Topics

اولیاء اللہ کا مشن

لوگ پہلے بھی روٹی کھاتے تھے۔۔۔۔۔۔

پہلے بھی کپڑے پہنتے تھے۔۔۔۔۔۔

پہلے بھی گھروں میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔

امیر بھی تھے، غریب بھی تھے۔۔۔۔۔۔

کمزور، ضعیف اور توانا بھی تھے۔۔۔۔۔۔

لیکن معاشرے میں بندھن تھا۔ حفظِ مراتب تھا۔ زندگی گزارنے کے اصول تھے۔

رشتے دار غریب بھی ہوتے تھے، امیر بھی ہوتے تھے لیکن غریب رشتہ دار کی امیر رشتے دار بے حرمتی نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔۔
یا غریب رشتے دار امیر رشتہ دار کی پرستش نہیں کرتا تھا۔۔۔۔۔۔

آج جب کہ زندگی کو آرام پہنچانے والے وسائل کا انبار ہے۔

پیسے کی افراط ہے۔۔۔۔۔۔گھر گھر ٹی وی، ریڈیو، کمپیوٹر، موٹر کاریں ہیں۔ کمروں میں اے سی لگے ہوئے ہیں۔ بڑے گھروں میں اسپلٹ نصب ہیں، عالیشان فرنیچرز ہیں، بہترین کراکری ہے۔ بنگلے پھول پھلواری سے مزین ہیں۔ کیبل ہے، جہاں کیبل نہیں ہے ڈش انٹینا ہے۔ ہر کمرے میں نہیں تو ہر دوسرے یا تیسرے کمرے میں فریج ہے۔لیکن خود غرضی عروج پر ہے۔۔۔۔۔۔لگتا ہے ہر آدمی ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ بیشمار لوگ ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ پوری پوری رات جاگتے ہیں۔ نیند روٹھ گئی۔۔۔۔۔۔صحت خوفزدہ ہو کر بھاگ گئی۔۔۔۔۔۔بیماریوں نے انسان کو نگل لینے کا منصوبہ بنا لیا۔کیسی عجیب بات ہے؟!!
آج کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ دور میں والدین اور بزرگوں کا احترام کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور یہ پہلا قدم ہے جہاں سے اعلیٰ اخلاقی قدروں میں شکست و ریخت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ والدین امیر ہوں یا غریب، اولاد کی خوشی سب میں یکساں ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ترقی کرے۔۔۔۔۔۔اچھے مقام تک رسائی حاصل کرے۔۔۔۔۔۔یہ دوسری بات ہے کہ والدین اولاد کی بہتری کے تمام فیصلے اپنے وسائل کے مطابق کرتے ہیں۔ بعض والدین اپنی اولاد کو بہترین اور بھاری فیسوں والے تعلیمی اداروں سے تعلیم دلاتے ہیں۔ جن کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے وہ کم فیسوں والے اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کرتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو تعلیمی اخراجات پورے نہیں کر سکتا یا بچوں کو تعلیم دلوانے کا شعور ان میں نہیں ہے لیکن اولاد کی بہتری یہاں بھی زیر بحث آتی ہے۔ایسے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ایسا ذریعہ معاش اختیار کرے، ایسا کام سیکھے یا وہ کاروبار کرے جس سے وہ والدین سے زیادہ مستحکم حیثیت حاصل کر لے۔پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اولاد کیلئے والدین بوجھ بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟

ہر باشعور انسان اپنی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کے پیش نظر اپنی نسل ہوتی ہے، اپنی ذات نہیں ہوتی۔ جس بندے کے پیش نظر اپنی ذات ہے، اس نے انسانی دائرے میں پوری طرح قدم ہی نہیں رکھا ہے۔ ایسا شخص دنیا میں خود بھی مایوس و پریشان رہتا ہے اور اگلی نسل کو بھی یہی مایوسی ورثہ میں منتقل کرتا ہے۔

اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگلی نسل کے بارے میں منصوبہ بندی بھی آدمی کے شعور اور مخصوص ماحول پر منحصر ہے۔
ہر انفرادی کوشش کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ اس کے پیش نظر صرف اس کی ذات ہوتی ہے۔ اپنی ذات، اپنے خاندان اور اپنی نسل کیلئے کوشش بھی انفرادی محدود شعور میں آتی ہے۔

حضرت آدم ؑ سے لے کر سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک تمام پیغمبران کرام علیہم السلام کی زندگی کا۔۔۔۔۔۔ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ہی بات نظر آئے گی کہ ہر پیغمبر نے اجتماعی طرزوں میں کوشش کی۔ پوری نوع انسانی کی بھلائی ان کے پیش نظر رہی۔
موجودہ دور کے روحانی بزرگ حضور قلندر بابا اولیاءؒ کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ سکون اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جس کی سوچ کا دائرہ کار لامحدود وسعت کا حامل ہو جاتا ہے۔ جو لامحدود ذہن رکھتا ہے، جس کے سامنے اپنی ذات نہیں ہوتی بلکہ پوری نوع انسانی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔پوری کائنات ہوتی ہے۔ اس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ہستی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔

جب ہم اس پیغمبرانہ طرز فکر کو قبول کر کے آگے بڑھیں گے تو انشاء اللہ راستے کھلتے چلے جائیں گے۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش برسے گی اور اس بارش میں شاداں، فرحاں آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ ہمیں راستے ملتے رہیں گے۔ہمیں بڑھتا دیکھ کر ہماری اولاد بھی آگے بڑھے گی۔ اولاد کی اولاد بھی خود شناسی اور معرفت کی راہوں پر چل پڑے گی۔ اس طرح نسل در نسل پیغمبرانہ طرز فکر آگے بڑھتی رہے گی۔

قوم کے بزرگوں کا فرض پوری نوع انسانی کیلئے سوچنا ہے۔۔۔۔۔۔نوجوان نسل کی ذمہ داری ہے کہ مخلوق کے تمام افراد آپس میں پیار و محبت سے رہیں۔ پیغمبرانہ تعلیمات پر عمل کریں۔ ان تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ یہ کائنات اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے۔ ایک برادری ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ کنبہ کے تمام افراد آپس میں مل جل کر رہیں۔ خوش رہیں لہٰذا ہم اللہ تعالیٰ کو اسی وقت پہچان سکتے ہیں، اس کا عرفان حاصل کر سکتے ہیں، روحانی انسان بن سکتے ہیں اور اپنی روحانی صلاحیتیں بیدار کر سکتے ہیں، جب ہم وہ کام کریں جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کنبہ کے اچھے فرد بن کر رہیں۔خوش رہیں، دوسروں کو بھی خوش رکھیں۔ آپس میں پیار و محبت سے رہیں۔ اپنی روحانی صلاحیتوں کو بیدار کر کے ان سے لوگوں کو فائدہ پہنچائیں۔

تمام انبیائے کرام علیہم السلام اور اولیاء اللہ کا یہی مشن ہے کہ بندہ جس طرح اپنے والدین سے وقوف رکھتا ہے اسی طرح اپنے خالق کا عرفان حاصل کرے۔


 


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!