Topics
استاد نے لیکچر کا آغاز کرتے ہوئے ایک گلاس اٹھایا جس میں بہت تھوڑی مقدار میں
پانی موجود تھا۔
استاد
نے گلاس کو ہاتھ میں اٹھا کر بلند کر دیا، تا کہ تمام طالب علم اسے دیکھ لیں۔
پھر
اس نے طالب علموں سے سوال کیا:
’’تمہارے
خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہو گا؟۔۔۔۔۔۔‘‘
’’پچاس
گرام۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’سو
گرام۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’ایک
سو پچیس گرام۔۔۔۔۔۔!‘‘
ہر
ایک نے اپنے اپنے اندازوں سے جواب دیا۔
استاد
کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا:
’’میں
خود درست وزن نہیں بتا سکتا جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کر لوں۔۔۔۔۔۔!‘‘لیکن میرا
سوال یہ ہے کہ اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کیلئے اسی طرح اٹھائے رہوں تو کیا ہو
گا۔۔۔۔۔۔؟‘‘’’کچھ نہیں ہو گا!‘‘ طالب علموں نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے، اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یوں ہی اٹھائے رہوں تو
پھر کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔؟‘‘ استاد نے پوچھا۔
’’آپ کے بازو میں درد شروع ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔‘‘ طلباء میں سے ایک نے جواب دیا۔
’’تم
نے بالکل ٹھیک کہا‘‘۔۔۔۔۔۔
استاد
نے تائید کی اور دوبارہ دریافت کیا:
’’اب
یہ بتاؤ کہ اگر میں گلاس کو دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’آپ
کا بازو شل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔‘‘ ایک طالب علم نے کہا۔
’’آپ
کا پٹھا اکڑ سکتا ہے‘‘۔ ایک اور طالب علم بولا۔۔۔۔۔۔
’’بہت
اچھا! لیکن اس دوران میں کیا گلاس کا وزن تبدیل ہوا؟‘‘۔۔۔۔۔۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘طالب
علموں نے جواب دیا۔
’’تو
پھر بازو میں درد اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا؟‘‘۔۔۔۔۔۔استاد نے پوچھا۔
طلباء
و طالبات خاموش رہے۔۔۔۔۔۔
’’گلاس!‘‘
ایک طالب علم نے کہا۔
’’تم
نے بالکل درست کہا!۔۔۔۔۔۔ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔۔۔۔۔۔آپ
انہیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو وہ ٹھیک ٹھاک لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔انہیں زیادہ
دیر تک سوچتے رہیں تو وہ آپ کیلئے سر کا درد بن جائیں گے۔۔۔۔۔۔انہیں اور زیادہ دیر
تک تھامے رہیں تو آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔‘‘
مذکورہ
استاد کی تھیوری سو فیصد درست ہے۔۔۔۔۔۔آج ہم نے روزمرہ زندگی کے بہت سے چھوٹے، غیر
اہم اور معمولی نوعیت کے معاملات کو اس قدر اہمیت دے رکھی ہے کہ ان کا بوجھ ہمہ
وقت اپنے ذہن پر اٹھائے لئے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔۔یوں ہماری توانائیاں ضائع ہوتی رہتی
ہیں۔۔۔۔۔۔لاعلاج امراض میں اضافہ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔ہر دوسرا فرد ڈپریشن، ٹینشن اور
اعصابی دباؤ میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔۔
ہماری ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ ہم جب بھی بات کرتے ہیں مستقبل کا ہی رونا روتے
رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہمیں ہمیشہ مستقبل کی ہی فکر لاحق ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ہم یہ کہتے ہیں کہ
ہمارا رازق اللہ تعالیٰ ہے۔۔۔۔۔۔ہمارا تجربہ بھی یہی ہے کہ رازق اللہ تعالیٰ
ہے۔۔۔۔۔۔ماں کے پیٹ سے لے کر اٹھارہ بیس سال کی عمر تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس
طرح رزق عطا کیا ہے کہ آپ نے کوئی محنت مزدوری نہیں کی اور جب بیس سال کی عمر سے
آپ آگے نکل جاتے ہیں، تھوڑا سا پڑھ لکھ جاتے ہیں، بازو میں تھوڑی بہت جان آ جاتی
ہے تو پھر ہر فرد کل کی فکر میں دُبلا ہونے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ نے مجھ سے فرمایا تھا:
’’اگر
خوش رہنا ہے۔۔۔۔۔۔اگر جنت کی زندگی میں واپس پلٹنا ہے۔۔۔۔۔۔اگر دنیا کی پریشانیوں
سے آزاد ہونا ہے تو تم عمر میں کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جاؤ تمہاری کیفیت اللہ
تعالیٰ کے سامنے سات آٹھ سال کے بچے سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔۔۔۔۔۔‘‘
جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بڑے ہو کر تو آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ میں کماؤں گا نہیں تو
کھاؤں گا کہاں سے؟۔۔۔۔۔۔
یہ
پریشانی آپ نے اپنے اوپر از خود مسلط کر لی ہے۔۔۔۔۔۔آج کا انسان اس لئے بے سکون
اور پریشان ہے کہ میرے خیال میں وہ اپنے بچپن سے دور ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔آپ دیکھیں کہ
بچوں میں سکون و اطمینان کی طرزیں بڑوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ میرے کپڑے کیسے بنیں
گے۔۔۔۔۔۔؟میرے جوتے کیسے آئیں گے۔۔۔۔۔۔؟میرے اسکول کی فیس کس طرح ادا کی جائے
گی۔۔۔۔۔۔؟وہ اپنے تمام معاملات کو اپنے والدین کے سپرد کر کے اپنی ساری توجہ زیادہ
سے زیادہ سیکھنے پر مرکوز کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔بچپن کے رویئے میں بڑوں کیلئے زبردست
پیغام چھپا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔
سب کا کفیل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔۔۔۔۔۔
وہ
اپنی مخلوق کی تمام ضروریات ہر لمحہ پوری کر رہا ہے لیکن جب انسان اس قابل ہوتا ہے
کہ وہ روزی تلاش کر سکے تو اکثر اس کا اس بات پر سے یقین ٹوٹ جاتا ہے کہ اللہ
تعالیٰ اس کی کفالت کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔نتیجے میں وہ بے سکون ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اگر
ہمارا یقین اسی طرح اللہ تعالیٰ پر قائم ہو جائے جس طرح بچپن میں اپنے والدین پر
یقین رکھتے تھے تو ہمارے اندر سکون داخل ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔