Topics

ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔


 

دل نے چاہا کہ اپنے محسن، اپنے سرتاج، اپنے جسم مثالی، اپنے ہمدرد و غمگسار، رحمتِ پروردگار، نورِ عین، آوازِ حق، اپنی شناخت مرشد کریم حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی وہ باتیں آپ کو سناؤں جو باتیں میری زندگی بن گئی ہیں۔یہ بات اب پردہ نہیں رہی کہ پانچ ہزار ایک سو دس دن رات کو اگر گھنٹوں سے ضرب دیا جائے اور بائیس ہزار چھ سو چھیالیس گھنٹوں کو منٹ سے ضرب دیا جائے تو ہر منٹ پر ایک بات شاگرد نے اپنے روحانی استاد سے سنی ہو تو تہتر لاکھ اٹھاون ہزار چار سو 73,58,400باتیں مراد سے مرید کو منتقل ہوئی ہیں۔
یہ سب باتیں اس وقت علم بن جاتی ہیں جب استاد شاگرد کے دماغ کی اسکرین کو واش کر دے۔۔۔۔۔۔اب اتنی ساری باتیں تو میں اپنے استاد کی آپ کو سنا نہیں سکتا کیونکہ سننے والے دماغ کی اسکرین پر اس سے زیادہ صدیوں پہلے کے نقوش اور تصویریں بنی ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔ہاں! ایسی کچھ باتیں ہیں جو آپ کو ضرور سنانا چاہتا ہوں جو اسفل میں گرے ہوئے انسان کو ’’احسن تقویم‘‘ بنا سکتی ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

* خدا سے محبت کے دعوے کی تکمیل اسی وقت ہوتی ہے اور یہ دعویٰ خدا کی نظر میں اسی وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب ہم خدا
کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کریں۔

* جو کھو دیتا ہے، وہ پا لیتا ہے۔۔۔۔۔۔اور جو پا لیتا ہے، وہ خود کھو جاتا ہے۔* انسان ایک ایسا کمپیوٹر ہے جس میں بارہ کھرب خلئے (Cells) ہیں۔ موجودہ دور میں اس کمپیوٹر کو چلانے والے خلیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد سوا دو سو ہے۔

* جس کو ہم آسمان جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ آسمان نہیں خلا ہے۔

* زمین پر کوئی ایک چیز بھی بے رنگ نہیں ہے۔

* سمتیں چار نہیں چھ ہیں۔

* آسمان پر آنکھ جو ستارے دیکھ سکتی ہے ان کی تعداد دس ہزار ہے۔

* پوری کائنات طبقاتی تقسیم ہے۔۔۔۔۔۔زمین بھی طبقات پر قائم ہے۔

* ہر شئے خواہ وہ چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی روشنی کے غلاف میں بند ہے اور روشنی کے اوپر نور منڈھا ہوا ہے۔
* ازل سے زمین تک آنے میں زمین سے ازل تک پہنچنے میں ہر انسان کو تقریباً سترہ مقامات (
Zone) سے گزرنا پڑتا ہے۔
* انسان کٹھ پتلی کی طرح ہے، ایک انسان میں بیس ہزار ڈوریاں بندھی ہوئی ہیں۔ ایک ایک ڈوری ایک ایک فرشتے نے
سنبھالی ہوئی ہے۔

* انسان عالم مثال میں الٹا لٹکا ہوا ہے۔ پیر اور سر نیچے ہے۔

* زمین پپیتے کی طرح ہے اور Six Dimension Screenہے۔

* زمین محوری اور طولانی گردش میں لٹو کی طرح گھوم رہی ہے۔ زمین دس ہزار سال کے بعد اپنی پوزیشن تبدیل کر دیتی ہے۔
جہاں پانی ہے وہاں آبادیاں بن جاتی ہیں اور آبادیاں زیر آب آ جاتی ہیں۔

* زمین دراصل آدم و حوا کا وہ شعور ہے جو ارتقا کی طرف گامزن ہے۔

* گوشت پوست کا جسم روح کا لباس ہے۔ جب لباس پرانا ہو جاتا ہے یا زیادہ داغ دھبے پڑ جاتے ہیں تو روح لباس کو
اتار کر پھینک دیتی ہے۔

* اصلی اور حقیقی ماں زمین ہے۔ جب تک آدمی زندہ رہتا ہے کفالت کرتی ہے اور جب مر جاتا ہے تو سڑاند اور تعفن کو اپنے
اندر چھپا لیتی ہے۔

* کسی کو بنانے کیلئے اپنا سب کچھ کھونا پڑتا ہے۔ سچا استاد وہ ہے جو شاگرد کی طرز فکر اللہ تعالیٰ کی طرز فکر کے مطابق بنا دے۔
* مال و زر، دولت اور دنیا انسان کیلئے بنائی گئی ہیں۔۔۔۔۔۔جبکہ انسان خود کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ مجھے دنیا کیلئے
بنایا گیا ہے۔

* سخاوت، اعلیٰ ظرف لوگوں کا شیوہ ہے۔

* دسترخوان وسیع ہونا چاہئے۔

* کم ظرف دوسروں سے توقعات قائم کرتے ہیں۔

* اعلیٰ ظرف لوگ مخلصانہ خدمت کرتے ہیں۔

* ماں کی خدمت انسان کو حضرت اویس قرنیؒ بنا دیتی ہے۔

* غصہ آگ ہے۔۔۔۔۔۔آگ دوزخ ہے۔

* بچے اللہ میاں کے باغ کے پھول ہیں۔

* بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔استاد تراش خراش کے اسے ہیرا بنا دیتا ہے۔

* اللہ تعالیٰ باہر نہیں ہر شخص کے اندر ہے۔ جو چیز باہر نہیں ہے اس کو باہر ہزاروں سال بھی ڈھونڈا جائے۔۔۔۔۔۔نہیں ملے
گی۔
* وسائل کیلئے کوشش اور جدوجہد کرو لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو۔

* انتقام، ہلاکت و بربادی ہے۔ عفو و درگزر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔

* ہمارے بچے۔۔۔۔۔۔دراصل ہمارا اسلاف ہیں۔ ان کی تربیت اس طرح کی جائے کہ کل یہ بچے اسلاف کے مقام پر فائز
ہو جائیں۔

* اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔۔۔۔۔۔صبر یہ کہ درگزر کیا جائے۔

* جس آدمی میں شک ہے۔۔۔۔۔۔قرآن اس پر اپنی حکمت آشکار نہیں کرتا۔

* زر و جواہر سے زیادہ کوئی شئے بیوفا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔جس نے زر و جواہر سے محبت کی وہ ہلاک ہو گیا اور جس نے دولت کو
پیروں کے نیچے رکھا وہ ہمیشہ اس کی کنیز بنی رہی۔

* جنت اس کی میراث ہے جو خوش رہتا ہے۔ ناخوش آدمی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

* مشاہداتی آنکھ دیکھتی ہے کہ موت سے خوبصورت کوئی زندگی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔

* ہر انسان کے اندر کم و بیش گیارہ ہزار صلاحیتیں ایسی ہیں جن میں ہر ایک صلاحیت پورا علم ہے۔

* انسان ناقابل تذکرہ خلا تھا۔ خلا میں روح آئی تو حرکت پیدا ہوئی۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا امر یہ
ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔

* انسان نے پہلی آواز اللہ تعالیٰ کی سنی ہے اور پہلی مرتبہ اللہ تعالیٰ ہی سے بات کی۔۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ پانچ حواس سے
واقف ہوا۔۔۔۔۔۔

* دنیا فریب ہے۔۔۔۔۔۔فریب خوردہ انسان کی ہر بات فریب ہے۔۔۔۔۔۔جو لوگ یہ بات جان لیتے ہیں ان کے لئے دنیا
سکون کا گہوارہ بن جاتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

* متقی لوگوں پر غیب منکشف ہو جاتا ہے۔

* یہ کیسی عجیب بات ہے اور حرماں نصیبی ہے کہ ہر مذہب کے پیروکار اللہ تعالیٰ، رسول، عذاب، ثواب اور جنت دوزخ کا
تذکرہ تو کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کے راستے پر متحد اور متفق نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔

* دنیا کانٹوں سے بھرا راستہ ہے اور پھولوں کی سیج ہے۔ یہ اپنا اپنا انتخاب ہے۔ کوئی کانٹوں بھری زندگی کو گلے سے لگا لیتا
ہے اور کوئی خوشیوں سے بھری زندگی میں مگن رہتا ہے۔۔۔۔۔۔!

* ہر آدمی پرسکون اور پر مسرت زندگی اپنا سکتا ہے۔ فارمولا یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔جو چیز حاصل ہے اس کو شکر کے ساتھ خوش ہو کر
استعمال کیا جائے اور جو چیز حاصل نہیں ہے اس پر شکوہ نہ کیا جائے۔۔۔۔۔۔اس کے حصول کیلئے تدبیر کے ساتھ دعا کی
جائے۔۔۔۔۔۔
* اللہ تعالیٰ سخی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ خود چاہتے ہیں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کے دسترخوان سے خوش ہو کر کھائے پئے۔
* ہر بیج ہر گٹھلی ازل تا ابد اپنی نوع اپنے خاندان کا ایک ریکارڈ ہے۔

* انسان اللہ تعالیٰ کا نائب ہے اور یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔

* چاند، سورج، ستارے، زمین انسان کی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔ چونکہ کائنات ایک کنبہ ہے اس لئے سورج کو
جب ہم دیکھتے ہیں وہ ہمیں اجنبی نہیں لگتا اور سورج بھی ہمیں کنبہ کا فرد سمجھتا ہے۔

* سات آسمان! سات شعور ہیں۔ جو انسان کے اندر ہمہ وقت متحرک رہتے ہیں۔

* بچہ جب تک خود کفیل نہیں ہوتا ماں باپ کفالت کرتے ہیں۔ آدمی کتنا بھی بڑا ہو جائے اللہ تعالیٰ کے سامنے بچہ بن کر
رہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کی خود کفالت کرتے ہیں۔

* ہم جب پرندوں کی طرف دیکھتے ہیں تو ان کی تعداد اربوں کھربوں سے تجاوز کر جاتی ہے اور جب کسان کی طرف دیکھتے
ہیں تو وہ کرم خوردہ اناج بھی جھاڑو سے سمیٹ لیتا ہے۔ پرندے جب بھوک کا تقاضہ رفع کرنے کیلئے زمین پر اترتے ہیں،
اس سے پہلے کہ پرندوں کے پنجے زمین پر لگیں قدرت زمین پر پرندوں کیلئے دانہ پیدا کر دیتی ہے۔

حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

* ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ سلام میں پہل کرے۔ السلام علیکم کا مطلب ہے ’’آپ پر سلامتی ہو‘‘۔ سلام میں پہل کرنے والا
شخص بلاتخصیص ذات و مراتب دوسروں کے لئے نیک جذبات رکھتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حکم ہے کہ جب تم
اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرو تو انہیں سلام کرو، ان کی خیریت دریافت کرو۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور جب یہ
لوگ آپ کے پاس آتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ ان کو میرا سلام پہنچا دیجئے اور کہہ دیجئے کہ
تمہارے رب نے تم پر مہربانی کرنا اپنے ذمے کر لیا ہے۔‘‘ بچوں کو خود سلام کیجئے تا کہ بچوں کے اندر دوسرے لوگوں کی
بھلائی چاہنے کی عادت پختہ ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

’’وہ آدمی اللہ سے زیادہ قریب ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔‘‘(جامع ترمذی، جلد دوم حدیث590)

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

علم حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ شاگرد کے اندر استاد کی اطاعت، فرمانبرداری اور ادب و احترام کا جذبہ کار فرما ہو، جب تک شاگرد استاد کی بات پر عمل نہیں کرے گا وہ علم نہیں سیکھ سکتا۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

سلوک کے راستے پر گامزن رہنے کیلئے ضروری ہے کہ علوم کے حصول اور ترقی کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سمجھا جائے۔
روحانی علوم کے انعامات کو اپنی ذاتی کوشش نہ سمجھا جائے۔ با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب۔ سالک کی زندگی کیلئے
مشعل راہ ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

مشن کے فروغ کے لئے ’’کبر‘‘ ایسی دیوار ہے جو کسی طرح عبور نہیں کی جا سکتی۔ تکبر شیطانی وصف ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ
سے دور لے جاتا ہے، جب کوئی شخص خود کو دوسرے سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ دراصل ایسے اختلاف کی
بنیاد رکھ دیتا ہے جس پر چل کر لوگ منتشر ہو جاتے ہیں۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

بعض مذہبی دانشوروں کا رجحان ہے کہ وہ دوسروں کی تکذیب کرتے ہیں۔ دوسروں میں عیب تلاش کرتے ہیں۔ تعصب
کے راستے پر چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔یہ عمل اسلام میں افتراق پیدا کرتا ہے۔ اس راستہ سے ہمیشہ گریز کرنا چاہئے۔
* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

سالکین کی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ روحانی علوم کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی بھی حاصل کی جائے۔
* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

تفکر کرنا، کسی ایک نقطے پر ذہن کو مرکوز کرنا اور یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں پر غور کرنا مراقبہ ہے۔ انسان کے اندر
ساڑھے گیارہ ہزار صلاحیتیں موجود ہیں۔ کسی ایک صلاحیت پر بھی ذہن کو مرکوز کرنا اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو ڈھونڈنا اور
تلاش کرنا مراقبہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تین سال تک غار حرا میں مراقبہ کیا ہے۔ مراقبہ سے سالک غیر محسوساتی
طریقے سے نور نبوت اپنے اندر جذب کرنا شروع کر دیتا ہے۔ مراقبہ ایک ایساعمل ہے جس سے اسی وقت فائدہ حاصل
ہوتا ہے جب یہ عمل مسلسل کیا جائے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

اسلام، سائنس اور ریسرچ میں کہیں بھی ٹکراؤ نہیں ہے۔ یہ تینوں باہم مربوط ہیں۔ سینکڑوں مسلم سائنسدانوں نے قرآن
میں موجود مخفی علوم اور انوار سے استفادہ کر کے سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قرآن میں تسخیری فارمولوں اور
مطالعہ کائنات سے متعلق 756آیتیں ہیں۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔

قرآن پاک کے معنی اور مفہوم پر غور کرنے سے بندے کے اندر روحانی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ دماغ کے اندر
کروڑوں
Cellsکھل جاتے ہیں اور انسان باطنی دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ قرآن پاک کی
تلاوت کرتا ہے تو دراصل وہ بندہ اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہوتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ بحیثیت خالق۔۔۔۔۔۔مخلوق سے ایک خاص ربط اور ایک خاص نسبت رکھتے ہیں۔ ہر انسان میں اللہ تعالیٰ کی روح
کام کر رہی ہے۔ اس لئے کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے کو کمتر سمجھے۔ تخلیقی پروگرام کے تحت خواہ وہ مرد ہو یا
عورت ہو، بچہ ہو یا بوڑھا سب اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر ہیں۔ نہ کوئی چھوٹا ہے نہ کوئی بڑا۔۔۔۔۔۔تخلیقی پروگرام میں ہر
شخص کا ایک خاص کردار متعین ہے۔ خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے۔ بڑائی صرف اس کو زیب دیتی ہے جو اللہ تعالیٰ
سے قریب ہو۔ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہو۔ جو اللہ تعالیٰ کو جانتا ہے پہچانتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا
عارف ہے۔ ایسا بندہ عوام کی طرح رہتا ہے اور عوام کی خدمت کرتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

قرآن کے علوم اس بندے پر منکشف نہیں ہوتے جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں شک ہو۔ قرآن ان
لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو متقی ہیں اور متقی کے دل میں شک نہیں ہوتا۔ سالکان کو عموماً اور عظیمی خواتین حضرات کو خصوصاً اس
بات کی مشق کرنی چاہئے کہ ان کے دل میں شک پیدا نہ ہو۔ جب تک اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور
اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن پر یقین کامل نہیں ہو گا آپ روحانی علوم نہیں سیکھ سکتے۔ اس لئے کہ قرآن روحانی علوم کا منبع ہے۔
* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایک صلاحیت دی ہے جو اس کی رہنمائی کرتی ہے۔ جس کے تحت وہ اچھائی اور برائی، خیر اور شر
میں تمیز کرتا ہے۔ اس صلاحیت کو نور باطن یا ضمیر کہتے ہیں۔ ضمیر کی رہنمائی کو قبول کرنے یا رد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے
انسان کو بااختیار بنایا ہے۔ اس لئے انسان کو ضمیر کی تحریکات کو سمجھ کر رہنمائی قبول کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت
ہے کہ تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔‘‘(سورۃ الصف۔ آیت 2-3)

اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق رہنمائی کا فریضہ انجام دینے والا فرد۔۔۔۔۔۔انبیاء کی جن تعلیمات سے لوگوں کو
روشناس کرتا ہے۔ خود ان تعلیمات پر اس کیلئے عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

عموماً لوگ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں کوتاہی کرتے ہیں اور نتیجہ اپنی پسند یا مرضی کے مطابق چاہتے ہیں۔ اور
جب نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نہیں نکلتا تو کڑھتے ہیں اور شکوہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور جب کسی کام کا
عزم مصمم کر لو تو خدا پر بھروسہ رکھو۔ اللہ تعالیٰ اپنے آپ پر بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘ جب بندہ کام کا پختہ
ارادہ کر کے بھرپور کوشش کرتا ہے تو اس کا انجام اچھا ہوتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

بعض لوگ استغنا کا مفہوم غلط بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں! جب اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ دیتا ہے تو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور ایسے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھر اور معاشرے کے دیگر افراد سے کٹ کر تنہائی اور ویرانے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ معاشرے میں بھرپور اور فعال کردار ادا کرنے کے بعد بندے کو جو تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ ان تجربات سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین مستحکم ہوتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

آدمی جب غصہ کرتا ہے تو اس کے شعور میں اضطراب پیدا ہو جاتا ہے۔ اعصاب پر تناؤ طاری ہو جاتا ہے۔ غصہ کرنے والے افراد جسمانی اور نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ اور غصہ کرنے والے لوگوں کی روحانی ترقی رک جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ غصہ کرنے والے بندوں سے محبت نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

سلسہ عظیمیہ تمام نوع انسانی کو متحد ہو کر ’’اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘ کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے
کی دعوت دیتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

ایک انسان کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ہم اس کو کس طرح پہچانتے ہیں اور کیا سمجھتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔ہمارے سامنے گوشت پوست کا بنا
ہوا ایک مجسمہ ہے جو ہڈیوں کے ڈھانچے پر رگ پٹھوں اور کھال سے بنا ہوا ہے۔ ہم اس کا نام جسم رکھتے ہیں۔ جسم کی
حفاظت کیلئے ہم لباس پہنتے ہیں۔ یہ لباس کاٹن، اون، ریشم، نائیلون یا کھال سے بنایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ لباس گوشت
پوست کے جسم کی حفاظت کرتا ہے لیکن فی الحقیقت اس میں اپنی کوئی زندگی یا اپنی کوئی حرکت نہیں ہوتی، جب یہ لباس جسم پر
ہوتا ہے تو جسم کے اعضا کے ساتھ حرکت کرتا ہے۔ یعنی لباس کی حرکت جسم کے تابع ہے۔۔۔۔۔۔اگر جسم یا جسم کے اعضا
حرکت نہ کریں تو لباس میں حرکت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔

اس بات کو مثال سے سمجھئے۔۔۔۔۔۔

آپ سیدھے کھڑے ہو جایئے۔۔۔۔۔۔ہاتھ ہلایئے۔۔۔۔۔۔لیکن کوشش کیجئے کہ ہاتھ پر آستین نہ ہلے۔۔۔۔۔۔کسی بھی طرح ممکن نہیں کہ ہاتھ کے ساتھ آستین نہ ہلے۔۔۔۔۔۔پھر سے سیدھے کھڑے ہو جایئے۔۔۔۔۔۔اب آپ کو یہ کرنا ہے
کہ آستین ہلائیں لیکن ہاتھ نہ ہلے۔۔۔۔۔۔یہ بھی ممکن نہیں!۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ لباس کی اپنی کوئی حرکت نہیں
ہے۔۔۔۔۔۔دراصل لباس جسم کی حفاظت کے لئے یا جسم کی تزئین کیلئے ایک وسیلہ ہے۔۔۔۔۔۔یعنی یہ لباس جب جسم پر ہے
تو جسم کی حرکت اس کے اندر منتقل ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔اور اگر اس لباس کو اتار کر کھونٹی پر لٹکا دیا جائے تو اس کی تمام حرکتیں
ساکت ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔

اسی بات کو مثال سے دوسری طرح سمجھئے۔۔۔۔۔۔ایک آدمی زندہ ہے دوسرا آدمی مر گیا۔۔۔۔۔۔مرنے کے بعد جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیجئے۔۔۔۔۔۔جسم کی اپنی طرف سے کوئی مدافعت نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔لیکن اگر زندہ آدمی کے سوئی چبھو دی جائے تو اسے اس کا احساس ہو گا۔۔۔۔۔۔اس کے معنی یہ ہوئے کہ مرنے کے بعد جسم کی حیثیت صرف لباس کی رہ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔جب مشاہدات اور تجربات نے یہ فیصلہ کر دیا کہ گوشت پوست کا جسم لباس ہے، اصل انسان نہیں تو یہ تلاش کرنا ضروری ہو گیا کہ اصل انسان کیا ہے اور کہاں چلا گیا؟ اس صورت میں ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ جو جسم مادی گوشت پوست کے لباس کو چھوڑ کر کہیں رخصت ہو جاتا ہے، وہ اصل ہے!۔۔۔۔۔۔

انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے اس اصل انسان کو ’’روح‘‘ کہا ہے!۔۔۔۔۔۔اور درحقیقت روح ہی انسان کا اصلی جسم
ہے۔۔۔۔۔۔اور یہی اصلی جسم ان تمام صلاحیتوں کا مالک ہے جن کو ہم زندگی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

انسان صرف نیت کے خدوخال کا نام ہے، باقی تمام حرکات روشنیاں ہیں اور روشنیوں کا عمل حرکت ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

پہچاننے کے دو طریقے ہیں، ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے آدمی کو دیکھتے ہیں۔ پہلے خود کو جسمانی خدوخال
کے ساتھ فہم و ادراک کے ساتھ پہچانتے ہیں، ساتھ ہی اپنے سامنے دوسرے شخص یا دوسری مخلوق کو پہچانتے ہیں۔۔۔۔۔۔دوسری طرز میں پہچاننا یا جاننا اس طرح ہے کہ انسان کے باطنی رخ میں اللہ تعالیٰ کے ارادے کی تمام تصویریں محفوظ ہیں، ظاہری وجود میں جب کوئی شکل و صورت ہمارے سامنے لاتی ہے تو ہم اسے باطنی وجود کے طور پر پہچانتے ہیں۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہر ظاہری رخ باطن کا عکس ہے۔ جب تک کوئی شئے باطنی رخ میں موجود نہیں ہو گی، ظاہری شکل و صورت میں نظر نہیں آئے گی یعنی سارا کا سارا ظاہری رخ باطنی رخ کا عکس ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

مذہب اور لامذہب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ لامذہبیت انسان کے اندر شکوک و شبہات، وسوسے اور غیر یقینی احساسات کو
جنم دیتی ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ مذہب تمام احساسات، خیالات، تصورات اور زندگی کے اعمال کو ایک قائم بالذات اور مستقل
ہستی سے وابستہ کر دیتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

موجودات کی زندگی کے تمام اجزاء اور تمام لوازمات ایک بااختیار ایجنسی کے ذریعے موجودات کو منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ
ایجنسی کے ذریعے یا یہ ہستی مخلوقات کے ارادے اور اختیار کے بغیر انہیں ان گنت وسائل فراہم کر رہی ہے۔ ان وسائل
میں سے اگر ایک بھی ہٹا لیا جائے تو زندگی کی گاڑی رک جائے گی۔ اس ہستی کو جو بھی نام دیا جائے لیکن یہ کہے بغیر چارہ
نہیں ہے کہ اس کی تدبیر و تقدیر میں رحمت کا غلبہ ہے، یہی رحمت ہر جگہ کارفرما ہے اور اگر رحمت نہ ہو تو مخلوقات کی بقا ممکن
نہیں۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

جب انسان اپنی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ راست بازی اور حق و صداقت سے دور ہو جاتا ہے تو انسان کا شعور اس قدر
حیران و سرگرداں ہو جاتا ہے کہ اگر اس کو یقین و صداقت کی روشنی نہ دکھائی جائے تو وہ اپنی راہ گم کر دیتا ہے۔
* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

پہلے انفرادیت ہوتی ہے پھر انفرادیت سے قبیلے بنتے ہیں، قبیلے جمع ہوں تو قوم بنتی ہے۔ بہت سارے افراد کے جمع ہونے
کا نام قبیلہ ہے۔ بہت سارے قبیلوں کے جمع ہونے کا نام قوم ہے اور بہت ساری قوموں کے ایک جگہ جمع ہونے کا نام نوع
ہے۔۔۔۔۔۔انفرادیت
Baseبن گئی۔۔۔۔۔۔یعنی فرد ہو گا تو خاندان اور کنبہ بنے گا۔۔۔۔۔۔بہت سے خاندانوں سے
قبیلہ یا برادری بنے گی۔ ایک فرد نے اگر اپنی طرز فکر یہ بنا لی کہ اس کی ذات سے کسی دوسرے کی ذات کو تکلیف نہیں پہنچے
گی۔۔۔۔۔۔اس کی دس اولادیں ہوئیں، دس کی دس نہیں تو پانچ تو اس کی طرز فکر پر چلیں گی۔۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے
کہ آپ نے اچھائی کا ایک دروازہ کھول دیا۔۔۔۔۔۔پانچ نسلیں اچھی بنیں۔۔۔۔۔۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

جو نور پوری کائنات میں پھیلتا ہے اس میں ہر قسم کی اطلاعات ہوتی ہیں جو کائنات کے ذرہ ذرہ کو ملتی ہیں، ان اطلاعات
میں چکھنا، سونگھنا، سننا، محسوس کرنا، خیال کرنا، وہم و گمان وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔زندگی کا ہر شعبہ، ہر حرکت، ہر کیفیت کامل
طرزوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کو صحیح حالت میں وصول کرنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔۔۔۔۔۔انسان ہر طرز
میں، ہر معاملہ میں، ہر حالت میں کامل استغنیٰ رکھتا ہو۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ جن کے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ وابستگی ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے ہر عمل پر اللہ تعالیٰ محیط ہے جب کسی
بندے کے اندر یہ طرز فکر پوری طرح قائم ہو جاتی ہے تو روحانیت میں ایسے بندہ کا نام مستغنیٰ ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔

اس وقت تک تمہیں اپنے نفس کا عرفان نصیب نہیں ہو گا جب تک تم اپنی انا اور اپنی ذات کی نفی نہیں کر دو گے۔ بندہ جب
اپنے شعوری علم کی نفی کر دیتا ہے، اس پر لاشعوری علوم کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ آج کا انسان مادی ماحول میں اس قدر کھو چکا ہے کہ مذہب کو بھی جس کا کام ہی انسان پر
باطنی دنیا روشن کرنا ہے، مادی لذتوں کا وسیلہ بنانے پر بضد ہے۔ مذہب کا نام استعمال کرنے والے تو بہت ہیں مگر ایمان،
یقین اور مشاہدے کی طلب اس دور میں ناپید ہو چکی ہے۔ جب صاحب ایمان ہی ناپید ہو جائیں تو ایمان کی طلب کون
کرے گا؟۔۔۔۔۔۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

آج کا سائنس دان موجودہ سائنسی ترقی کو نوع انسانی کا انتہائی شعور سمجھتا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک گمراہ کن سوچ ہے، اسی لئے
ہمیں قرآن بتاتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔انسان کی ترقی حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اتنی تھی کہ ایک شخص نے جو پیغمبر نہیں
تھا، پلک جھپکتے کے وقفے میں ڈیڑھ ہزار میل کے طویل فاصلے سے مادی
Formمیں تخت منتقل کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔یہ بات
سائنسدانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کیونکہ وہ اتنی ترقی ہوتے ہوئے بھی کسی معمولی سی چیز کو بغیر مادی وسیلہ کے حرکت نہیں دے
سکتے۔۔۔۔۔۔
* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔سماعت میں نے دی ہے، بصارت میں نے دی ہے تو اس کا مطلب یہ نکلا کہ اطلاع میں نے
دی ہے۔ ہم عام حالات میں جس قدر اطلاعات وصول کرتے ہیں، ان کی نسبت تمام دی گئی اطلاعات کے مقابلے میں کیا
ہے؟۔۔۔۔۔۔شاید صفر سے ملتی جلتی ہو، وصول ہونے والی اطلاعات اتنی محدود ہیں جن کو ناقابل ذکر کہیں گے۔۔۔۔۔۔اگر
ہم وسیع تر اطلاعات حاصل کرنا چاہیں تو اس کا ذریعہ بجز علوم روحانی کے کچھ نہیں اور علوم روحانی کیلئے ہمیں قرآن پاک
سے رجوع کرنا پڑے گا۔

* حضور قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔

آج کی نسلیں گزشتہ نسلوں سے زیادہ مایوس ہیں اور آئندہ نسلیں اور بھی زیادہ مایوس ہونے پر مجبور ہوں گی۔ نتیجہ میں نوع
انسانی کو کسی نہ کسی وقت نقطۂ توحید کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ موجودہ دور کے مفکر اور سائنٹسٹ کو چاہئے کہ وہ وحی کی طرز فکر کو
سمجھے اور نوع انسانی کی غلط رہنمائی سے دست کش ہو جائے۔

سید محمد عظیم برخیاؔ المعروف حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے چند فرمودات آپ نے پڑھے۔۔۔۔۔۔ان فرمودات کو لکھنے کی سعادت اس لئے حاصل کی گئی کہ ہم کھلے ذہن و فکر کے ساتھ ان سے استفادہ کریں۔اولیاء کرام اور عارف باللہ خواتین و حضرات کشف و الہام سے وابستہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔عبادت و ریاضت اور مراقبہ کے ذریعے کشف و الہام کی طرزیں ان کے ذہنوں میں اتنی مستحکم ہو جاتی ہیں کہ مظاہر کے پس پردہ کام کرنے والے حقائق ان پر منکشف ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔اور ان کا ذہن مشیت الٰہی کے اسرار و رموز کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ایسے بزرگوں کی گفتگو علم و عرفان کے اسرار و رموز سے معمور ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اور ہر لفظ میں معرفت اور حکمت و دانائی مخفی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ان حضرات کی گفتگو اور فرمودات پر یکسوئی کے ساتھ تفکر کیا جائے تو کائنات کی ایسی حقیقتیں آشکار ہوتی ہیں ۔جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی اس امانت سے روشناس کرا دیتی ہیں جس کو سماوات، ارض اور جبال نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ہم اس امانت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ اس کے بوجھ سے ہم ریزہ ریزہ ہو جائیں
گے۔۔۔۔۔۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے فرمودات میں حکمت و دانائی اور حقیقت تلاش کرنے کے لئے طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک ایک فرمان کو توجہ کے ساتھ پڑھیں اور آنکھیں بند کر کے اس کے معنی اور مفہوم پر غور کریں۔ یعنی فرمودات کے اندر جو حقیقتیں مخفی ہیں اور اسرار و رموز کا جو سمندر پنہاں ہے، اس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔۔ان اسرار و رموز کا ادراک مراقبہ کے ذریعہ ممکن ہے۔


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!