Topics

چہرہ


یورپ میں 24گھنٹے کھلے ہوئے اسٹوروں میں، بڑے بڑے دفاتر میں۔ آسمان سے چھوتی ہوئی
۱۱۰منزلہ عمارتوں میں کیمرے نصب ہیں، کیمرے سے لگا ہوا چند انچ کا شیشہ ہر آنے جانے والے فرد اور ماحول میں جو کچھ موجود ہے اس کا عکس قبول کرتا ہے اور یہ عکس فلم کی طرح ریکارڈ ہوتا رہتا ہے۔

سُپر اسٹور کا مالک شام کرسی پر بیٹھ کر TVاسکرین کے ذریعے پورے دن کی کارگزاری دیکھ لیتا ہے۔ کسی سیلزمین یا منیجر نے اسٹور میں سے ایک سیب بھی کھا لیا تو اس کی فلم بھی اسٹور کے مالک کے سامنے آ جاتی ہے۔ کہکشانی نظام کو دیکھنے کے لئے بھی دوربین ایجاد ہوئیں ہیں۔ مائیکرواسکوپ پر کروڑوں سال پر محیط موجود ستارے اور کہکشائیں نظر آتی ہیں۔ مادی سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ مادے کو صیقل کر کے جین Geneاور DNAانسان کے سامنے آ گیا ہے۔

ہر مذہب کے پیروکار کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے یا ہو چکا ہے وہ سب پہلے سے لکھا ہوا ہے۔ پہلے سے لکھی ہوئی تحریریں زمین کی اسکرین پر TVاسکرین کی طرح نظر آ رہی ہیں۔

سائنسی طریقہ کی یہ مثالیں ہمیں اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یہ دنیا ماضی ہو حال ہو یا مستقبل ہو۔۔۔۔۔۔ایک ریکارڈ شدہ عمل ہے یعنی فلم ریلیز ہو رہی ہے۔ زندگی کا تجزیہ کرنے سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ ہر انسان ایک فلم ہے اور اس فلم میں اس کی زندگی کا ہر لمحہ۔۔۔۔۔۔ہر خیال، ہر تصور۔۔۔۔۔۔ہر احساس ریکارڈ ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’ہم نیکوں کاروں کو ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیں گے ان کے چہرے کو ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھیں گے اور انہیں جنت میں بہترین مقام عطا کریں گے‘‘۔

(سورۃ یونس۔ آیت 26)

’’ہم بدکاروں کو ان کے اعمال کے مطابق سزا دیں گے۔ ذلت و رسوائی سے ان کے چہرے سیاہ ہو جائیں گے۔ ان کی کھال کا رنگ ایسا ہو جائے گا جیسے سیاہ تاریک شب کا کوئی ٹکڑا ان کے چہرے پر چپکا دیا ہو۔ یہ لوگ جہنم میں رہیں گے‘‘۔
(سورۃ یونس۔ آیت 27)


قانون یہ ہے کہ بندہ جس قسم کا کام کرتا ہے اسی مناسبت سے اس کے چہرے پر تاثرات قائم ہوتے رہتے ہیں اور یہ تاثرات دراصل اچھے اور بُرے اعمال کا عکس ہیں۔۔۔۔۔۔

مشاہداتی آنکھ سے دیکھنے والے خواتین و حضرات بتاتے ہیں کہ ہر انسان کے دائیں بائیں کندھوں پر دو فرشتوں کی ڈیوٹی ہے اور ان دونوں فرشتوں کے پاس دو الگ الگ وڈیو کیمرے ہیں اور یہ وڈیو کیمرے اس طرح فٹ ہیں کہ انسان کا ہر اچھا بُرا عمل اور حرکت کی فلم مسلسل بن رہی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک کنٹرول کرنے کے لئے کیمرے نصب ہیں۔ یہ کیمرے ٹریفک کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ وہ موٹر کار کی اسپیڈ کو بھی ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ U.A.Eمیں ایک صاحب کا تیز رفتاری میں چالان ہو گیا۔ انہوں نے اس جرم کو قبول نہیں کیا۔ پولیس نے انہیں بلا کر ایک کمرے میں بٹھایا اور ان کی تیز رفتار کی فلم ان کو دکھائی۔ مفہوم یہ ہے کہ مادی دنیامیں بھی انسانی زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہو سکتا ہے۔

جب مادی دنیا میں زندگی کا ہر عمل ریکارڈ ہو رہا ہے تو یہ بات ہر طرح قابل قبول ہے کہ کراماً کاتبین بھی ہماری زندگی کی وڈیو فلم بنا رہے ہیں۔ کراماً کاتبین کی بنائی ہوئی فلم انسانی چہرے پر چلتی رہتی ہے۔

ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ایک پریشان حال مصیبت کا مارا اور غموں و آلام میں ڈوبے ہوئے آدمی کے چہرے پر پریشانی اور اضطراب کے پورے پورے آثار موجود ہوتے ہیں۔ ایسا کوئی ایک پریشان حال لوگوں کی محفل میں آ جائے تو ساری محفل افسردہ ہو جاتی ہے اور یہ بات بھی مشاہدے میں ہے کہ ایک مطئن پُرسکون اور پاکیزہ شخص کسی محفل میں موجود ہو تو پوری مجلس میں خوشی یا مسرت و سکون کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ ہر انسان کو اس بات کا یقین کر لینا چاہئے کہ کسی بڑی بلڈنگ کی طرح۔۔۔۔۔۔سُپر اسٹور کی طرح یا ٹریفک کنٹرول کرنے والے کیمرے کی طرح انسان پر بھی دو کیمرے لگے ہوئے ہیں اور یہ ہر ہر انسانی عمل کو ریکارڈ کر رہے ہیں۔ اس ریکارڈ میں کسی بھی طرح کی خرابی یا کوتاہی اس لئے نہیں ہوتی کہ ان کیمروں کا کنٹرول فرشتوں کے ہاتھ میں ہے۔ یہی وہ فلم ہے کہ جس کو انسان زندگی میں بھی دیکھتا رہتا ہے اور آخرت میں بھی یہی فلم دکھائی جائے گی۔۔۔۔۔۔

کوئی انسان جب غمگین، پریشان، بے چین اور مضطرب ہوتا ہے تو غم و آلام کے خیالات اس کے شعور پر مسلط ہو جاتے ہیں اور جب کوئی انسان خوش ہوتا ہے تو اسے اطمینان و سکون قلب حاصل ہوتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے شعور میں پاکیزہ لطیف اور معطر خیالات کا غلبہ ہوتا ہے یعنی انسانی زندگی کی وڈیو فلم کے مناظر اس کے ذہن کی اسکرین پر نشر ہوتے ہیں۔
ہر انسان آنکھ سے دیکھتا ہے، آنکھ سے دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آنکھ کے اندر ہزاروں عضلات ہیں جو دیکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ آنکھ کے کیمرے کو دماغ کنٹرول کرتا ہے، دماغ میں
۱۲ کھرب خلیے کام کرتے ہیں۔

اچھے یا بُرے خیالات، اچھے یا بُرے اعمال۔۔۔۔۔۔خوشبو، بدبو کی طرح ہیں۔ ماحول میں جب خوشبو پھیلتی ہے کوئی سونگھے یا نہ سونگھے خوشبو اسے ضرور آتی ہے۔ ماحول میں جب بدبو پھیلتی ہے اس سے بھی ماحول میں رہنے والے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔
اسی طرح جب اچھے اعمال کا عکس چہرے پر پڑتا ہے لوگ اسے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں جب بُرے اعمال کا عکس چہرے پر پڑتا ہے لوگ پراگندہ خاطر ہوتے ہیں۔

ہر آدمی کا چہرہ اس کا انڈکس ہے۔۔۔۔۔۔ہمیں اگر اس بات کا یقین حاصل ہو جائے کہ ہمارے اعمال کی ہر وقت فلم بن رہی ہے اور فلم چہرے کی اسکرین پر موجود رہتی ہے تو ہمارا رویہ منفی کی بجائے خود بخود مثبت ہو جائے گا۔


 


Waqt

خواجہ شمس الدین عظیمی


 

گُم ہو گیا بس اس کے سوا کیا معلوم
کس سمت سے وہ نکل گیا کیا معلوم
ممکن نہیں اس تک ہو رسائی اپنی

جو وقت گیا کہاں گیا کیا معلوم
(حضور قلندر بابا اولیاءؒ )

 

انتساب

اللہ تعالیٰ
کی اس صدا
کے نام

۔۔۔۔۔۔
جس سے ’’کائنات‘‘
وجود میں
آ گئی!!