکایت کرنی ہے تو سورج سے کرو‘‘۔

جب معاشرے میں شعور کی کمی ہو اور صدیوں پرانی روایات اور جہالت کی گرد سے اٹا ہوا ماحول لوگوں کے اندر سے فہم کا چشمہ خشک کر چکا ہو تو اہل فکر و دانش تمثیل اور حکایات کی زبان میں بات کرتے ہیں تا کہ افراد کے شعور پر بوجھ نہ پڑے۔۔۔۔۔۔موجودہ دور میں صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔کہا جاتا ہے کہ آج کا بچہ کل (مستقبل) کا بزرگ ہے۔ موجودہ دور میں شعور اس قدر ترقی کر گیا ہے کہ آج کا بچہ کل (ماضی) کے بوڑھوں سے کہیں زیادہ علم رکھتا ہے۔

آج کے سائنسی دور میں کوئی بات اس وقت  قابل قبول  ہوتی جب تک اسے فطرت کے مطابق اور سائنسی توجیہات کے ساتھ پیش کیا جائے۔ سلسلہ عظیمیہ کا یہ مشن ہے کہ لوگوں کے اوپر تفکر کے دروازے کھول دیئے جائیں۔

بحیثیت انسان جب ہم عقل و شعور سے کام لیتے ہیں تو یہ بات ہمارے اوپر پوری طرح سے واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا میں یا کائنات میں جو کچھ موجود ہے دراصل اس کی حیثیت علم کی ہے۔

کائنات میں موجود ہر شئے علم کی بنیاد پر ایک دوسرے سے متعارف ہے۔ تعارف میں کہیں راحت، سرور اور مسرت کے خاکے نمایاں ہوتے ہیں اور کہیں پریشانی، بے قراری اور اضمحلال موجود ہوتا ہے۔ غم اور خوشی کا جہاں تک تعلق ہے اس کی بنیاد بھی علم کے اوپر ہے۔ علم جب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ اس چیز کے نہ ہونے سے ہمارا نقصان ہے تو ہمارے اوپر تکلیف کی کیفیات مرتب ہونے لگتی ہیں۔ علم جب ہمیں بتاتا ہے کہ یہ کام یا یہ عمل یا یہ چیز ہمارے فائدے کیلئے ہے تو اس علم کے نتیجے میں ہمارے اوپر جو کیفیات مرتب ہوتی ہیں ان کا نام ہم خوشی، مسرت، سکون، اطمینان قلب وغیرہ وغیرہ رکھتے ہیں۔

یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ آگ ایک ایسی مخلوق ہے کہ جو ہمیں راحت بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ چونکہ علم میں مثبت اور منفی رخ موجود ہیں اس لئے آگ سے ہم منفی اور مثبت دونوں قدروں میں متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم ہے کہ پانی سے ہمارے اندر موجود رگوں، پٹھوں اور اعصاب کی سیرابی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی یہ بات بھی ہمارے علم میں موجود ہے کہ اگر پانی اعتدال سے زیادہ ہو جائے تو یہ زمین اور نوع انسانی کیلئے بربادی کا باعث بن جاتا ہے۔

ہمارا علم ہمیں بتاتا ہے کہ رزق حلال انسان کو سکون اور راحت پہنچاتا ہے جبکہ رزق حرام انسان کے سکون اور راحت کیلئے ایک بہت بڑی دیوار ہے جو انسان کو سکون کے اندر داخل نہیں ہونے دیتی۔۔۔۔۔۔رزق حرام سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا ہے، پیٹ بھرتا ہے اور رزق حلال سے بھی آدمی آٹا خرید کر روٹی پکاتا ہے، پیٹ بھرتا ہے یعنی بھوک کا تقاضہ ایک علم ہے، جب تک علم بھوک کے اندر محدود ہے اس کی حیثیت علم کی ہے۔۔۔۔۔۔بھوک کس طرح رفع کی جائے؟۔۔۔۔۔۔یہ علم کے اندر معنی پہنانا ہے۔ اب اگر معنی منفی پہنا دیئے گئے تو باوجود اس کے کہ بھوک رفع کرنے کے لئے سارے کام کیے جا رہے ہیں اور آدمی اسی طرح اہتمام سے دسترخوان بچا کر کھانا کھا رہا ہے، اس روٹی سے خون بھی بن رہا ہے، اس روٹی سے انرجی بھی حاصل ہو رہی ہے، اس روٹی میں غذائیت کی وجہ سے قدو قامت بھی بڑھ رہا ہے اور عقل و شعور میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لیکن ضمیر مسلسل ملامت کر رہا ہے کہ یہ رزق کسی کا حق مار کر حاصل کیا گیا ہے تو سکون درہم برہم ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔جب آدمی حرام روٹی کا لقمہ کھائے گا تو اس کے اندر بے سکونی، پریشانی، بدحالی، ذہنی کشاکش، دماغی کشمکش کا پیٹرن بن جائے گا۔ دماغ کے اندر بننے والا یہ پیٹرن مستحکم اور مضبوط ہو جاتا ہے تواس کے بعد علم میں جب بھی معنی پہنائے جائیں گے وہ بے سکونی، بے اطمینانی اور پریشانی کے ہوں گے۔ اس کے برعکس ہم علم میں مثبت پہلو داخل کرتے ہیں یعنی علم کے اندر جو معنی اور مفہوم پہناتے ہیں وہ معنی اور مفہوم سکون آشنا زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سکون آشنا زندگی کا پیٹرن جب دماغ میں مستحکم ہو جاتا ہے تو دماغ کے اندر وہ خلئے جو علم کے اندر مفہوم اور معنی پہناتے ہیں ہمیشہ سکون اور راحت کی اطلاع دیں گے۔۔۔۔۔۔

یہ تلاش کرنا ضروری ہے کہ فی الواقع سکون کیا ہے اور اضطراب کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔یہ بات ہم بتا چکے ہیں کہ اضطراب ہو یا سکون ہو، پریشانی ہو یا خوشحالی، غم ہو یا خوشی اس کا تعلق علم کے اندر معنی پہنانے سے ہے۔ اب یہ تلاش کرنا ہے کہ کون سی ایسی مخلوق ہے جو سکون آشنا زندگی گزارتی ہے اور جس کے اوپر خوف اور غم کے سائے اگر منڈلاتے ہیں تو وہ کم سے کم ہوتے ہیں۔ مخلوق کو تلاش کرنے میں ہمیں کہیں باہر جانا نہیں پڑے گا۔ اس زمین پر ہمیں ایسی مخلوق مل جائے گی جو انسانی زندگی کے اعتبار سے زیادہ پر سکون ہے، زیادہ خوشحال ہے، زیادہ صحت مند ہے، زیادہ بے فکر ہے جبکہ اس کی تمام ضروریات وہی ہیں جو انسان کی ضروریات ہیں مثلاً کھانا کھانا اور دوسرے وہ تمام تقاضے جو زندگی میں داخل نہ ہوں تو زندگی پوری نہیں ہوتی۔ یہ مخلوق درخت ہیں، پرندے ہیں، چرندے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس نوع کی زندگی میں سکون کا بڑا واسطہ اور ذریعہ یہ ہے کہ یہ تمام مخلوقات جبلت کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزارتی ہیں یا اس بات کو اس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے علاوہ دوسری نوعیں علم کو صرف اس حد تک جانتی ہیں جس حد تک علم از خود اپنے معنی اور مفہوم ان کے دماغ پر ظاہر کرتا ہے۔ ان تمام نوعوں کے برعکس انسان اپنے ارادے اور اختیار سے علم میں معنی پہنا سکتا ہے اور علم میں مثبت یا منفی معنی پہنانے کا اختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخش دیا ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

’’ہم نے اپنی امانت سماوات، پہاڑ اور ارض پر پیش کی، سب نے انکار کر دیا اور انسان نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لیا ہے۔ بے شک یہ ظالم اور جاہل ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔ آیت 72)

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت خاص سے علم کے اندر معنی پہنانے کا نا صرف یہ کہ اختیار دیا بلکہ معنی پہنانے کی مشین اس کے اندر فٹ کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ علم کے اندر معنی اور مفہوم اگر مثبت ہوں گے تو آدمی پر سکون زندگی گزارے گا اور علم کے اندر معافی اور مفہوم منفی ہوں گے تو آدمی ایسی زندگی گزارے گا جو حیوانات، نباتات اور جمادات سے بھی کمتر ہو گی۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ سکون اور راحت آدمی کو وہاں ملتا ہے جہاں سکون موجود ہو، راحت آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں راحت کے وسائل موجود ہوں، روشنی آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں روشنی کا بندوبست ہو، خوشبو آدمی کو وہاں ملتی ہے جہاں خوشبو کے ذرائع ہوں۔۔۔۔۔۔بدبو اور تعفن میں اگر کوئی بندہ خوشبو تلاش کرتا ہے تو یہ نادانی اور جہالت ہے۔۔۔۔۔۔

جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک ایسا پیٹرن بن جاتا ہے کہ اس کے اندر مخلوق سے احتیاج ٹوٹ جاتی ہے اور وہ دروبست اللہ تعالیٰ کو اپنا حاکم، اپنا خالق، اپنی خواہشات پوری کرنے والا اور اپنی ضروریات پوری کرنے والا سمجھنے لگتا ہے، نتیجے میں سکون اس کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی تعریف  ہےان لوگوں کی ہےجن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ‘‘مستغنیٰ‘‘ کہا ہے۔




 


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!