Topics
انسان موت زیست میں رد و بدل ہو رہا ہے۔ زیست کو سمجھنے کیلئے ہمارے پاس وہ اعمال
و افکار اور حرکات و سکنات ہیں جو ہم زندگی بھر کرتے رہتے ہیں۔ حرکت جسمانی وجود
کے ساتھ ہوتی ہے اور ایک ایسی حالت بھی طاری ہوتی ہے کہ جسمانی وجود معطل ہو جاتا
ہے لیکن حرکات و سکنات اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ قائم رہتی ہیں۔
انسان
بھی عجیب معمہ ہے!۔۔۔۔۔۔کہ اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ زندگی کے ماہ و
سال۔۔۔۔۔۔ایک دن ایسا آئے گا ضرور نابود ہو جائیں گے اور اس عمل سے امیر ہو، غریب
ہو، بادشاہ ہو یا فقیر سب کو گزرنا ہے۔
کوئی
انسان اس حقیقت کو جاننے کے باوجود مرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔
کیوں
آمادہ نہیں ہوتا؟۔۔۔۔۔۔اس لئے آمادہ نہیں ہوتا کہ مرنے کے بعد کی زندگی پر اس کا
یقین شک سے آزاد نہیں ہوتا۔ انسان کی ساری دلچسپیاں دنیوی لذات کے تابع ہیں۔ اگر
اسے یہ یقین ہو جائے کہ دنیوی زندگی کے بعد کی زندگی بھی اس دنیا کی طرح ہے تو موت
کا خوف اس کے ذہن سے نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔انسان کو یہ بات پریشان کرتی ہے کہ میری عمر
محدود ہے۔ اگر یہ محدود عمر ختم ہو جائے تو میں دنیوی آسائشوں اور لذتوں سے محروم
ہو جاؤں گا۔
کتاب
’’سپر برین ان اسلام‘‘ میں امام جعفر صادقؒ اور جابر کا مکالمہ درج ہے:
جابر
نے پوچھا: ’’کیا دین اسلام میں پاداش کی بنیاد موت سے ڈرنے پر رکھی گئی
ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا: ’’موت سے ڈرنے کی بنیاد پر نہیں بلکہ موت کے بعدپاداش سے
خوف کی بنیاد پر ہے۔ مومن مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔۔۔۔۔۔بلکہ اسے موت کے بعد سزا
کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ موت کے بعد سزا سے بچنے کیلئے ساری عمر جن باتوں سے منع کیا
جاتا ہے ان سے پرہیز کرتا ہے۔ ایک مومن مسلمان جو ساری عمر گناہ کا ارتکاب نہیں
کرتا۔۔۔۔۔۔میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ موت کی دعوت کو لبیک کہتا ہے اور اس کی روح
آسانی سے اس کے جسم سے پرواز کر جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‘‘
جابر نے کہا:’’خداوند تعالیٰ جو انسان کو تخلیق کرتا ہے اسے کیوں مارتا ہے؟‘‘
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا: ’’اے جابر!۔۔۔۔۔۔میں نے کہا ہے کہ موت جس طرح عام لوگ تصور
کرتے ہیں وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک حالت کی تبدیلی ہے۔ میں یہ بات دہراتا ہوں کہ
ایک مومن مسلمان اگر عالم ہے تو اس حالت کی تبدیلی سے نہیں ڈرتا کیونکہ اسے علم ہے
کہ موت کے بعد زندہ ہو گا‘‘۔
فرمایا:’’اے
جابر!۔۔۔۔۔۔تو اپنے ماں کے پیٹ میں زندہ تھا یا نہیں؟‘‘
جابر
نے کہا:’’ہاں میں زندہ تھا‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا ماں کے پیٹ میں کھاتا تھا یا نہیں!‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
نے ہاں میں جواب دیا:
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’کیا تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل چھوٹا انسان شمار ہوتا تھا
یا نہیں؟‘‘
جابر
نے کہا:’’میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میں ایک مکمل انسان تھا‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا تجھے یاد ہے کہ تو نے ماں کے پیٹ میں موت کے بارے میں
فکر کی تھی یا نہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔جابر نے جواب دیا:’’مجھے یاد نہیں کہ ماں کے پیٹ میں
موت کے بارے میں غور و فکر کرتا تھا یا نہیں!‘‘
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’یہ بتاؤ کہ ماں کے پیٹ میں تمہاری غذائیں کیا کیا تھیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔جابر
نے کہا:’’ماں کے پیٹ میں زندگی کی حالت کے بارے میں مجھے کچھ بھی یاد نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا اپنی زندگی کو اس جہاں میں اچھا سمجھتے ہو یا ماں کے
پیٹ میں؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر نے کہا:’’ماں کے پیٹ میں میری زندگی بہت مختصر یعنی تقریباً نو ماہ
تھی‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’وہ نو ماہ کی مدت جو تم نے ماں کے پیٹ میں گزاری ہے شاید
وہ نو ماہ کی مدت تمہیں اس دنیا کی اسی یا نوے سال کی عمر سے جو تم اس دنیا میں
گزارو گے، تمہیں زیادہ نظر آئے گی کیونکہ زمانہ ہر قسم کے حالات میں تمام لوگوں کے
لئے ایک جیسا نہیں ہے اور ہر کوئی تھوڑے بہت غور و فکر کے بعد اپنی زندگی میں اس
موضوع کا ادراک کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ کبھی چند گھنٹے تم نے ایسے گزارے ہوں گے کہ تم نے سمجھا ہو گا کہ
ایک گھنٹہ گزرا ہے اور کبھی تمہارے لئے ایک گھنٹہ اس قدر لمبا ہو گا کہ تمہارا
خیال ہو گا کہ تم نے چند گھنٹے گزارے ہیں۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ جو نوماہ کی
مدت تم نے ماں کے پیٹ میں گزاری ہے شاید وہ تمہیں اس موجودہ دنیا کی عمر سے بھی
طویل محسوس ہوئی ہو گی۔
اے
جابر! تو ماں کے پیٹ میں ایک مکمل اور زندہ انسان شمار ہوتا تھا اور باشعور بھی
تھا۔ باشعور ہونے کی نسبت سے شاید تمہاری کچھ آرزوئیں بھی ہونگی اور جبکہ تم اس
دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہو تمہیں ماں کے پیٹ کے زمانے کی کوئی معمولی سی بات
بھی یاد نہیں۔ کیا تم جو ایک فاضل انسان ہو یہ گمان نہیں کرتے کہ تمہارا ماں کے
پیٹ سے باہر نکلنا اور اس دنیا میں داخل ہونا شاید ایک طرح کی موت تھی؟۔۔۔۔۔۔کیا
تم یہ خیال نہیں کرتے کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے تو تم چاہتے تھے کہ تم وہیں رہو
اور وہاں سے ہرگز باہر نہ نکلو؟۔۔۔۔۔۔
تمہارا خیال تھا کہ ماں کے پیٹ سے بہتر اور آرام دہ جہان موجود نہیں۔۔۔۔۔۔جب تم
ماں کے پیٹ سے نکالے گئے (جس کے بارے میں، میں نے کہا ہے کہ وہ موت کی ہی ایک قسم
ہے) اور اس جہاں میں پہنچے تو تم نے رونا دھونا شروع کر دیا۔ لیکن کیا آج تم اس
بات کی تصدیق کرتے ہو کہ جس دنیا میں تم زندگی گزار رہے ہو وہ ماں کے پیٹ کی دنیا
سے کہیں بہتر ہے‘‘۔
جابر
نے کہا:’’اس کے باوجود کہ مجھے ماں کے پیٹ میں اپنی زندگی کی کیفیت کے بارے میں
کچھ علم نہیں، اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ میری زندگی ماں کے شکم کی زندگی سے
زیادہ بہتر ہے‘‘۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’کیا موضوع کا قرینہ نہیں بتاتا کہ موت کے بعد ہمارے زندگی
اس دنیا کی زندگی سے بہتر ہو گی۔‘‘
جابر نے کہا:’’اگر اس دنیا سے بدتر ہو تو پھر؟‘‘
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’جو لوگ اس دنیا میں خداوند تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے
ہیں ان کی دوسرے جہان کی زندگی اس موجودہ جہان کی زندگی سے بہتر ہو گی۔ اس میں شک
و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے اس موضوع کے بارے میں اپنے
بندوں سے واضح وعدہ کیا ہے لہٰذا عقلی لحاظ سے بھی یہی بات درست ہے علاوہ ازیں
خداوند تعالیٰ دانا، توانا اور عادل ہے۔ وہ حاسد نہیں کہ اپنے بندوں کو اچھے جہان
سے برے جہان کی طرف لے جائے اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی تخلیق کا مقصد
اسے کمال تک پہنچانا ہے تو ہمیں یہ بات قبول کرنی چاہئے کہ انسان کی زندگی کا ہر
لمحہ اس کے کمال میں اضافہ کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر خدا نے صریحاً اور کسی ابہام کے
بغیر اپنے بندوں کو موت کے بعد ان کے اچھے اعمال کا اجر دینے کا وعدہ بھی نہ کیا
ہوتا اور یہ نہ کہا ہوتا کہ وہ ابدی سعادت سے بہرہ مند ہوں گے پھر بھی ہماری عقل
یہ سمجھتی۔ کیونکہ انسان کی تخلیق کا مقصد اسے کامل انسان بنانا ہے۔ لہٰذا اس جہان
میں انسان کی زندگی کی حالت اس زندگی کی حالت سے بہتر ہو گی‘‘۔۔۔۔۔۔
امام جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا تمہاری روح
جو تم سے جدا ہوتی ہے اور نقل مکانی کرتی ہے، غذا کھاتی ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر نے کہا:’’ہاں‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا پانی پیتی ہے؟‘‘
جابر
نے کہا:’’جی ہاں‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’کیا جس وقت تمہاری روح کھانے اور پینے میں مشغول ہوتی ہے
تو تمہارے منہ سے کھاتی ہو گی؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
بولا:’’نہیں، کیونکہ میرا منہ خواب میں متحرک نہیں ہوتا‘‘۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا تمہاری روح کھانے پینے کیلئے اپنا منہ استعمال کرتی
ہے؟‘‘
جابر
نے جواب دیا:’’نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’اس کے باوجود کہ اس کا منہ نہیں ہے تو تم سوتے ہوئے خواب
میں غذا کی لذت اور پانی کا مزہ محسوس کرتے ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
نے اثبات میں جواب دیا۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’جب تم خواب دیکھتے ہو تو تمہاری روح چلتی ہے اورایک مقام
سے دوسرے مقام تک جا پہنچتی ہے۔ (مادی) آنکھ نہیں رکھتی مگر دیکھتی ہے۔ اس کے
(مادی) کان نہیں ہیں لیکن سنتی ہے۔ اس کا (جسمانی) منہ نہیں لیکن وہ غذا کھاتی اور
پانی پیتی ہے۔ لہٰذا تمہاری روح ایک آزاد زندگی کی حامل ہے اور خواب دیکھنے کے
دوران تمہاری روح کو زندگی گزارنے کیلئے تمہارے جسم کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
نے کہا:’’اگر میرا جسم نہ ہو تو میں ہرگز خواب نہیں دیکھ سکتا‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’خواب نہیں دیکھ سکتے مگر تمہاری روح تمہارے جسم کے بغیر
زندہ رہ سکتی ہے۔ یاد رکھو!۔۔۔۔۔۔میں نے کہا ہے کہ میں فرض کر رہا ہوں تم مسلمان
نہیں ہو اور میں ایک ایسے شخص سے مخاطب ہوں جو اپنے آپ کو دوسری دنیا میں لے جاتا
ہے۔ تم نے کہا کہ اگر تمہارا جسم نہ ہو تو تم خواب نہیں دیکھو گے اور میں نے
تمہارے قول کی تصدیق کی ہے۔ اب تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا خواب دیکھنے کے دوران
تمہاری روح ایک آزاد زندگی کی حامل ہو جاتی ہے اور جہاں جانا چاہتی ہے جاتی ہے اور
جو کرنا چاہتی ہے کرتی ہے۔ کیا وہ وجود رکھتی ہے یا نہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
نے کہا:’’ہاں‘‘۔۔۔۔۔۔
امام
جعفر صادقؒ نے پوچھا:’’کیا روح کے خواب دیکھنے کے دوران موجود ہونے اور اس کی
آزادانہ زندگی میں تمہیں کوئی شک ہے یا نہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔
جابر
نے جواب دیا:’’کوئی شک نہیں!‘‘۔۔۔۔۔۔
حضرت
امام جعفرؒ جو حضرت امام محمد باقرؒ کے سعید اور معزز فرزند ہیں۔ اسلامی دنیا کے
مفکر اعظم ہیں۔ حضرت امام جعفر صادقؒ اپنے والد بزرگوار حضرت امام محمد باقرؒ کی
درسگاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور اس درسگاہ میں ہر شخص کو علم
سیکھنے کی اجازت تھی۔۔۔۔۔۔حضرت امام جعفر صادقؒ کے شاگردوں میں بڑے بڑے محقق، مفکر
اور سائنٹسٹ پیدا ہوئے ہیں۔
حضور قلندر بابا اولیاءؒ بھی اسی محترم خاندان کے خانوادہ ہیں۔ حضور قلندر بابا
اولیاءؒ نے موت و زیست کے موجودہ سائنسی ذہن کے مطابق عقدہ کشائی کی ہے اور خواب
کے اوپر ایک مسبوط باب رقم کیا۔
حضور
قلندر بابا اولیاءؒ کے ایک شاگرد نے پوچھا:’’سرکار!۔۔۔۔۔۔روح اور مادی وجود کیا
ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔
قلندر بابا اولیاءؒ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔’’جسمانی وجود روح کا لباس ہے۔ ہر انسان اس بات
سے واقف ہے کہ وہ جسمانی آرام اور جسم کو سرد و گرم سے محفوظ رکھنے کیلئے لباس
بناتا ہے۔ لباس پتوں کا ہو۔۔۔۔۔۔درخت کی چھال کا ہو۔۔۔۔۔۔کھال کا ہو۔۔۔۔۔۔سوت کا
ہو۔۔۔۔۔۔اُون کا ہو یا نائلون کا ہو۔۔۔۔۔۔لباس کی تعریف یہ ہے کہ وہ جسم کو اس طرح
ڈھانپ لے یا جسم کے ساتھ اس طرح اس کی وابستگی ہو جائے کہ جسم چھپ جائے اور لباس
ظاہر ہو جائے۔۔۔۔۔۔ایسی صورت میں لباس کی حرکت جسم کے تابع ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔۔جسم
میں حرکت ہوتی ہے تو لباس میں بھی حرکت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔جسم میں حرکت نہیں ہوتی تو
لباس میں بھی حرکت نہیں ہوتی‘‘۔۔۔۔۔۔
شاگرد
نے پوچھا:’’سرکار!۔۔۔۔۔۔اس کی مزید وضاحت کیجئے‘‘۔۔۔۔۔۔
قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرمایا:’’ایک آدمی ہے۔ گوشت پوست اور اعضا کا بنا ہوا مکمل
آدمی۔۔۔۔۔۔اس آدمی نے لباس پہن لیا۔۔۔۔۔۔جسم کے اوپری حصے پر قمیض پہن لی۔۔۔۔۔۔اور
باقی حصے پر شلوار یا پتلون پہن لی۔۔۔۔۔۔اب ہم اس آدمی سے یہ کہتے ہیں کہ قمیض سے
آستین چلاؤ۔۔۔۔۔۔لیکن تمہارا ہاتھ نہ ہلے۔۔۔۔۔۔وہ بندہ اس سلسلے میں عاجز
ہے۔۔۔۔۔۔اس لئے کہ آستین کی حرکت جسمانی وجود کے تابع ہے۔۔۔۔۔۔جسمانی وجود، ہاتھ
ہلے گا تو آستین ہلے گی۔ ہاتھ نہیں ہلے گا تو آستین نہیں ہلے گی۔۔۔۔۔۔
اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ قمیض شلوار کو چارپائی پر اس طرح لٹا دیا جائے کہ اس پر
کسی آدمی کا گمان ہو۔۔۔۔۔۔اب اس لباس سے کہا جائے کہ تو اُٹھ کر بیٹھ جا۔۔۔۔۔۔لباس
میں ہرگز کوئی حرکت واقع نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔اس تشریح کا واضح مفہوم یہ ہوا کہ جسم کے
اوپر لباس کی اپنی ذاتی کوئی حرکت واقع نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔اس تشریح کا واضح مفہوم یہ
ہوا کہ جسم کے اوپر لباس کی اپنی ذاتی کوئی حرکت نہیں ہے۔ لباس جسم کے ساتھ اس طرح
وابستہ ہے اور اس طرح جسم کے تابع ہے کہ جسم ہلے گا تو لباس ہلے گا۔۔۔۔۔۔جسم میں
حرکت ہو گی تو لباس میں حرکت ہو گی۔ جسم میں حرکت نہیں ہو گی تو لباس میں حرکت
نہیں ہو گی‘‘۔
شاگرد
نے پوچھا:’’کیا آپ یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ مادی جسم روح کا لباس ہے؟‘‘
قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرمایا:’’میں یہ کہہ رہا ہوں کہ روح اصل ہے جسم قائم مقام
ہے۔۔۔۔۔۔یعنی مادی وجود جو عناصر کا مرکب ہے۔۔۔۔۔۔وہ لباس ہے۔۔۔۔۔۔روح جب تک عناصر
سے مرکب تخلیق یعنی مادی وجود کو اپنے اوپر لباس کی طرح پہنے رہتی ہے تو مادی وجود
میں حرکت ہوتی ہے‘‘۔۔۔۔۔۔
شاگرد
نے پوچھا:’’کیا عناصر سے تخلیق شدہ مادی وجود کی کوئی حیثیت نہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔
قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرمایا:’’حیثیت ہے!۔۔۔۔۔۔لیکن حرکت میں ذاتی عمل دخل نہیں
ہے۔۔۔۔۔۔اور اس کی مثال ہمارے سامنے مردہ اجسام کی ہے۔۔۔۔۔۔مادی وجود سے جب روح
رشتہ منقطع کر لیتی ہے تو مادی وجود کے تمام اعضاء موجود ہونے کے باوجود ان میں
کوئی حرکت نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔مذہبی رسومات کے تحت مردہ جسم کو قبر میں اُتار دیا جائے
یا جلا دیا جائے یا چیل کوؤں کو ڈال دیا جائے۔ پوسٹ مارٹم کر کے عضو عضو الگ کر
دیا جائے۔ مادی وجود میں کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ لیکن اس کے برعکس جب روح مادی
وجود کو لباس کی طرح پہنے رہتی ہے تو سوئی چبھنے کا درد ہوتا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔
شاگرد
نے پوچھا:’’جب مادی وجود کی حیثیت لباس کی ہے اور روح کی حیثیت اصل جسم کی ہے تو
کیا مرنے کے بعد روح کھاتی پیتی۔۔۔۔۔۔سوتی جاگتی۔۔۔۔۔۔پہنتی بولتی اور دوسرے مشاغل
میں مصروف رہتی ہے؟۔۔۔۔۔۔اگر مصروف رہتی ہے تو مادی وجود کی حیثیت پھر کیا
ہوئی؟‘‘۔۔۔۔۔۔
قلندر
بابا اولیاءؒ نے فرمایا’’اس کی مثال یہ ہے۔۔۔۔۔۔آدمی خواب دیکھتا ہے۔ خواب کے بارے
میں مختلف نظریات ہیں کوئی کہتا ہے خواب محض خیالات ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔کوئی کہتا ہے
خواب ناآسودہ خواہشات کا عکس ہے۔۔۔۔۔۔ہر شخص اپنی فکر و علم کے مطابق خواب کے بارے
میں کچھ نہ کچھ کہتا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جس طرح گوشت
پوست کے جسم کے ساتھ روح حرکت کرتی ہے اسی طرح گوشت پوست کے جسم کے بغیر بھی روح
متحرک رہتی ہے۔۔۔۔۔۔جب روح متحرک رہتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس دنیا کی طرح
دوسری دنیا میں بھی خواہشات، جذبات، احساسات اور تسکین کے عوامل موجود ہیں۔۔۔۔۔۔
ہر شخص ایک یا دو یا زیادہ خواب ایسے ضرور دیکھتا ہے کہ خواب دیکھنے کے بعد جب وہ
بیدار ہوتا ہے تو خواب میں کئے ہوئے اعمال کا اثر اس پر باقی رہتا ہے۔ اس کی ایک
بڑی واضح مثال خواب میں کئے گئے اعمال کے نتیجے میں غسل کا واجب ہو جانا
ہے۔۔۔۔۔۔جس طرح کوئی آدمی بیداری میں جنسی لذت حاصل کرنے کے بعد ناپاک ہو جاتا ہے
اور مذہباً اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اسی طرح خواب میں کئے گئے اس عمل کے
بعد بھی اس کے اوپر غسل واجب ہو جاتا ہے اور وہ اس وقت تک نماز ادا نہیں کر سکتا
جب تک وہ غسل جنابت سے فارغ نہ ہو۔ اس مثال سے یہ واضح ہوا کہ روح مادی وجود کے
بغیر بھی اگر حرکت کرے تب بھی مادی وجود پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بشرطیکہ جسم پر
پوری طرح موت وارد نہ ہو۔۔۔۔۔۔مذہب نیند کو آدھی موت قرار دیتا ہے‘‘۔۔۔۔۔۔
حضرت
امام جعفر صادقؒ کے ارشاد کے مطابق اگر روحانی وجود کا علم حاصل کر لیا جائے تو
مادی وجود کی ثانوی حیثیت مشاہدہ بن جاتی ہے۔
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
’’مر
جاؤ مرنے سے پہلے‘‘
(مفہوم
حدیث، مشکوٰۃ شریف، جلد چہارم۔ حدیث 1150)
مرجاؤ
مرنے سے پہلے کا مفہوم یہ ہے کہ اس زندگی میں رہتے ہوئے مرنے کے بعد کی زندگی کا
علم حاصل کر لو۔ انسان کو جب روح کا علم حاصل ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سے موت کا
خوف نکل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ اس دنیا کے بعد دوسری دنیا میں جانے کی اس لئے تمنا
کرتا ہے کہ دوسری دنیا اس دنیا سے بدرجہ بہتر ہے۔
جیسا
کہ امام جعفر صادقؒ نے فرمایا:’’خداوند تعالیٰ دانا، توانا اور عادل ہے۔ وہ حاسد
نہیں کہ اپنے بندوں کو اچھے جہان سے بُرے جہان کی طرف لے جائے‘‘۔